ہوم << تخیل اور واہمہ: کولرج کی ادبی تنقید میں فکری امتیاز - سید عبدالوحید فانی

تخیل اور واہمہ: کولرج کی ادبی تنقید میں فکری امتیاز - سید عبدالوحید فانی

سیموئل ٹیلر کولرج (S.T. Coleridge) انگریزی ادبیات کا ایک بےمثال مفکر، شاعر، نقاد اور فلسفی تھا، جس نے نہ صرف انگریزی شاعری کو نئی جہتیں عطا کیں بلکہ فکر و نظر کی ایک ایسی بنیاد رکھی جس نے بعد کے کئی ادوار پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے عبوری دور میں جب یورپ علمی، ادبی اور فکری بلندیوں سے گزر رہا تھا، کولرج نے ادبی تنقید کے میدان میں "Biographia Literaria" کے ذریعے جو شعری نظریہ پیش کیا، وہ تخیل (Imagination) اور قوتِ واہمہ (Fancy) کی تشریح کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ فکر ہے جسے اردو ادب نے بھی قبول کیا اور جس کے اثرات بعد کے تنقیدی مباحث میں جا بہ جا دیکھے جا سکتے ہیں۔

کولرج کے نزدیک "تخیل" محض شعری یا ادبی کیفیت کا نام نہیں بلکہ ایک باطن کی قوت ہے، ایک زندہ عمل ہے، جو ہر تخلیقی مظہر کی جڑ میں پنہاں ہے۔ اس نے تخیل کو دو اہم اقسام میں تقسیم کیا: بنیادی تخیل (Primary Imagination) اور ثانوی تخیل (Secondary Imagination)۔ بنیادی تخیل کولرج کے نزدیک تمام انسانی ادراک، شعور، حسیت اور زندہ وجود کا محرک اوّلین ہے۔ یہ ایک ایسی تخلیقی قوت ہے جو ہر انسان میں ودیعت کی گئی ہے اور جو شعوری یا لاشعوری طور پر کائنات کو قبول کرنے، محسوس کرنے اور اس سے ربط پیدا کرنے کے عمل میں فعال رہتی ہے۔ اس کے نزدیک یہ تخیل کا وہ پہلو ہے جو خدا کی تخلیق کی تقلید کرتا ہے، یعنی انسان کا "میں ہوں" کا نعرہ درحقیقت اسی لامحدود تخلیقی مرکز کا اظہار ہے، جو کائناتی وجود کے باطن میں مضمر ہے۔ یوں یہ تخیل وہ عمل ہے جو انسان کو ایک فعال تخلیق کار بناتا ہے، جو مادی دنیا کی بے حرکتی کے مقابلے میں زندگی کی ایک لامحدود قوت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر شے جو بطور شے بے جان اور ساکت ہے، انسان کے شعور میں آکر ایک متحرک مظہر میں ڈھلتی ہے، اور یہ تبدیلی بنیادی تخیل کی بدولت ممکن ہوتی ہے۔

دوسری طرف، ثانوی تخیل، بنیادی تخیل ہی کی ایک بازگشت ہے، جو شعور اور ارادے کے دائرے میں کام کرتی ہے۔ کولرج کے مطابق یہ ایک ایسا تخلیقی مظہر ہے جو اگرچہ بنیادی تخیل سے الگ نہیں، لیکن اپنے دائرۂ عمل میں محدود اور مخصوص ہے۔ ثانوی تخیل ادبی تخلیق کے دوران اس وقت بروئے کار آتی ہے جب شاعر یا فنکار شعوری طور پر کسی تجربے، جذبے یا مظہر کو نئے پیرایہ اظہار میں ڈھالتا ہے۔ اس عمل میں وہ حقیقت کو صرف عکس نہیں بناتا بلکہ اسے تحلیل، ترکیب اور تخلیق نو کے مراحل سے گزار کر ایک نیا اور مربوط وجود عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کولرج اس تخیل کو بھی "زندہ" قرار دیتا ہے، کیونکہ یہ اشیاء کو دوبارہ مرتب کرنے، منتشر کو مربوط کرنے اور غیرمرکوز کو مرکزیت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ثانوی تخیل بکھیرتا ہے تاکہ پھر سے جوڑ سکے، ختم کرتا ہے تاکہ نئی صورت خلق ہو سکے، توڑتا ہے تاکہ وحدتِ نو کی تخلیق ہو سکے۔ یہی وہ عمل ہے جو عظیم ادب کی بنیاد بنتا ہے اور تخلیق کو محض تقلید سے بلند کر کے حقیقی فن میں تبدیل کرتا ہے۔

