ہوم << فلسطین پر فرانس کا موقف، ہنگامہ ہے کیوں برپاِ؟ - ڈاکٹر مشتاق احمد

فلسطین پر فرانس کا موقف، ہنگامہ ہے کیوں برپاِ؟ - ڈاکٹر مشتاق احمد

فرانس کے صدر نے کل اپنی ٹویٹ کے ذریعے دنیا کو بتایا کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے جارہا ہے۔ اس بیان پر حسبِ توقع اسرائیل اور امریکا کی جانب سے شدید ردِّ عمل کا اظہار کیا گیا ہے، اور اس شدید ردِّ عمل کو دیکھ کر ہمارے ہاں کئی لوگوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ فرانس نے شاید کوئی بہت ہی اچھا، زبردست اور انوکھا کام کیا ہے۔

اس لیے یہ لوگ تفصیل میں جائے بغیر اور تجزیہ کیے بغیر، فرانس کی تحسین بھی کررہے ہیں اور اسے ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کا حسنِ ظن اپنی جگہ، لیکن یہاں بات حسنِ ظن تک محدود نہیں، بلکہ سادہ لوحی، اور مجھے کہنے دیں کہ بے وقوفی، کی ہے۔ ذرا یہ بیان پڑھیے تو سہی۔ اس پیغام کا آسان مطلب یہ ہے کہ اس کا اصل ہدف غزہ میں جنگ بندی ہے لیکن جنگ بندی اس شرط پر کہ مزاحمت کاروں سے اسلحہ چھین لیا جائے؛ صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ فلسطین کی جو ریاست وجود میں آئے گی وہ فوج کے بغیر ہوگی اور یہ ریاست اسرائیل کا ’حقِ وجود‘ تسلیم کرے گی۔

اب بتائیے کہ جنگ بندی کےلیے یہ شرط کہ مزاحمت کاروں کو اسلحے سے محروم کیا جائے، کیا کوئی نئی شرط ہے؟ یا اسرائیل پہلے دن سے ہی اسی پر اصرار کررہا ہے؟ پھر یہ بتائیے کہ کیا فلسطین کی ایسی ریاست جس کے پاس فوج نہ ہو، کوئی معنی رکھتی ہے؟ یہ بھی معلوم کیجیے کہ کیا کبھی کسی ریاست کو تسلیم کرنے کےلیے کسی ریاست نے یہ شرط رکھی ہے کہ پہلے وہ ریاست اپنی فوج ختم کرے اگر اس کے پاس فوج ہے، یا اگر فوج اس کے پاس نہیں ہے تو پہلے وہ اعلان کرے کہ وہ فوج نہیں رکھے گی، تو اس کے بعد ہی اسے تسلیم کیا جائے گا؟

1648ء سے، جب سے یورپی طاقتوں نے ’بین الاقوامی نظام‘ بنایا ہوا ہے، آج تک اس کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ کوسٹا ریکا یا آئس لینڈ یا موناکو ایسی ریاستیں ہیں جن کے پاس فوج نہیں ہے لیکن ایک تو کوسٹا ریکا اور موناکو کی کوئی حیثیت نہیں ہے، نہ ہی اس کا کچھ موازنہ فلسطین کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جہاں نسل کشی جاری ہے، دوسرے، ان دونوں ریاستوں نے از خود، نہ کہ کسی کی زبردستی کی بنا پر، فوج ختم کی ہے؛ اور آئس لینڈ کے دفاع کی ذمہ داری نیٹو نے لی ہے، اس لیے اس کےلیے فوج کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، اور اس نے بھی از خود فوج ختم کی ہے۔

کسی ایک ریاست کے تسلیم کرنے کےلیے بھی کبھی بھی کسی نے یہ شرط نہیں رکھی۔ یقین نہ ہو، تو گوگل، چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک، گروک، میٹا یا خود فرانس کے صدر سے ہی پوچھ لیجیے۔ حد یہ ہے کہ یہ شرط دوسری جنگِ عظیم کے بعد سوویت یونین یا امریکا نے مغربی جرمنی یا مشرقی جرمنی کو تسلیم کرنے کےلیے بھی نہیں رکھی۔ جاپان کے آئین میں امریکا نے جنگ کو ترک کرنے کی شق تو ڈال لی، لیکن ریاست کے حقِ دفاع کا ذکر اس آئین میں بھی ہے۔ کسی ریاست کےلیے حقِ دفاع کے نہ ہونے کا تصور ہی ممکن نہیں ہے اور اسی لیے اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 میں اسے ریاست کا فطری حق (inherent right) تسلیم کیا گیا ہے۔

