خون سے جو لکھی جائے، وہ تحریر ہے غزہ
سجدوں میں بھی جلتی ہوئی تقدیر ہے غزہ
ماتم ہے فضا پر، یہ زمیں چیخ رہی ہے
اک شہر نہیں، عالمِ تصویر ہے غزہ
گودوں میں جو سوئے تھے، وہ لاشے میں بدلے
بچپن کی جنازوں میں تعبیر ہے غزہ
خاموش تماشائی ہیں سب اہلِ عدالت
انصاف کے منہ پر بھی زنجیر ہے غزہ
کعبے سے بھی خاموشی ہے، مسجد بھی ہے ساکت
کیوں آج ہر اک در پہ تحریر ہے غزہ؟
جنّت کے طلبگاروں سے یہ بھی کوئی پوچھے
کیا خلد سے کمتر ہے جو جاگیر ہے غزہ؟
احمد نے کہا اشکوں سے جو لکھی گئی ہو
وہ نظم نہیں، وقت کی تقدیر ہے غزہ
تبصرہ لکھیے