اس کے مقابل قوتِ واہمہ یا فینسی (Fancy) کولرج کے نزدیک ایک کمتر درجہ کی قوت ہے، جسے وہ تخلیق نہیں بلکہ ترکیب قرار دیتا ہے۔ واہمہ اشیاء کو ان کی جامد صورت میں پیش کرتا ہے، بغیر کسی زندہ تخلیقی عمل کے۔ یہ گویا ایک ایسا حافظہ ہے جو اپنی یادداشت کو نئے روپ میں پیش تو کر سکتا ہے، لیکن اس میں تخلیق کی وہ صلاحیت نہیں جو کسی مظہر کو ایک نئی معنویت عطا کرے۔ قوت واہمہ کسی چیز کو اس کی اصل ساخت سے ہٹائے بغیر، صرف ظاہری صفات میں رد و بدل کر کے ایک نئی ترتیب ضرور دے سکتی ہے، لیکن وہ ترتیب محض چناؤ پر مبنی ہوتی ہے، اس میں وحدت، مرکزیت یا گہرائی کا عمل شامل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کولرج واہمہ کو "زمان و مکان سے آزاد حافظہ" قرار دیتا ہے، جو ارادہ کے کرشمے سے بدل تو جاتا ہے لیکن قانونِ مناسبت (Law of Association) کے تابع رہتا ہے۔ یعنی وہ صرف ان اشیاء کو جوڑ سکتا ہے جو پہلے سے موجود ہوں، اور ان کے درمیاں کسی نہ کسی سطح پر ذہنی یا خارجی ربط ہو۔ گویا واہمہ محض موجود مواد کو نئے سانچے میں ڈالنے کا نام ہے، اس میں بنیادی یا ثانوی تخیل کی طرح "تخلیق نو" کا کوئی پہلو موجود نہیں۔

کولرج کے اس پورے تصور کو اردو تنقید میں علامتی زبان میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ تخیل ایک روحانی توانائی ہے جو فنکار کی داخلی کیفیت کو خارجی دنیا سے جوڑ کر ایک نئی کائنات خلق کرتی ہے۔ یہ وحدت پیدا کرنے والی قوت ہے، جو متفرق اجزاء کو اس طرح ہم آہنگ کرتی ہے کہ ایک مربوط اور جاندار کل کی صورت پیدا ہو۔ اس کے برعکس، واہمہ ایک تجزیاتی عمل ہے، جو تفریق کرتا ہے، چیزوں کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے، اور ان کے درمیان محض ظاہری تعلق پیدا کرتا ہے۔ جہاں تخیل گہرائی اور معنویت کی تخلیق کا ذریعہ ہے، وہیں واہمہ صرف سطحی و تصویری ترکیب تک محدود ہے۔

کولرج کے یہ نظریات اُس کے عہد کے رومانوی شعری رجحانات کا فکری مرکز تھے۔ اس نے فن کو نہ صرف جذباتی اظہار بلکہ روحانی تجربہ قرار دیا۔ اس کے نزدیک سچا فن وہی ہے جو تخیل کی گہرائیوں سے جنم لے، جو صرف ظاہری حسن پر نہیں بلکہ باطنی وحدت اور معنویت پر قائم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شاعری کو ایک مقدس اور تخلیقی عمل سمجھتا تھا، جو انسان کو اپنے اندر جھانکنے، کائنات سے ربط پیدا کرنے اور ایک ایسی حقیقت تک رسائی کا ذریعہ بناتا ہے جو محض عقل یا مشاہدے سے ممکن نہیں۔

اردو تنقید اور شاعری میں بھی جب تخیل اور واہمہ کی بحث سامنے آتی ہے تو کولرج کی یہی تفریق بنیادی رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ غالب یا اقبال کی شاعری کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں بارہا ایسے تجربات ملتے ہیں جہاں تخیل محض منظر کشی یا جذباتی اظہار سے بلند ہو کر ایک کائناتی وحدت کا سراغ دیتی ہے۔ ان شعرا کے ہاں تخیل نہ صرف اشیاء کو نیا مفہوم دیتا ہے بلکہ خود قاری کے شعور کو بدل دیتا ہے اور ایک نئی بصیرت فراہم کرتا ہے۔

کولرج کا تصورِ تخیل دراصل فن اور حقیقت، فرد اور کائنات، جسم اور روح کے مابین ایک متحرک رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ اس قوت کو "الہامی" بھی گردانتا ہے اور "تقلیدی" بھی، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شعور، جذبے اور فہم کے تمام پہلوؤں کو وحدت دے سکے۔ تخیل اُس لمحے کی تلاش ہے جہاں فن اور وجود ایک ہو جائیں۔

Comments

Avatar photo

سید عبدالوحید فانی

سید عبدالوحید فانی ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ہیں۔ تعلق پشین، بلوچستان سے ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بی ایس اردو ادب کے طالب علم ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ادبی مضامین تحریر کرتے ہیں۔ فانی ترجمہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ شاعری کی مختلف اصناف میں بھی ان کی دلچسپی نمایاں ہے۔ ان کی تحریریں فکری گہرائی اور فنی پختگی کی آئینہ دار ہیں۔

Click here to post a comment