ہوم << افسانہ: نرمی کا سفر - اخلاق احمد ساغر

افسانہ: نرمی کا سفر - اخلاق احمد ساغر

گاؤں کے کنارے ایک چھوٹا سا مکان تھا، مٹی سے بنا ہوا، جس کی دیواریں بارشوں میں بھیگ کر اور دھوپ میں سوکھ کر زندگی کی تلخیوں کی عکاسی کرتیں۔ وہاں رہتا تھا فضل دین، ایک سخت مزاج، غصیلہ مگر دیانت دار کسان۔ ہاتھ میں ہر وقت لاٹھی، ماتھے پر تیور، زبان پر کاٹ۔ گاؤں کے لوگ اس سے ڈرتے، بچے اس کے آنے پر چھپ جاتے اور عورتیں راستہ بدل لیتیں۔

فضل دین نے زندگی کو کھردرا دیکھا تھا۔ جوانی میں زمین کا جھگڑا، بھائیوں سے بگاڑ، ایک بیٹے کی موت، اور دوسرے کو شہر پڑھنے بھیجنے کا دکھ۔ اس کا ماننا تھا کہ نرمی کمزوری ہے، اور کمزور آدمی دنیا میں پیس دیا جاتا ہے۔ اس لیے اس نے اپنے دل پر بھی بوجھ باندھ رکھا تھا۔
فضل دین کا بیٹا، علی، شہر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ ایک مختلف دنیا میں پل رہا تھا، جہاں الفاظ سے دل جیتے جاتے تھے، اور نرمی کو سمجھ داری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو علی اپنے والدین سے ملنے گاؤں آیا۔

گاؤں کی خاموش فضا، مٹی کی خوشبو، اور ماں کی ممتا نے اسے سکون دیا، مگر باپ کی کرختگی پھر سے دل پر بار بن گئی۔ ایک دن جب فضل دین نے علی کو کھیت میں کام کرنے میں سست پایا تو جھڑک دیا۔ علی خاموش رہا، مگر ماں نے علی کے کمرے میں آ کر آنکھوں میں آنسو لیے کہا، "بیٹا، ناراض نہ ہو، تمہارے ابا کا دل پتھر ہو گیا ہے، زندگی نے ایسا بنا دیا ہے۔"
علی نے ماں کے ہاتھ تھامے، "ماں، میں چاہتا ہوں یہ پتھر مٹی بن جائے، تاکہ ہم اس میں بیج بو سکیں، محبت کے، نرمی کے۔"
اگلے دن سے علی نے ایک فیصلہ کیا۔ وہ اب ہر دن اپنے باپ کے ساتھ جائے گا، خاموشی سے، احترام سے، نرمی سے۔

صبح جلدی اٹھ کر پانی بھرنا، کھیت جانا، بیل کو چارا دینا، اور بیچ بیچ میں ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بات کرنا اس کی روزمرہ بن گئی۔ ایک دن آٹا گوندھتے ہوئے علی نے کہا، "ابا، یہ آٹا جب تک نرم نہ ہو، روٹی نہیں بنتی، ہے نا؟" فضل دین نے چونک کر بیٹے کو دیکھا، کچھ کہنا چاہا، مگر صرف سر ہلا دیا۔
علی کا نرم رویہ آہستہ آہستہ فضل دین کے دل میں رسنے لگا۔ وہ پہلے پہل چپ رہا، مگر پھر اس کے چہرے پر کرختگی کے بجائے کچھ اور نمودار ہونے لگا۔

ایک شام گاؤں کے چند بچے درخت کے نیچے کھیل رہے تھے۔ ایک بچہ گر گیا اور رونے لگا۔ فضل دین قریب سے گزر رہا تھا۔ پہلے تو وہ رُکا نہیں، مگر پھر پلٹا، اور اس بچے کو گود میں اٹھا کر کہا، "چوٹ لگی ہے؟ کچھ نہیں ہوتا، مرد بن!" پھر جیب سے ایک چینی نکال کر بچے کو دے دی۔ گاؤں والے حیران تھے۔
ماں نے رات کو کہا، "فضل دین آج مسکرایا۔ میں نے برسوں بعد اس کے ہونٹوں پر ہلکی جنبش دیکھی۔"
علی نے کہا، "ماں، دل کو نرم کرنے میں وقت لگتا ہے، جیسے لوہا جب پگھلتا ہے تو اوزار بنتا ہے، سونا جب نرم ہوتا ہے تو زیور بنتا ہے۔"
ایک دن فضل دین نے خود علی سے پوچھا، "بیٹا، کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ نرمی سے دنیا بدلی جا سکتی ہے؟"
علی نے کہا، "ابا، اگر مٹی نرم نہ ہو تو ہم اناج کیسے اگائیں؟ نرمی ہی زندگی کی بنیاد ہے۔"
فضل دین کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر پہلی بار بولا، "شاید میں دیر سے سمجھا، مگر تم نے میرے دل پر دستک دی ہے۔"

چند مہینوں بعد گاؤں میں فضل دین کو ایک بزرگ کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا جو بچوں کو کہانیاں سناتا، عورتوں کی بات سنتا، اور بزرگوں کے پاس بیٹھتا۔ وہی لاٹھی اب بچوں کو گڈی گڈی کھیلنے کے لیے دی جاتی، وہی زبان اب دعاؤں کے لیے کھلتی۔
فضل دین اب صرف ایک کسان نہیں تھا، وہ انسان بن چکا تھا۔

وقت گزرتا گیا۔ فضل دین کے گھر کی فضا بدل چکی تھی۔ اب وہاں صبح کے وقت اذان کی آواز کے ساتھ ساتھ ایک نئی عادت جنم لے چکی تھی: فضل دین بچوں کو مکتب میں بٹھاتا، علی قرآن کی آیتوں کے ترجمے سناتا، اور ان کے مطلب پر بات کرتا۔ ایک دن علی نے پوچھا، "ابا، دل کی نرمی کا ذکر قرآن میں کتنی بار آیا ہے؟"
فضل دین نے آنکھیں بند کیں، اور نرم لہجے میں بولا، "جتنا سخت دل ہو، اتنا ہی وہ حق سے دور ہوتا ہے۔ اللہ نرم دل والوں کو اپنا دوست بناتا ہے۔"
وہ دن گویا ایک اور انقلاب کا آغاز تھا۔ اب فضل دین اپنی زمین پر محض فصل نہیں اگاتا تھا، وہ بچوں کے ذہنوں میں شعور، اور دلوں میں رحم بونے لگا تھا۔ گاؤں میں جسے کبھی درندہ صفت سمجھا جاتا تھا، اب اسے "بابا جی" کہا جانے لگا۔

ایک دن گاؤں کے اسکول میں تقریب ہوئی۔ علی کو مدعو کیا گیا۔ اس نے اپنے خطاب میں کہا، "میرے والد نے مجھے زمین سے جوڑ کر آسمان کی وسعتوں تک پہنچایا۔ انھوں نے مجھے سکھایا کہ نرمی، محبت، اور انسانیت کسی تعلیمی ڈگری سے بڑی دولت ہے۔"
پھر وہ سامعین کی طرف مڑا، جہاں پہلی قطار میں فضل دین بیٹھا تھا۔ علی کی آواز بھرائی، "میرے والد، فضل دین، وہ لوہا تھے جو وقت کی آگ میں نرم ہوا، اور آج ایک اوزار ہے جو دوسروں کی زندگی سنوارتا ہے۔ وہ مٹی ہے جس نے ہمیں کھلایا، اور اب سوچ کو زرخیز بنا رہا ہے۔ وہ سونا ہے، جو پگھل کر زیور بن گیا۔ اور سب سے بڑھ کر، وہ دل ہے جو نرم ہو کر انسان بن گیا۔"

مجمع تالیوں سے گونج اٹھا، اور فضل دین کی آنکھوں سے پہلی بار آنسو ٹپکے خوشی کے، سکون کے، اور شاید پچھتاوے کے بھی۔ مگر سب سے بڑھ کر وہ آنسو انسانیت کے تھے۔