پھر یہ اسرائیل کا ’حقِ وجود‘ (right to exist) کیا چیز ہے؟ مغربی طاقتوں کے بنائے ہوئے بین الاقوامی قانون میں، نہ ہی کسی بین الاقوامی معاہدے میں، کہیں بھی کسی ریاست کےلیے حقِ وجود نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے۔ بین الاقوامی قانون ریاستوں کےلیے ’حقِ دفاع‘ (right to self-defense) تسلیم کرتا ہے؛ اسی طرح بین الاقوامی قانون ریاستوں کو کسی بھی ریاست کے خلاف جارحیت (aggression) سے بھی روکتا ہے اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت (intervention) پر بھی پابندی عائد کرتا ہے، لیکن بین الاقوامی قانون میں کسی بھی ریاست سے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ کسی اور ریاست کا حقِ وجود تسلیم کرے۔

یہ محض ایک سیاسی ترکیب اور پروپیگنڈا کا ہتھیار ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ جس دو ’ریاستی حل‘ کی بات فرانس کررہا ہے، اس میں اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں اس میں کہاں تک ہوں گی؟ نہ ہی اس میں اس بات کا کوئی ذکر ہے کہ کیا القدس اسرائیل میں شامل ہوگا یا فلسطین میں؟ نہ ہی اس میں اس بات کا کوئی اشارہ ہے کہ 1947ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے ’یہودی ریاست‘ کےلیے جو زمین مختص کی گئی تھی. اس سے زیادہ جو علاقے اسرائیل نے 1948ء میں اور پھر 1967ء میں قبضے میں لے لیے اور جن پر اس کا قبضہ خود مغربی طاقتوں کے بنائے ہوئے بین الاقوامی قانون کی رو سے غیر قانونی ہے.

کیا اسرائیل وہ علاقے خالی کردے گا اور کیا وہ علاقے فلسطین کی ریاست کا حصہ ہوں گے؟
اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جس کی سرحدیں خود اس کے اپنے آئین و قانون میں بھی طے شدہ نہیں ہیں۔ تو جب ایسی ’ریاست‘ کا ’حقِ وجود‘ ماننے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تو پہلے یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اس ’ریاست‘ کی حدود کہاں تک ہیں؟
یہ ہے فرانس کے صدر کے اعلان کی حقیقت۔ پھر یہ ہنگامہ، اے خدا، کیا ہے؟!

اصل میں فرانس کے صدر وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو اسرائیل اور اس کے سارے پشتیبان، بشمول امریکا کے، کہہ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ فرانس گروپ آف سیون کا پہلا ملک ہے جو ایسا کہہ رہا ہے، قطعی طور پر غلط ہے۔ صرف اتنی بات درست ہے کہ گروپ آف سیون میں فرانس پہلا ملک ہے جس نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کی ہے، اگر فلسطینی یہ سارے شرائط مان لیں، جبکہ باقی 6 ممالک یہ شرائط منوانے کی تو بات کرتے ہیں، لیکن فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کررہے۔

چلیں، اتنی سی بات ہی سہی، لیکن فرانس نے یہ اضافی بات کیوں کی؟ کیا واقعی فرانس اس معاملے میں باقی 6 ممالک سے الگ موقف رکھتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت غزہ میں نسل کشی کے بعد حقوقِ انسانی کا ڈھکوسلا مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور مغرب کے تاریک چہرے سے نقاب مکمل طور پر اتر گئی ہے۔ اس لیے یہ صرف اپنے ہاں کی بعض بے چین روحوں کو مطمئن کرنے اور دنیا کے سامنے مہذب دکھائی دینے کا ایک اور ڈھکوسلا ہے۔ فرانس کا اس موضوع پر اسرائیل و امریکا کے ساتھ اختلاف محض نورا کشتی ہے۔ یہ اسرائیل و امریکا کے ناجائز مطالبات منوانے ہی کی ایک کوشش ہے، اور اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment