ہزاروں میل دور کے ممالک سے تعلقات قائم کرنا عالمگیریت کے اس دور میں ہر ملک کی ضرورت ہے۔ پاکستان بھی اس ضرورت سے آزاد نہیں ہے۔ تاہم مسئلہ اس توازن کا ہے جسے ہمیشہ سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ یہ توازن آج دنیا بھر میں بگڑ چکا ہے۔
اپنے پاک افغان تعلقات بھی ہمیشہ غیر متوازن دیکھے گئے جہاں عوامی اور ریاستی سطح پر یہ عدم توازن ملتا ہے۔ گزشتہ تحریر میں افغان طلبا کے لیے پاکستانی جامعات میں وظائف کی تجویز دی تو ایک رد عمل یہ تھا: "جناب! افغانوں سے زیادہ طوطا چشم کوئی نہیں. ہم نے عشروں تک انہیں پناہ دی لیکن آج کوئی لا دین نہیں ان کی اپنی امارت شرعیہ بھارت کا ساتھ دے رہی ہے". ذرائع ابلاغ کے پھیلائے اس بدنما تاثر کو مان لیا جائے تو خود ہمارے پاس کیا اس کا کوئی جواب ہے کہ پاکستان میں متعین افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ہماری فوج نے ٹھڈے مار کر امریکیوں کے حوالے کیا تھا تو کیوں؟
دونوں ممالک کے عوام و حکام یہ نامعقول مناظرے چھوڑیں ایک دوسرے سے معافی تلافی کا مطالبہ کلیتاً ترک کر دیں۔ وہ راہ اختیار کریں جو نئے پاک بنگلہ تعلقات میں اپنائی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ماضی بھول کر مآل پر نظر جمائے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان بطور تزویراتی گہرائی ہمارے ترک کرنے کا موضوع تھا۔ پاکستان اس سے تائب ہو چکا ہے۔ ادھر اس مٹھی بھر افغان عنصر کو ڈیورنڈ لائن پر گفتگو ختم کر دینا چاہیے۔ یہ معدودے چند لیکن با اثر پاکستانی اور افغان بازاری مناظروں کو تج کر آئندہ کا سوچیں۔ یہی ڈیورنڈ لائن اتحاد امت مسلمہ کے بالمقابل جلد ہی بے معنی ہو کر رہے گی۔
ان سفاک اور برہنہ حقائق کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ دونوں ممالک پڑوسی ہیں، صدیوں سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہیں، بھارت، چین اور ایران جیسوں کے برعکس افغانستان ہمارا وہ واحد پڑوسی ہے جس سے ہمارے دسیوں لاکھ لوگوں کے رشتے ہیں۔ ایران اور بھارت کے برسائے میزائلوں کا جواب تو ہم نے دفعتاً دے دیا تھا۔ پاک افغان جنگ، اللہ نہ کرے، اگر کبھی ہوئی تو کیا کوئی یہ مہم جوئی کر سکے گا؟ اور کرے گا تو بعد میں کس ملک میں زندہ رہ سکے گا؟ دونوں ممالک کے باشندوں کے رشتہ داریاں ذہن میں رکھ کر جواب دیجیے۔ لہذا دونوں جانب کے بد زبان عناصر یہ غیر تعمیری اور سوقیانہ مناظرہ بازی بند کر کے اپنی توانائیاں کسی تعمیری کام میں لگائیں۔
پاک افغان امور میں غالباً سب سے اہم ایک انسانی مسئلہ وہ ہے جسے دشمن بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ادھڑے ہوئے افغانستان میں صحت کی سہولیات پاکستان جیسی نہیں ہیں۔ سرحدی قبائل کو چھوڑیے، خود کابل کے لوگ بھی علاج کے لیے ایک حد تک پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔ رہے سرحدی افغان تو ان کا سہارا ہے ہی پاکستان۔ بےچارگی کا یہ حال کہ گزشتہ بقر عید سے ذرا پہلے ایک ماہ کے بیمار نو مولود کے والدین کو طبی ویزا نہ ملا تو ماں نے اپنا جگر گوشہ اس امید پر ایک اجنبی کو دے دیا کہ پشاور پہنچ کر شاید بچہ بچ جائے۔ وہ نیک دل افغان ایک ماہ کے بچے کو کیسے پشاور لایا؟
