خواہشوں کا ایک جنگل ہے، جس میں ہر طرف دوڑتے، بھاگتے، اچھلتے گھوڑے نظر آتے ہیں۔ کچھ گھوڑے سدھائے ہوئے، متوازن اور مہذب ہوتے ہیں، جو اپنے سوار کو ایک سنجیدہ اور بامقصد منزل کی طرف لے جاتے ہیں، اور کچھ بے لگام، سرکش اور بد مست، جو سوار کو خود اپنی ہی خواہشوں کے گرداب میں الجھا دیتے ہیں۔
خواہشات کی دو اقسام ہیں ایک وہ جو زندگی میں بہتری اور ترقی کا سبب بنتی ہیں، جیسے علم حاصل کرنے، کسی ہنر میں مہارت پانے یا سماجی بھلائی کے لیے کام کرنے کی تمنا۔ دوسری وہ جو بے جا لالچ، خود غرضی اور غیر حقیقی توقعات کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔ عہدِ حاضر میں انسان نے ترقی کی وہ منازل طے کر لی ہیں جن کا کبھی خواب بھی ممکن نہ تھا۔ مگر ترقی کی اس دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کی ہوس نے اسے خودغرضی، بے راہ روی اور سطحی کامیابیوں کے پیچھے لگا دیا ہے۔ ایک ایسا منظرنامہ تشکیل پا چکا ہے جہاں شہرت، دولت اور طاقت ہی سب کچھ بن چکے ہیں، اور انہیں حاصل کرنے کے لیے ہر حد پار کی جا رہی ہے۔
دولت، رتبہ اور شہرت کی خواہش نے اخلاقیات اور جائز طریقوں کی سوچ کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ معاشرے میں اہمیت کا معیار شرافت، علم یا قابلیت نہیں رہا، بلکہ حیثیت کو دولت اور تعلقات کی ترازو میں تولا جانے لگا ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے، جہاں محض ظاہری کامیابی ہی اصل معیار سمجھی جاتی ہے۔یہی سبب ہے کہ جو کچھ حاصل کر لیتا ہے، وہ سب کچھ پا لینے کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔خواہشات کی یہ بے لگام دوڑ سب سے زیادہ شوبز اور سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے، جہاں نام بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اخلاقیات، شرافت، اور محنت کی جگہ سنسنی، فحاشی اور سکیڈلز نے لے لی ہے۔
ایک اداکارہ یا ماڈل اگر عام انداز میں محنت کرے تو اسے شاید برسوں لگیں، لیکن اگر وہ کسی متنازعہ ویڈیو، نیم برہنہ تصاویر یا مصنوعی سکیڈل کے ذریعے سوشل میڈیا پر ''وائرل'' ہو جائے تو وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہے۔یہی حال کچھ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا ہے، جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بجائے غیر ضروری تنازعات، جھوٹے دعوے اور سنسنی خیز مواد کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کی تضحیک، جھوٹے سکیڈلز، یا غیر اخلاقی حرکات کے ذریعے مشہور ہونے کا رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ خواہشات کا گھوڑا قابو سے باہر ہو چکا ہے۔
دولت کی خواہش بھی ایک ایسا ہی بے لگام گھوڑا ہے، جس کے پیچھے دوڑنے والا کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ ایک تاجر جب چھوٹا ہوتا ہے تو وہ صرف اتنا کمانا چاہتا ہے کہ اس کا گزارا ہو جائے، لیکن جیسے ہی وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر لیتا ہے، اس کی خواہشات کا گھوڑا مزید دوڑنے لگتا ہے۔ پھر وہ زیادہ منافع، زیادہ جائیداد اور زیادہ طاقت چاہنے لگتا ہے۔ رشوت، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور دھوکہ دہی جیسے ہتھکنڈے اپنا کر دولت کے انبار لگانے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہ ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی۔بینک بیلنس بڑھتا جاتا ہے، مگر سکون کم ہوتا جاتا ہے۔ عالیشان محلات اور بڑی گاڑیاں لینے کے بعد بھی انسان مزید چاہتا ہے، اور یوں خواہشوں کا یہ بے لگام گھوڑا اسے کبھی تھمنے نہیں دیتا۔
کچھ لوگ دولت اور تعلقات کے سہارے خود کو دانشور، مصنف اور تجزیہ کار کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں۔ ایک کتاب لکھوانے اور شائع کرانے سے وہ خود کو ''مصنف'' قرار دینے لگتے ہیں، چند تقریبات میں فنڈنگ کر کے وہ خود کو مہمانِ خصوصی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور محض چند جذباتی بیانات دے کر وہ تجزیہ کار اور مفکر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب خواہشات کا وہ بے قابو گھوڑا ہے جو انہیں حقیقت پسندی اور اصل قابلیت کے راستے سے دور لے جا رہا ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت میں خواہشات کا گہرا تعلق ہے۔
