دین اسلام امن،محبت،آشتی و روادری کا دین ہے جس میں کوئی جبر نہیں. اللہ عزوجل کا پسندیدہ دین اسلام ہے. اسلام نے ماں کی گود سے لیکر قبر کی گور تک حتیٰ کہ آخرت تک کے تمام معاملات ہمیں سمجھا دیئے ہیں اور کہیں کوئی سختی بیان نہیں کی گئی. لیکن آجکل اس گئے گزرے دوراور پرفتن دور میں ہم نے دین پر چلنا اپنے لئے مشکل بنادیا ہے، جس کی وجہ سے ہم مصائب،پریشانیوں،اور طرح طرح کے گھمبیر مسائل میں گھرے ہو ئے ہیں.
سب سے بڑھ کر ہر دوسرا بندہ آج ڈپریشن کا شکار ہے،سکون نہیں ہے،زندگی میں افراتفری ہے. یہ سارے معاملات جو جنم لے رہے ہیں وہ صرف اور صرف دین سیت دوری ہے. اگر آج مسلمان دین پر صحیح معنوں میں چلنے والا بن جائے اور حضور نبی کریمﷺکی سیرت طیبہ کو اپنا لے تو زندگی میں سکون آجائے گا. اللہ کا قرب حاصل ہو جائے گا. آج کے اس معاشرے میں جس میں ہم آج گھرے ہو ئے، طرح طرح کی برائیاں ہیں. جس میں سب سے پہلے جھوٹ،غیبت،چغلی،تہمت، الزام تراشی، بہتان، اور بد گمانی،گالم گلوچ، ہمارے معاشرتی سکون کے لئے زہر قاتل ہیں۔
اسی طرح اسلام گالی کو سنگین جرم اورگناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اسلام میں تو ایک غیر مسلم کو گالی دینا جائز نہیں.افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گالم گلوچ کو بطور ہتھیاراور آخری حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو تعلیمات دین اسلام اور تعلیمات محمدی ﷺ کی سراسر منافی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو یہاں تک حکم دیا ہے کہ غیر مسلموں کے جھوٹے معبودوں (بتوں) کو بھی گالیاں نہ دو،ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ:” اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں.پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے.“(الانعام، 6: 108)
یہ رویئے ہماری خوشیوں کو برباد کردیتے ہیں اورہر گھر اور ہر ایک فرد ان سے متاثر ہوتا ہے۔قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے:
”اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤاور نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو، ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے،اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں.“(الحجرات:11)
اسی طرح بد گو انسان کو سورۃ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے:
”ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کیلئے ہلاکت ہے.“(الھمزہ:1)
سورۃ القلم میں بھی طعنہ دینے والے شخص کیلئے وعید آئی ہے۔ ماہرین نفسیات ان منفی رویوں کو سماجی مسائل اور بگاڑ اکا باعث سمجھتے ہیں۔ قرآن حکیم نے ان امور کے بارے میں واضح تعلیمات دی ہیں۔ فرمایا کہ دوسروں کے معاملات کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔ کسی کے خلاف تہمت نہ لگاؤ۔ ایک دوسرے کا تمسخر نہ اڑاؤ، ایک دوسرے کی ذلت نہ کرو۔ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔ باری تعالیٰ نے یہ بھی حکم دیا کہ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی مت کرو۔ کسی سے حسد نہ کرو۔ خواہ مخواہ افواہیں نہ پھیلاؤ اور غلط باتوں کا چرچا نہ کرو۔بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
“بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔”
مسند احمد میں حضرت عبدالرحمٰن بن غنمؓ اور حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
“اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے اور برترین بندے وہ ہیں جو چغلیاں کھانے والے، دوستوں میں جدائی ڈالنے والے ہیں اور جو اس خواہش اور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے پاک دامن بندوں کو بدنام اور پریشان کریں۔”
قرآن پاک اور رسول اکرم ؐ کے ان احکامات کو ہمیں اپنی زندگی کا نصب العین بنا لینا چاہیے اور اگر کوئی بد گمانی پھیلانے کی کوشش کرے تو اسے وہیں روک دیں یا پھر دوسرے فریق سے اس بات کی تصدیق کرلیں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو دلوں میں دوریاں اور تعلقات میں دراڑیں بڑھتی جائیں گی۔ کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:
بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔
ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
“مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔”
ایک اور حدیث میں ہے:
“جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔”
ایک روایت میں ہے:
“جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا، تہمت، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں، تو اللہ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے (رک جائے، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)”.(مسند احمد:7/204، سنن ابی داود: 3597،، تخریج مشکاۃ المصابیح:3/436،3542)
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
“سات مہلک چیزوں سے بچو، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول وہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، جادو، جس جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کا سوائے حق کے قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا اور جنگ کے دن پشت پھیر کر بھاگ جانا اور غافل مومن پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔”(بخاری، مسلم)
بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت میں نبی اکرم ﷺ نے گالی گلوچ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:
“منافق کی چار نشانیاں ہیں۔جب بولے جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے،امین بنایا جائے توخیانت کرے اور جب جھگڑا ہوجائے توگالی گلوچ پر اتر آئے۔”
مسلم شریف کی روایت ہے کہ جب دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کریں تو گناہ ابتدا کرنے والے پر ہی ہوگا،جب تک کے مظلوم حد سے نہ بڑھے۔ایک طرف تو نبی اکرم ﷺ نے گالی گلوچ سے منع کیا اورفرمایا کہ گالی گلوچ کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہوگااور دوسری طرف اخلاقی طور پر یہ بھی ہدایت کی ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دیا جائے،اس لیے کہ اس طرح کرنے سے دونوں میں کوئی فرق نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے(اسے چاہیئے یا تو) وہ بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ “(صحیح بخاری6018، صحیح مسلم:4774)
سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! مسلمانوں میں سے کون افضل ہے؟آپﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔(بخاری:مسلم 4266)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“یعنی ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور اس کی عزت آبرو قابل احترام ہیں۔”(بخاری: 67)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
ترجمہ: جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری:6474)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کثرت کے ساتھ کون سی چیز جہنم میں داخل کرے گی؟ وہ دو کھوکھلی چیزیں، زبان اور شرمگاہ ہیں۔(سنن ترمذی2004، سنن ابن ماجہ:4246واسنادہ صحیح)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا،مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑا کرو، جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہوگا، ا للہ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے، اور اللہ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دیں گے .(ابو داؤد)
اللہ عز وجل ہم سب تہمت،الزام تراشی،بہتان بازی اور گالم گلوچ اور دیگر تمام لغویات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہم سب کو دین اسلام اور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہو نے کی توفیق نصیب فرمائے.



تبصرہ لکھیے