ہوم << اسائنمنٹ یا مصنوعی ذہانت؟ - اے وسیم خٹک

اسائنمنٹ یا مصنوعی ذہانت؟ - اے وسیم خٹک

میں یونیورسٹیوں میں گزشتہ سولہ سالوں سے تدریس کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں، اور اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کے طلبا طالبات اور پہلے کے طلبا اور طالبات میں زمین و آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ اب تعلیمی سرگرمیاں محنت، تحقیق اور مطالعے کے بجائے صرف ایک کلک تک محدود ہو گئی ہیں۔

اسائنمنٹس چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت کے ٹولز سے بنوائے جاتے ہیں، اور نہ طالب علم کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھا ہے، نہ استاد پوچھتا ہے کہ تم نے کیا سیکھا ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ پاکستان میں تحقیق کا شعبہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ مجھے ایسے درجنوں لوگ معلوم ہیں جو خود یونیورسٹیوں میں استاد ہیں، مگر "پارٹ ٹائم" ریسرچ اور اسائنمنٹ لکھنے کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ طالب علم پیسے دیتے ہیں، استاد تحریر دیتا ہے، اور سرکاری یا پرائیویٹ یونیورسٹیاں ڈگریاں بانٹ دیتی ہیں۔ اس نظام میں نہ طالب علم کچھ سیکھتا ہے، نہ استاد کچھ سکھاتا ہے۔ سب کچھ "فارم پر مبنی تکمیل" کی نذر ہو چکا ہے۔

یونیورسٹیوں میں اب اسائنمنٹ اور لیکچرز بھی مصنوعی ذہانت (AI)، بالخصوص چیٹ جی پی ٹی، سے لکھوائے جا رہے ہیں۔ طلبا اور طالبات نے اس ٹول کو صرف "نقل" کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تحقیقی مقالے، اسائنمنٹس اور کورس ورک سب کچھ بغیر سوچے سمجھے AI سے تیار کروا لیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اکثر اساتذہ خود بھی اس میدان میں نابلد ہیں، اس لیے وہ ان حرکات پر خاموش رہتے ہیں۔

آج کل اسائنمنٹ بنانا ایک مذاق سا بن گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ طلبا اور طالبات کو اسائنمنٹ دینے کی بجائے پریزنٹیشنز دی جائیں تاکہ ان کی علمی، زبانی اور فکری صلاحیتیں سامنے آئیں۔ میں خود بھی اسائنمنٹ کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں اور ہمیشہ پریزنٹیشن پر زور دیتا ہوں۔ کم از کم اس میں طالب علم کو کچھ بولنا، سوچنا اور خود کو ظاہر کرنا پڑتا ہے، جو اس کی اصل قابلیت کو ظاہر کرتا ہے۔چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز یقیناً مفید ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد سہولت فراہم کرنا ہے، نہ کہ مکمل کام کا متبادل بن جانا۔ یہ رموز و اوقاف، جملوں کی ساخت، اور پیراگرافنگ بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

لیکن جب طلبا اور طالبات اسے صرف شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کریں گے، تو نہ ان کی سوچ پروان چڑھے گی، نہ لکھنے کی صلاحیت۔ پھر تعلیم محض ایک ظاہری سرٹیفکیٹ کا نام بن کر رہ جائے گی، جس کے پیچھے کوئی اصل فہم یا مہارت نہیں ہوگی۔اساتذہ، طلبہ اور تعلیمی اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو صرف بطورِ مددگار استعمال کریں، نہ کہ مکمل انحصار کے لیے۔ اگر طلبہ خود کچھ لکھیں، سوچیں، پھر AI سے مواد بہتر کروائیں تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ لیکن اگر پورا مقالہ ہی کسی اور سے بنوایا جائے، یا چیٹ جی پی ٹی سے کاپی پیسٹ کیا جائے، تو یہ تحقیق کے ساتھ مذاق ہے۔

علم وہی معتبر ہے جو محنت سے حاصل ہو، اور تعلیم وہی حقیقی ہے جو سوچنے، لکھنے اور بولنے کی صلاحیت دے۔ ورنہ یہ سب ڈگریاں، ڈیزائنر لباس کی طرح، صرف دکھاوے کی حد تک باقی رہ جائیں گی۔