ہم عمومی طور پر روزمرہ زندگی میں لوگوں کو تین طبقات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ کنجوس، کفایت شعار اور سخی۔ سچ کہا جائے تو یہ محض مالی رویے نہیں بلکہ دلوں کی کیفیت، ظرف کی وسعت اور شعور کی عکاسی ہیں۔ عمومی طور پر کنجوسی، کفایت شعاری اور سخاوت فطری صفات ہیں اور خاندانی بھی۔
تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کنجوس ترین انسان کی نسلوں میں سخی لوگ پیدا ہوتے ہیں اور دریا دل رکھنے والے لوگوں کی اولاد میں بخیل ترین لوگ پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کم ہی ہوتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ کنجوسی ایک بیماری ہے، جو انسان کو دوسروں کے حق سے روک دیتی ہے، خواہ وہ حق مال کا ہو، وقت کا ہو، علم کا ہو یا محبت کا۔ ایسے لوگ سمندر کنارے بیٹھے بھی ہوں تو ہاتھ دھونے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ دھونے سے پانی میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ان کے بارے میں فرمایا ہے۔
[arabic]”الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ” (النساء: 37)[/arabic]
“جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں.”
بہرحال کنجوسی ایک بہت بری صفت ہے۔ بندہ چاہیے تو باقاعدہ پریکٹس کے ذریعے اس پر قابو پایا سکتا ہے۔ کنجوسی اوربُخل کے مقابلے میں کفایت شعاری ایک توازن ہے۔ نہ اسراف، نہ بخل۔ نہ دکھاوا، نہ تنگ دلی۔ بلکہ اپنی استطاعت اور حالات کے مطابق سلیقے سے خرچ کرنے کا نام کفایت شعاری اور میانہ روی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتے ہیں۔
[arabic]”وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا” (الفرقان: 67)[/arabic]
“جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں۔”
اور سخاوت؟ وہ دل کی کشادگی ہے، دریا دلی ہے، ایمان کی علامت ہے، روح کی حلاوت ہے۔ سخاوت صرف پیسے سے نہیں ہوتی، انسان اپنی محبت، دعا، وقت، علم، سوچ، نظریہ، دانائی، حکمت، بصیرت، اختیارات اور تعلقات میں بھی سخی ہو سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
[arabic]”السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ، قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ” (ترمذی: 1961)[/arabic]
“سخی، اللہ کے قریب، لوگوں کے قریب، جنت کے قریب اور جہنم سے دور ہوتا ہے.”
اگر ہم غور کریں تو یہ تینوں صفات زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک استاد ہے جو علم کا کنجوس ہے، نہ پوچھنے پر بتاتا ہے نہ خود کچھ سکھاتا ہے۔ ایک افسر ہے جو اختیارات رکھتا ہے، مگر انصاف نہیں دیتا۔ ایک بااثر شخص ہے، جو جائز سفارش کر سکتا ہے، لیکن خاموشی اختیار کرتا ہے۔ یہ سب بخل کی علامتیں ہیں۔ دوسری طرف، وہ لوگ بھی ہیں جو وسائل محدود ہونے کے باوجود علم بانٹتے ہیں، وقت دیتے ہیں، مشورے دیتے ہیں، کسی طالب علم کا ہاتھ پکڑتے ہیں، کسی بیمار کے لیے دعا کرتے ہیں، کسی غریب کی عزت بچاتے ہیں۔ یہی لوگ اصل میں سخی ہیں، یہی معاشرے کی روشنی ہیں اور انہیں سے کامیاب معاشروں کی پہچان ہے۔
ہم جتنے وسیلے رکھتے ہیں، وہ آزمائش و امتحان ہیں۔مال و دولت ، علم و فن، عہدہ و اختیار ، وقت، تعلقات، اور ان سب چیزوں پر ہمارا رویہ ہی بتاتا ہے کہ ہم کنجوس ہیں، کفایت شعار یا سخی۔ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے ہے کہ کیا ہم صرف اپنی جیب میں کنجوس ہیں یا دل، دماغ، وقت، اختیار، عہدہ، قلم اور تعلقات میں بھی؟ سخی بنئیے، چاہے آپ کے پاس کچھ نہ ہو۔ کیونکہ سخاوت مال کی نہیں، ظرف کی علامت ہے۔
انسان ہر چیز سیکھ لیتا ہے، آج کے جدید دور میں ان صفات کے حصول کے لیے باقاعدہ ریاضیاتیں کی جاسکتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر ہم میں کنجوسی اور بُخل کی کیفیت موجود ہے تو ہمیں اس سے دوری اختیار کرنے کے لیے باقاعدہ عملی مشق کرنی چاہیے، اس کی ایک ترتیب سخی لوگوں کی رفاقت اور مجالست بھی ہے۔ بہرحال اگر انسان سخی اور دریا دل نہیں بن سکتا تو کم از کم کفایت شعار تو بنے۔



تبصرہ لکھیے