کیسے دودھ پلاتا رہا؟ عین عید کے دن سارے کام چھوڑ کر کیسے پوری توجہ بیمار بچے کو دیتا رہا؟ اس پر ناول لکھا جانا چاہیے، فلم بننا چاہیے، لیکن ان کے پہلو پہلو اس اہم انسانی مسئلے پر حکومت پاکستان کو فوری توجہ دینا ہوگی۔دونوں ملکوں میں داخلے کے راستے تو پانچ ہیں لیکن شہری سہولتوں سے آراستہ اور منظم جگہیں طورخم، چمن، اور خرلاچی (پارہ چنار) وہ تین ہیں جہاں طبی سہولیات بڑھا کر افغان ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ یہ کام الخدمت، ایدھی اور چھیبا جیسے نیک نام ادارے کر سکتے ہیں۔ افغان جہاد کے دنوں میں جماعت اسلامی نے پشاور میں ایک اچھا افغان سرجیکل اسپتال بنایا تھا، پتا نہیں کس حال میں ہے۔
الخدمت اور ایدھی کی کوششیں یقینا فلاحی بنیادوں پر ہوں گی۔ لیکن افغانستان میں آسودہ حال طبقے کا حجم ناقابل یقین حد تک وسیع ہے۔ اسے بھی اپنے علاج کے لیے زیادہ تر پاکستان ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اس طبقے کے لیے پشاور، پارہ چنار، چمن اور کوئٹہ میں جدید سرکاری اسپتال بنانا ضروری ہے۔ اس اشرافیہ کے پاس دولت کے انبار ہیں۔ لیکن علاج کے ضمن میں یہ اشرافیہ بھی بے بس ہے۔ پاک افغان قربت کے پہلو بہ پہلو ہمارے یہ سرکاری اسپتال زر مبادلہ کی صورت میں کمائی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ قطع نظر ان باتوں کے پاکستان کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہر بیمار افغان اور ایک تیماردار کو بہرحال ویزہ دے دیا جائے۔
شاید کہا جائے کہ یوں دہشت گرد بھی آ سکتے ہیں۔ بہانہ کچھ بھی ہو، جائز طبی ضرورت پر افغان بہن بھائیوں کو ویزا بہرحال ملنا چاہیے۔ ویزے کا اجرا ایک تہہ در تہہ عمل ہے جس پر ہم عام لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے، ہمارا فعال دفتر خارجہ افغانیوں کو طبی ویزے دینے کا کوئی مناسب طریق کار یقینا بنا لے گا۔پاکستان اپنی آبادی، وسائل، رقبے، زراعت اور صنعت وغیرہ کے باعث افغانستان پر فوقیت رکھتا ہے جو اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ ادھر افغانستان کی خوبیاں ایک الگ موضوع ہے۔
اس جری ملک نے ہماری مدد سے ایک سپر پاور کو ملیا میٹ کر دیا۔ افغانوں نے اپنے گھر اور کھیت کھلیان بے آباد کرا دیے اور چھ مسلم مقبوضات آزاد کرا کر انہیں او آئی سی میں شامل کرایا۔ حکومت پاکستان کو افغانوں کے لیے طبی اور تعلیمی ویزوں میں بالخصوص اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ بندوبست طویل المعیاد تو ہوگا لیکن یہی بندوبست بالآخر ڈیورڈ لائن کے مستقل خاتمے کا سبب بنے گا۔ عالمگیر امت مسلمہ کے ابتدائی اتحاد کا آغاز یقیناً یہیں سے ہوگا۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور ترکی کو یکجا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ نو آزاد مسلم ترکستانی ممالک کے اس اتحاد میں آنے پر تہران بخواہش علامہ اقبال عالم مشرق کا جنیوا ہو گا۔ کرہ ارض کی تقدیر یونہی تبدیل ہوگی۔
(جنرل انور سعید خان نے میری اس فروگزاشت کی طرف توجہ دلائی کہ امریکی یونین 12 نہیں 13 ریاستوں پر بنی تھی، جزاک اللہ. انور بھائی اپنی انہی باریک بینیوں کے سبب فوج میں "پروفیسر جنرل" کہلاتے ہیں۔ سوچا ایسا کیوں ہوا تو پتا چلا کہ 60 سال سے اوپر کے پروفیسر کے یہاں روا روی میں لکھ دینا کچھ عجب نہیں ہے۔ انور بھائی کا مکرر شکریہ).
تبصرہ لکھیے