جنرل ضیاء الحق کے منفی مثبت پہلو اتنے ہیں کہ بندہ سمجھ نہیں پاتا کیا لکھے اور کیا جانے دے. پہلی بات تو بالکل واضح ہے کہ اقتدار پہ شب خون مارنے اور بھٹو کی پھانسی جنرل ضیاء کا ایسا اقدام تھا جس کی کہیں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی. یہ سیدھا سیدھا بدترین جرم تھا اور اس کی حمایت جرم میں شرکت ، باوجود اس کے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات اور بعض اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن پھانسی بتاتی ہے کہ یہ فیصلہ جنرل ضیاء سے زیادہ کسی اور کا لکھا ہوا تھا. اسلامی بلاک کا معاشی اتحاد، پاکستان کا اسلامی آئین، جوہری پروگرام اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا بھٹو کے ایسے گناہ تھے جنھیں عالمی اسٹیبلشمنٹ معاف نہیں کرسکتی تھی۔
البتہ جنرل ضیاء الحق بدعنوان نہیں تھے، محب وطن پاکستانی تھے، اسلام سے محبت کرتے تھے، ذاتی زندگی سادگی سے عبارت تھی، افغان جہاد کے دوران پاکستان کے دفاع کی بےمثال جنگ لڑی، ایٹمی پروگرام جاری رکھا، معاشرے کی اسلامی خطوط پہ رہنمائی کی کوشش کی لیکن بعد ازاں اس میں انتہا پسندی کا تڑکا لگ گیا جس نے معاملات خراب کیے۔ جنرل ضیاء الحق پہ انتہاپسندی کا الزام لگتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دور میں فنون لطیفہ کی ترویج ہوئی، پی ٹی وی کے شاھکار ڈرامے اسی دور میں تخلیق ہوئے ، پاکستانیت کو فروغ ملا۔
ہر آمر کی طرح ضیاءالحق کا پہلا پیار اپنے اقتدار سے تھا. اس کے لیے ضروری تھا کہ حقیقی سیاسی جماعتوں کو کارنر کیا جائے، یہی وجہ تھی پیپلزپارٹی کے حصے بخرے کرنے اور نواز شریف کو آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا، اندرون سندھ جی ایم سید اور شہری علاقوں میں مہاجر قومی موومنٹ کی سرپرستی کی گئی یوں پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا، وفاق کی سیاست پس پشت چلی گئی اور اس کی جگہ ذات برادری، فرقے، رنگ، نسل اور زبان نے لے لی. اس فتنے سے ابھی تک سیاست پاک نہیں ہوسکی. جنرل کے لیے سکون فقط اس میں تھا کہ سیاست بری طرح سے تقسیم ہو رہی تھی اور ان کا اقتدار مضبوط تر۔
جنرل ضیاءالحق کے دور میں پہلی مرتبہ فوجی اداروں میں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے لٹریچر کو کسی حد تک نفوذ کی اجازت ملی، مذہبی سوچ رکھنے والے اختلاف کے باوجود ڈکٹیٹر کے حامی تھے۔ پی این اے کی تحریک میں شامل جماعتوں نے ضیاء کابینہ میں شمولیت اختیار کی لیکن مکمل بدنامی صرف جماعت اسلامی کے حصے میں آئی اگرچہ تین ماہ بعد ہی وزارتوں سے علیحدگی اختیار کر لی گئی تھی. سونے پہ سہاگہ میاں طفیل سے منسوب وہ بیان تھا جس میں ضیاء کو اپنا بھانجا بنادیا، جماعت ضیاء رومانس کی بڑی وجہ بھٹو کا جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظالمانہ سلوک اور اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ تھا، یہ بھی ستم ظریفی تھی کہ جماعت اسلامی ضیاء کی مددگار جبکہ اسلامی جمعیت طلبہ تعلیمی اداروں میں جنرل کے خلاف تحریک چلا رہی تھی. اس صورتحال سے تنگ آ کر ضیاء نے طلبہ یونین کے الیکشن پر پابندی عائد کرکے اسلامی جمعیت طلبہ کا کام اتار دیا۔
پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتیں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے آمریت کے خلاف تحریک کا حصہ تھے ، سن چھیاسی میں لاہور میں بےنظیر بھٹو کے فقید المثال استقبال نے جنرل کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ ضیاء الحق کے ساتھی بعد میں بےنظیربھٹو اور پیپلزپارٹی کے ساتھی بنے، اور اس وقت تو نمایاں چہروں میں اکثر ضیاء کے ساتھی ہیں یہاں تک کہ آصف زرداری کے والد محترم بھی.
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مدارس کی نرسریاں لگ گئیں ، افغان مجاہدین سے متاثرہ پاکستانی گروہ سرکاری سرپرستی میں ترتیب دیے گئے، جنہیں بعد میں مقبوضہ کشمیر بھیجا گیا. اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پالیسی کے مثبت منفی پہلوئوں کی طرح اس کے بھی بعض منفی پہلو سامنے آئے اور ان میں سے بعض کی بندوقیں ریاست پاکستان مخالف فرقوں اور عوام کی طرف سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے پھیر دی گئیں۔ اور بعد میں یہ خود ریاست کی طرف پھر گئیں.
جنرل پہ الزام ہے کہ اس نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑی ، درست یہ ہے کہ تب افغان مجاہدین اور پاکستان سمیت امریکہ و سعودی عرب اور باقی دنیا کا مفاد اسی میں تھا کہ روس کو محدود کیا جائے. اس معاملے میں ضیاءالحق سے کہیں زیادہ قصوروار روس تھا، اس کے پاکستانی ایجنٹ اس زمانے میں پشتونستان بنانے کی باتیں کرتے تھے اور کے جی بی ان کے ذریعے ملک میں دھماکے کراتی تھی. حقیقت یہ ہے کہ چین نے بھی گرم پانیوں تک پہنچنے کا مقصد حاصل کیا لیکن پیار محبت اور معیشت کے ذریعے، اس نے کہا کہ معاشی راہداری کا کیک مل کر کھائیں گے جبکہ روس چاہتا تھا کہ پہلے ہمیں غلام بنائے، پھر مرضی سے حصہ دے اور چاہے تو انکار کر دے۔ ایجنٹوں کی باقیات اب بھی رونا روتی ہیں اور معاملہ کچھ اس طرح ہو جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو سپر پاور بننے سے روکا ورنہ ہم عظیم سپر پاور سوویت یونین کا حصہ ہوتے.
بہرحال ، جنرل ضیاءالحق امریکیوں کو بھی خاص پسند نہیں تھے بس مفادات جب تک وابستہ تھے، ہاتھ سر پہ رکھا، پورے ہوگئے تو پراسرار موت مقدر بنی۔
جنرل کی برسی پہ نواز شریف قبر پہ آئیں نہ آئیں، ماسکو میں بیٹھے موٹے دماغ روسی ضرور اس سپاہی کو یاد کرتے ہوں گے جو سویت یونین سے مشرقی پاکستان کا بدلہ لینے میں کامیاب رہا
تبصرہ لکھیے