ہوم << وہ عالمی تنازعات جو مستقبل میں بڑی جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

وہ عالمی تنازعات جو مستقبل میں بڑی جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

دنیا آج جس دوراہے پر کھڑی ہے، وہاں ایک جانب انسان نے سائنسی ترقی، جدید ٹیکنالوجی، خلا کی تسخیر اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہیں دوسری جانب وہ خود اپنی بقا کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ بیسویں صدی کے دو عالمی جنگی تجربات کے بعد اگرچہ اقوامِ متحدہ جیسے ادارے تشکیل دیے گئے تاکہ عالمی امن کو یقینی بنایا جا سکے.

لیکن اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں میں ہی واضح ہو گیا کہ ریاستی مفادات، معاشی غلبے، نظریاتی بالادستی اور خطہ وار طاقتوں کی جنگیں و سرد جنگیں اب بھی شدت کے ساتھ جاری ہیں اور یہ سلسلہ اگر مستقل نہ روکا گیا تو مستقبل میں یہ تنازعات مذید نئے تنازعات کو جنم دے کر کسی تیسری جنگ عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ، تباہی پھر بظاہر جنگ بندی ایک واضح مثال ہے۔ ایران کی پرامن نیوکلیئر سرگرمیوں کی روک تھام و پابندیوں کے اعلانات و دباو اور مغربی دنیا کی کھلی حمایت مشرق وسطیٰ کو دوبارہ تباہ کن تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

ایران کے حمایت یافتہ گروہ جیسے حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثی باغیوں کی موجودگی اور مسئلہ فلسطین خطے کو ایک عالمی آتش فشاں میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ جنگ دوبارہ شروع ہوئی تو امریکہ، روس، چین، ترکی اور سعودی عرب جیسی طاقتیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس میں ملوث ہو سکتی ہیں۔ نیز خلیجِ فارس، بحر احمر اور آبنائے ہرمز کے تجارتی و تیل بردار راستے خطرے کی زد میں آنے سے عالمی توانائی مارکیٹ میں معمولی خلل بھی معاشی کساد بازاری، افراطِ زر اور گلوبل مارکیٹ کے عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے درمیان برسوں سے جاری کشیدگی، خاص طور پر کشمیر کے مسئلے پر، ایک ایسے تنازعے میں بدل چکی ہے جس میں دونوں اطراف نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں۔ 2025 کے اوائل میں ہونے والی سرحدی جھڑپیں، بھارتی فضائیہ کی مبینہ کارروائیاں اور پاکستان کا فوری جواب، ایک محدود دورانیے کی مگر خطرناک جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اگرچہ امریکہ، چین اور سعودی عرب کی مداخلت سے بظاہر یہ آگ بجھ گئی، مگر اس کی راکھ ابھی تک سلگ رہی ہے۔ دونوں ممالک میں قوم پرست حکومتوں اور جنگی بیانیے کی مقبولیت نے ماحول کو مزید زہریلا بنا دیا ہے۔ کسی بھی غیر ارادی عسکری مداخلت یا دہشت گرد واقعے کا نتیجہ ایک وسیع جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ، جس کا آغاز 2022 میں ہوا تھا، اب 2025 میں بھی پوری شدت سے جاری ہے۔ روس کی یوکرین کے مشرقی علاقوں پر مسلسل قبضہ اور یوکرین کو مغربی دفاعی نظام کی فراہمی نے ایک نیابتی جنگ کو جنم دیا ہے جس میں نیٹو، یورپی یونین، اور امریکہ بالواسطہ طور پر ملوث ہیں۔ اس جنگ نے نہ صرف یورپی سلامتی کو خطرے میں ڈالا بلکہ روس کو بھی چین، ایران اور شمالی کوریا جیسے مخالف عالمی دھڑوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ مغربی پابندیاں، توانائی کی کمی، یورپ میں مہنگائی اور روسی نیوکلیئر دھمکیاں اس امر کا اشارہ دے رہی ہیں کہ یہ تنازع محدود نہیں رہے گا بلکہ کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف امریکہ اور چین کے درمیان ٹائیوان کا مسئلہ مسلسل بگڑتا جا رہا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ ٹائیوان اس کا "ٹوٹا ہوا حصہ" ہے جبکہ ٹائیوان خود کو ایک خودمختار ریاست سمجھتا ہے۔ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی طرف سے ٹائیوان کو دی جانے والی فوجی اور سیاسی حمایت نے چین کو اشتعال میں ڈال رکھا ہے۔ جنوبی چینی سمندر میں نیول سرگرمیوں میں اضافہ، دونوں طاقتوں کی فضائی نقل و حرکت، اور سائبر حملوں نے خطے کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ جنگ محض چین اور امریکہ کے درمیان نہیں ہوگی بلکہ پورے بحرالکاہل خطے کو لپیٹ میں لے گی۔ ساتھ ہی، عالمی سپلائی چین، مائیکروچپ انڈسٹری، شپنگ اور ٹیکنالوجی کی صنعت کو ایسا نقصان پہنچے گا جس کی تلافی دہائیوں تک ممکن نہ ہوگی۔

اس کے علاوہ، نئی جنگی ٹیکنالوجیز نے تنازعات کی نوعیت ہی بدل دی ہے۔ اب لڑائیاں صرف بارود سے نہیں بلکہ سائبر حملوں، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈرونز، خودکار ہتھیاروں، اور خلا میں نصب سیٹلائٹ شکن میزائلوں کے ذریعے بھی لڑی جا رہی ہیں۔ AI پر مبنی decision-making نظاموں کی موجودگی انسانی مداخلت کے بغیر ہی جنگ چھیڑ سکتی ہے، کیونکہ تیزی سے بدلتے حالات میں روبوٹک سسٹمز ایک لمحے میں دشمن کی طرف جوابی حملہ کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے عالمی ماہرین "خودکار جنگ" (Automated Warfare) کو ایک بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں بھی عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہیں۔ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں پانی کی کمی، خوراک کی قلت، اور موسم کی شدت لاکھوں افراد کو بے گھر کر رہی ہے۔ ماحولیاتی پناہ گزینوں کی نقل مکانی، غربت، بے روزگاری، اور سرحدی جھگڑے ریاستوں کو اندرونی خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ خاص طور پر دریائے سندھ، نیل، دجلہ و فرات، اور یانگتسی جیسے دریاؤں پر سیاسی قبضے کی کوششیں علاقائی جنگوں کو جنم دے سکتی ہیں۔ اگر ان مسائل کو عالمی سطح پر حل نہ کیا گیا تو یہ تنازعات ایٹمی جنگوں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوں گے۔

اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور او آئی سی جیسے ادارے اپنی موجودہ حالت میں ان تنازعات کو روکنے میں مکمل ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ان اداروں میں بڑی طاقتوں کا سیاسی اثر و رسوخ اور ویٹو پاور کی موجودگی نے عالمی عدل کے تصور کو کمزور کر دیا ہے۔ جب طاقتور اقوام اپنے مفاد میں یکطرفہ فیصلے کرتی ہیں، چھوٹے ممالک کو دبایا جاتا ہے، اور کمزور اقوام کا استحصال ہوتا ہے تو یہ عدم توازن ایک بڑے دھماکے کی صورت میں نکلتا ہے۔معاشی میدان میں بھی عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ چین کی "بیلٹ اینڈ روڈ" پالیسی، امریکہ کی معاشی پابندیاں، روس کا توانائی ہتھیار کے طور پر استعمال، اور یورپ کی صنعتی خودمختاری کی کوششیں معاشی میدان میں ٹکراؤ پیدا کر رہی ہیں۔ یہ تجارتی جنگ کسی بھی وقت حقیقی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

اس سارے تناظر میں اگر فوری، سنجیدہ، اور متوازن اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا ایک نئے، زیادہ خطرناک اور زیادہ تباہ کن جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ اس جنگ کی نوعیت صرف عسکری نہیں ہو گی بلکہ یہ ایک مکمل ماحولیاتی، معاشی، تکنیکی اور نظریاتی جنگ ہو گی جس میں دنیا کے بیشتر ممالک متاثر ہوں گے۔ ایٹمی ہتھیار، سائبر تباہی، خلا میں حملے، مہلک وائرسز، خوراک کی قلت، پناہ گزینوں کی لامحدود لہر، اور ریاستی انہدام جیسی صورتیں پیدا ہوں گی جو دنیا کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہو گا۔

اب وقت ہے کہ عالمی برادری ان خطرات کو سنجیدگی سے لے۔ مفادات سے بلند ہو کر اجتماعی سلامتی کی طرف قدم بڑھائے۔ بین الاقوامی قوانین کو مؤثر بنایا جائے، اقوام متحدہ کو غیر جانبدار اور مؤثر ادارہ بنایا جائے، عالمی طاقتیں عسکری بجٹ کم کر کے انسانی ترقی پر خرچ کریں، ٹیکنالوجی پر ضابطہ اخلاق بنایا جائے، اور خطے وار مذاکراتی عمل شروع کیا جائے تاکہ دنیا کو ممکنہ عالمی تباہی سے بچایا جا سکے۔یہی وہ راہ ہے جو بنی نوع انسان کی بقا، ترقی اور مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔

Comments

Click here to post a comment