یہ خواہشات ہی ہیں جو اسے ترقی کے نئے راستے دکھاتی ہیں، اسے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہیں اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ لیکن جب یہی خواہشات بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑنے لگیں تو زندگی میں انتشار اور بے سکونی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔خواہشات پر قابو پانا اور انہیں صحیح سمت میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ جب خواہشات کو اخلاقیات اور حقیقی محنت کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، تو یہی خواہشات ترقی، کامیابی اور خوشحالی کی بنیاد بن جاتی ہیں۔ لیکن اگر انہیں بے لگام چھوڑ دیا جائے، تو وہ تباہی اور گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں۔
زندگی میں اصل کامیابی وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو خواہشوں کے گھوڑے کو قابو میں رکھتے ہیں اور انہیں مثبت سمت میں دوڑاتے ہیں۔ اپنی خواہشوں کو حقیقت کے قریب رکھنا، ان کے حصول کے لیے محنت کرنا، اور ان کے اثرات کو سمجھنا ہی دانشمندی کی علامت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خواہشیں ہمیں منزل تک پہنچائیں، تو ہمیں ان کی لگام خود تھامنی ہوگی، ورنہ یہ گھوڑا ہمیں اندھی دوڑ میں شامل کر کے کہیں اور لے جا سکتا ہے، جہاں صرف سراب ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ اگر خواہشات پر قابو نہ رکھا جائے اور ان کا صحیح سمت میں تعین نہ کیا جائے تو یہ انسان کو سراب کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ متوازن زندگی کے لیے ضروری ہے کہ خواہشات کو حقیقت پسندی اور خود شناسی کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ ایک باشعور انسان وہی ہوتا ہے جو اپنی تمناؤں کو قابو میں رکھتے ہوئے ان کا صحیح استعمال کرے اور خواہشات کے گھوڑے کو اتنا سرکش نہ ہونے دے کہ وہ اسے گمراہی کی راہ پر ڈال دے۔زندگی میں کامیابی کا راز صرف خواہشات رکھنے میں نہیں بلکہ ان کے لیے عملی جدوجہد کرنے میں ہے۔ جو لوگ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہوئے محنت، صبر اور استقامت سے کام لیتے ہیں، وہی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔
لہٰذا، خواہشات کا گھوڑا دوڑانا بری بات نہیں، لیکن اس کی لگام ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ گھوڑا ہمیں ہماری منزل کے قریب لے جائے، نہ کہ بھٹکنے پر مجبور کر دے۔اس کے علاوہ، ہمیں اپنی خواہشات کے اثرات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں وہ دوسروں کے لیے نقصان دہ تو نہیں؟ اپنی خواہشات کی تکمیل میں دوسروں کے جذبات، حقوق اور ضروریات کا خیال رکھنا بھی انتہائی اہم ہے۔ ایک متوازن اور خوشحال معاشرہ تبھی ممکن ہے جب افراد اپنی خواہشات کو ذمہ داری کے ساتھ پورا کریں اور دوسروں کے حق کا احترام کریں۔
خواہشات کی تکمیل کے لیے صبر اور استقامت بے حد ضروری ہے۔ اکثر لوگ جلد بازی میں ایسی راہوں کا انتخاب کر لیتے ہیں جو وقتی طور پر آسان لگتی ہیں لیکن درحقیقت نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ کامیابی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اپنی تمناؤں کو حقیقت کے قریب رکھتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے مستقل مزاجی سے محنت کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ، ضروری ہے کہ خواہشات کو صرف مادی اشیاء تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ذہنی، روحانی اور اخلاقی ترقی کو بھی ترجیح دی جائے۔ حقیقی خوشی صرف دولت اور مادی کامیابی میں نہیں بلکہ کردار کی پختگی، دوسروں کی مدد اور زندگی کے مثبت مقاصد میں مضمر ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات کا جائزہ لیتا رہے، انہیں اپنی اقدار اور اصولوں کے مطابق ترتیب دے اور انہیں پورا کرنے کے لیے جائز اور مثبت طریقے اپنائے۔ اگر خواہشات کا گھوڑا دانشمندی اور اعتدال کے ساتھ دوڑایا جائے تو یہی گھوڑا کامیابی، سکون اور خوشحالی کی راہ پر لے جا سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے