ہوم << قرطبہ سپین، علم و تہذیب کی گلیوں میں ایک خواب کا سفر - عامر جمال

قرطبہ سپین، علم و تہذیب کی گلیوں میں ایک خواب کا سفر - عامر جمال

مسلمانوں کی زبوں حالی اور زوال کی داستانیں تو عام ہیں، ہر زبان پر، ہر محفل میں۔ لیکن میری ایک دیرینہ خواہش تھیبلکہ ایک خواب کہ اندلس کے اُس دور کو قریب سے محسوس کروں جب مسلمان علم و فکر، سائنس و فلسفہ میں دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے.

میں چاہتا تھا کہ میرے بچے بھی وہی فضاء محسوس کریں، وہی تاریخ دیکھیں، جس نے کبھی انسانیت کو علم و تہذیب کا راستہ دکھایا۔ اسی خواہش کے تحت ہم نے اسپین کے اندلس ریجن کے سفر کا ارادہ کیا۔ آج میں آپ سے اس سفر کے ایک حصے، قرطبہ جسے آج کل Cordoba کہا جاتا ہے کی روداد شیئر کر رہا ہوں۔ ہم قرطبہ میں اندلسی دور کے اندرون شہر میں جیوش کوارٹرز کے علاقے میں مقیم تھے - ایک خوبصورت، روایتی انداز میں بنا ہوا محلہ، جو قرطبہ کے مخصوص طرزِ تعمیر اور خوشبو بکھیرتے پھولوں سے سجی گلیوں کا عکس پیش کرتا ہے۔

تنگ مگر صاف ستھری گلیوں میں دیواروں پر آویزاں پھولوں کے گلدستے محلے کو رنگوں اور زندگی سے بھر دیتے تھے۔ ہر چند قدم پر ایک موڑ آتا، جہاں چھوٹے چھوٹے کافی خانے آباد تھے، اور کہیں کہیں قرونِ وسطیٰ کے عظیم مسلم، یہودی، اور عیسائی سکالرز کے مجسمے ایستادہ تھے. علم و فن کے اس سنہری دور کی خاموش یادگاریں۔ قرطبہ شہر کی گلیوں میں چلتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ تنگ مگر بے حد خوبصورت گلیاں، سفید دیواروں پر جھولتے رنگ برنگے پھول، اور پرانے طرز کے خوبصورت گھر۔ہر منظر دل کو چھو لینے والا تھا۔ ہر موڑ پر تاریخ، حسن اور تہذیب کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔

گلیوں میں چھوٹے چھوٹے کتب خانے علم و ادب سے جڑی اس شہر کی روح کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں صدیوں پہلے قلم اور کتاب کی روشنی نے اندھیروں کو شکست دی۔ کیفے شاپس، جن میں بیٹھ کر لوگ نہ صرف چائے اور کافی سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ مکالمے، خیال اور فہم و دانش کا تبادلہ بھی کرتے ہیں، ایک علمی و ثقافتی ماحول کو زندہ رکھتے ہیں۔ قرطبہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے ، ایک طرف مڑتے ہوئے ہمارے بیٹے عمر نے ایک مجسمے کی طرف اشارہ کیا:
"پا پا یہ اس دور کے فلاں یہودی سکالر کا مجسمہ ہے ."

میں اس مجسمے کو دیکھتے سوچ میں پڑ گیا کہ کس طرح اندلس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنے فکری اور علمی جوہر دکھانے کی نہ صرف آزادی تھی بلکہ انکی بھر پور پزیرائی کی جاتی تھی۔ جب نظر ان عظیم مجسموں پر پڑتی ہے. جن میں معروف مسلمان سکالرز جیسے ابن رشد (Averroes)، ابن زہر، اور مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (Maimonides) شامل ہیں ، تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شہر محض اینٹ پتھر کا مجموعہ نہیں، بلکہ علم، فہم اور بین المذاہب ہم آہنگی کی زندہ علامت تھا۔

گلی گلی یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں اور ساتھ میں مساجد اور پھر ان دانشوروں کے مجسمے گلیوں کے بیچوں بیچ اس بات کی خاموش مگر پُراثر گواہی دیتے ہیں کہ ایک ایسا دور تھا جب مذہب اور مکتبہ فکر کی قید کے بغیر، ہر انسان کو علم کی تلاش اور اظہارِ رائے کی آزادی حاصل تھی۔ مسلمان، یہودی، اور عیسائی سکالرز نے مل کر ایسا فکری ماحول پیدا کیا جہاں سائنس، فلسفہ، طب، اور ادب کی شمعیں روشن ہوئیں۔ اور اپنے ساتھ باقی دنیا کو بھی روشن کرتی رہیں.

یہ منظر یاد دلاتا ہے کہ جب اپنے آپ پر اعتماد ہو ، دل کھلے ہوں اور معاشرے علم و احترام کی بنیاد پر استوار ہوں، تو تہذیبیں عروج پر پہنچتی ہیں اور انسانیت ترقی کی نئی منزلیں طے کرتی ہے۔ قرطبہ آج بھی اس شاندار دور کا آئینہ ہے، ایک ایسا خواب جو کبھی حقیقت تھا۔ قرطبہ صرف ایک تاریخی مقام نہیں، بلکہ ایک زندہ تہذیبی ورثہ ہے۔ اس شہر نے دل کو ایسی راحت بخشی جیسے روح نے اپنا اصل گھر پا لیا ہو۔ یہ تجربہ نہ صرف آنکھوں کی، بلکہ دل اور روح کی بھی خوراک تھا۔

مسجد قرطبہ
ان خوبصورت لیکن چھوٹی گلیوں سے گزرتے ہوئے کچھ دس منٹ بعد آخر کار وہ لمحہ پہنچا جب مسجد قرطبہ کی دیواریں میرے سامنے تھیں وہ مسجد جس کے بارے میں بچپن سے سنتے پڑھتے آرہے تھے۔ اسکی عظمت اور پھر اسکے جڑی رودادیں ذہن پر نقش تھیں۔ جہاں اقبال نے خاص اجازت لیکر نماز پڑھی اور اپنی مشہور نظم لکھی۔ یہ میرے لیے ایک روحانی اور دل کو چھو لینے والا لمحۂ تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم بڑے دروازے سے داخل ہوکر مسجد کے صحن اور پھر اندر پہنچ گئے .

جیسے ہی میں اس کے حسین محرابوں کے درمیان کھڑا ہوا اور تاریخی محراب کے سائے میں وقت گزارا، تو یوں محسوس ہوا جیسے میں اسلامی تہذیب کے سنہری دور میں واپس لوٹ گیا ہوں۔ یہ عظیم مسجد نہ صرف اسلامی فنِ تعمیر کا شاہکار ہے بلکہ اس دور کی علامت بھی ہے جب علم، اخلاق اور تنوع کی قدر اسلام کی پہچان تھی۔ یہاں مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک ساتھ مل کر امن، رواداری اور اخوت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور علم و فکر کو انسانیت کا اثاثہ سمجھتے ہوئے انسانی ترقی و فلاح میں مشترکہ کردار ادا کر رہے تھے۔ مسجد کی خاموش اور پرسکون فضا میں، مجھے ان علما، مفکرین اور دانشوروں کی یاد آئی جو علم و حکمت کے چراغ روشن کرتے تھے۔

یہ مقام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسلام صرف عبادت نہیں بلکہ انسانیت، علم، انصاف ، اعلیٰ کردار اور بقائے باہمی کا پیغام ہے ۔ ایک ایسا پیغام جو آج بھی اتنا ہی ضروری اور زندہ ہے جتنا اس دور میں تھا۔ دن کے آخر میں مسجد قرطبہ کے سنگ میں ایک ریسٹورنٹ میں کھانے پر بچوں نے اقبال کی نظم انگریزی ترجمے کیساتھ پڑی!

اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہَ فن کی ہے خون جگر سے نمود

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر