ہوم << ون ویلنگ اور ہم - فرح ر ضوان

ون ویلنگ اور ہم - فرح ر ضوان

کلپ دیکھ کر بہت دل دکھا جس میں ایک دکھیاری ماں، جس نے نہ جانے کتنی محنت اور ارمانوں کے ساتھ اپنے لاڈلے بیٹے کو پالا ہوگا اور وہ ون ویلنگ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو کر مرا نہیں بلکہ اذیت ناک زندگی کے ساتھ زندہ لاش بن چکا ہے، سب سنتا ہے بول نہیں سکتا، لکھ نہیں سکتا، بوڑھے والدین ہی اس کی خدمت کرتے ہیں اور پل پل مرتے ہیں کیونکہ ان سے نہ اس کی ہر لمحے کی بے بسی دیکھی جاتی ہے نہ ہی علاج کے لیے جو جسمانی اذیت اس لڑکے کو اٹھانی پڑتی ہے وہ برداشت ہو پاتی ہے (اللہ تعالیٰ عافیت کا معاملہ فرمائے ). بےچارہ رپورٹر یہ روداد دکھا کر اور لڑکوں کو اس سے باز رکھنے کا قصد لیے جب ایسے لڑکوں تک پہنچا تو ان کے جواب انتہائی تکلیف دہ تھے کیونکہ ان کو نہ تو زندگی کی نعمت کا اندازہ ہے اور نہ ہی اس طرح حرام موت مر جانے کا خوف، لٹھ مار جوابات ،جو نصیب میں لکھا ہوگا ہو جائے گا، مر جائیں گے تو کیا ہوگا، بس یادیں چھوڑ جائیں گے،گھروالے یاد کریں گے.
جس طرح ایک تباہ شدہ ہوائی جہاز کا بلیک باکس مل جانے پر حادثے کی وجہ پتہ چل جاتی ہے اور مزید نقصان سے بچا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر اس ون ویلنگ کے معاملے کی تحقیق کریں تو کیا وجوہات سامنے آسکتی ہیں؟ کس طرح یہ سب شروع ہوا ہوگا؟ کس طرح چل رہا ہوگا؟ اجزائے ترکیبی کیا ہوں گے؟. قیاس ہی کیا جاسکتا ہے جس میں سرفہرست تو جہالت اور دین سے دوری ہی ہے. دوسرا مار دھاڑ والے ہیرو سے حد درجہ متاثر ہوجانا جو تنہا تو ہوتا نہیں، ساتھ کچھ اسی جیسے دوست ہوتے ہیں اور کم از کم ایک انتہائی احمق، جاہل، دل پھینک قسم کی عقل سے پیدل لڑکی جو ان سرپھری بےہودہ حرکتوں سے متاثر ہو کر ان پر مری جاتی ہوگی. کیا یہ کام کوئی مصروف انسان کر سکتا ہے؟ نہیں جناب ذمہ دار آدمی تو مصروف ہی ہوتا ہے، ایسے لوگ صرف عقل سے ہی فارغ نہیں گھریلو ذمہ داریوں سے بھی مفرور ہوتے ہیں. اگر کسی انسان کو بیٹھے بیٹھے بس پان چبا کر کینسر کو دعوت دینی ہو یا سگریٹ کے دوسرے سرے پر خود کو پھونکنا ہو تو، اس پر بھی خرچ کرنے کے لیے اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے، تو چلتی پھرتی بلکہ ہواؤں میں اڑتی موٹر بائیک کا شوق لیے پھرنا تواخراجات کا کہیں زیادہ متقاضی ہوگا. تو گھر والوں سے تقاضا، ادھار، چوری، ڈاکہ، بھتہ، لوٹ مار، ڈرگز سپلائی شاید کچھ زیادہ بڑے کام بھی نہ ہوں ان کے لیے. ظاہر ہے کہ ایک انسان کو جب اپنی ہی جان کی قدر و قیمت نہیں پتہ، اپنے چلے جانے پر اپنے گھر والوں کے دکھ کا اندازہ نہیں تو اسے دنیا میں کسی اور کا کوئی رتی بھر بھی احساس ہوگا؟
اور اب بالکل اسی آئینے میں اگر ہم اپنا عکس دیکھیں تو اکثریت ہماری ون ویلنگ ہی کے نشے میں دھت نظر آتی ہے. زندگی کی گاڑی کے دو پہیے، جن میں سے ایک کے ساتھ اپنے رب کے احکام پر چلنا دوسرا اپنے اختیار سے چلنا ہے، ان میں سے احکام والے پہیے کو فضا میں معلق فرما کر ہم مزے سے اپنی ذات پر نازاں اور فرحاں رہتے جبکہ مندرجہ بالا بائیکرز کے عمل کو انتہائی تحقیر سے دیکھا کرتے ہیں.
ان رویوں کے بھی تو کچھ اجزائے ترکیبی ہوں‌گے ہی. وہ کیا ہوسکتے ہیں؟ تفصیل لکھنے کی ضرورت ہی نہیں، یہ بھی من و عن یہی ہیں. البتہ فرق یہ ہے کہ وہ من چلے شاید اتنا علم نہ رکھتے ہوں جبکہ، ہم لوگ سب کچھ سمجھ کر بھی ناسمجھ ہی بنے رہنا چاہتے ہیں. مقصدیت کے بغیر زندگی گزارنے والے فلسفی، عالم، علامہ بنے بیٹھے ہیں. پوری قوم کے مجموعی اعلی ترین اہم مقاصد میں، لوگوں کے گھر، گاڑی، لائف سٹائل اور شخصیت سے مرعوب ہو جانا اور ان ہی کو کاپی کر کر کے دوسروں کو خود سے متاثر کرتے خود کو اسی راہ میں فنا کر ڈالنا. گھروں اور رشتوں میں اتنا گھٹیا پن اور کرپشن کبھی بھی نہیں ہوا جتنا اب ہو چکا ہے، اور کیونکہ ہم زندہ ہیں تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم فقط زبانی ان کو برا کہنے پر اکتفا نہ کریں.
آپ کو پتہ چلا کہ مائیکروویو میں پلاسٹک کے برتن میں کھانا گرم کرنا صحت کے لیے انتہائی مضر ہے. آپ کے علم میں آیا کہ فون چارجنگ پر ہو تو طویل بات کرنا خطرناک ہوسکتا ہے. آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں ریسٹورنٹ میں گدھے کی نہاری ملتی ہے. آپ کو پتہ ہے کہ یہ والی استری بہت ٹکا کر کرنٹ مارتی ہے تو آپ کا عمل کیا رہا؟ کیا آپ ہر ایک کو یہ باتیں کہتے ہی رہے؟ یا فوری طور پر خود ان سب سے کنارہ کشی اختیار کر لی؟ اور یقین کریں کہ جب بھی انسان خود عمل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کی بات میں تاثیر عطا فرما دیتا ہے. بیشک وہ کوئی ڈاکٹر ہی ہو، اگر خود تیز ٹھنڈا پانی نہ پیتا ہو اور دوسرے کو اس سے پرہیز بتائے تو مریض نہ چاہتے ہوئے بھی عمل پر راضی ہو جاتا ہے.
تو تلاش کرنے ہیں، وہ دروازے، کھڑکیاں، سوراخ جن سے ہمارے اندر یہ ون ویلنگ کا شوق کروٹیں لے رہا ہے. اگر ٹی وی ہے تو سب سے آسان حل، اس میں ایک آف کا بٹن بھی لگا ہوتا ہے کبھی اسے استعمال کر کے دیکھیں. رشتہ دار، دوست، ماحول ہے تو یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ نے بس ان سے اچھا سلوک کرنے کہا ہے، ان کی دین سے بیگانگی، خوف یا دیوانگی کی اطاعت کرنے نہیں. ذرا غور تو کریں کہ کتنے کتنے احمقانہ کام ہم صرف لوگ کیا کہیں گے، فلاں خفا ہو جائے گا، کے خوف سے کرتے ہیں. خود کش جیکٹ کا اتنا خوف رکھتے ہیں، ان سب سے جو تباہی پھیل رہی ہے اس کا احساس بھی نہیں. بچے تو آج اغوا ہو رہے ہیں، ایمان، پہچان، حیا، تو کب کے ہو چکے. جہاد فقط یہ تھوڑی ہے کہ آپ میدان جنگ میں کفار پر نڈر ہو کر حملہ آور ہوں اور پھر مزے سے جانباز یا شہید مشہور ہو جائیں؟ اپنے آپ سے، اپنوں سے، اپنے ماحول کی گستاخیوں کے تحت رائج رویوں سے انحراف، جہاد فی سبیل للہ ہی تو ہے.
برسہا برس گزر گئے، لوگ پاکستان میں ڈیم نہ بننے، سیلاب میں سب کچھ برباد ہو جانے، کسی صاحب کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے دیکھ کر میمو گیٹ ایشو پر اسے سزا نہ ہونے کو بس رو ہی رہے ہیں. کیا ہم یہ جرم نہیں کر رہے؟ کرتے ہی نہیں چلے جا رہے؟ ہرغیر قوم کی رسومات، ملبوسات، ادائیں اور بدتہذیبی، سب کے لیے دل کے گیٹ نہیں کھول دیے ہیں؟ اتحاد و اتفاق سے یکجا ہو کر اخلاقیات کا ڈیم نہ بنا سکے تو برقی توانائی کہاں سے آئے گی، اجالا کیونکر ہوسکے گا، ون ویلنگ کی شوقین قوم ایسی ہی تو ہوتی ہے، جوان بےمقصد زندگی میں مصروف، محتاج و مجبور اور بزرگ ان کی تیمارداری میں غموں سے چور.

Comments

Click here to post a comment