ہوم << غزہ کی چیخ: انسانیت کے ضمیر پر دستک - نعیم اللہ باجوہ

غزہ کی چیخ: انسانیت کے ضمیر پر دستک - نعیم اللہ باجوہ

رات کی سیاہی جب ظلمت کی چادر اوڑھتی ہے،
تو غزہ کی گلیاں ستاروں کی بجائے
لاشوں سے جگمگاتی ہیں۔
یہاں نیند ماں کی گود میں نہیں،
کفن کی چادر میں آتی ہے۔
یہاں جھولے نہیں جھولتے،
صرف قبریں جھومتی ہیں
اپنے معصوم مکینوں کے انتظار میں۔

غزہ وہ بستی ہے
جس کے مکانات اینٹوں سے نہیں
یادوں سے بنے تھے —
جہاں ہر دروازہ کسی شہید کی آہ سے جڑا تھا،
اور ہر کھڑکی سے
دعا کی خوشبو آیا کرتی تھی۔
مگر اب،
ہر در دیوار پر بارود کی مہک ہے،
ہر سایہ، سایہ نہیں —
کسی لاپتہ بچی کا کٹا ہوا ربن ہے۔

دنیا کہتی ہے "یہ سیاست ہے"،
مگر غزہ کے بچے
سیاست کے رموز نہیں جانتے،
وہ صرف اتنا جانتے ہیں
کہ ایک دن اسکول جاتے ہیں،
دوسرے دن ان کی کتابیں ان کے کتبے بن جاتی ہیں۔

کیا تم نے کبھی سنا ہے؟
اذان کے بیچ میں دھماکے کی آواز؟
کیا تم نے کبھی محسوس کیا ہے؟
کسی ماں کا وہ آنسو
جو بچے کے چہرے پر آخری بار بہتا ہے؟
کیا تم نے کبھی دیکھا ہے؟
ایک چھوٹے سے ہاتھ میں قلم نہیں،
کسی بہن کی کٹی چوٹی ہوتی ہے۔

غزہ کی زمین اب زمین نہیں رہی،
یہ ایک مقدس قبرستان ہے،
جہاں ہر قبر
ایک مکمل داستان ہے —
ایک خاندان، ایک خواب،
ایک قہقہہ جو گولیوں کی دھار میں دفن ہو گیا۔

اور ہم؟
ہم خاموش ہیں،
ہم ان گونگے آئینوں کی طرح ہیں
جن میں انسان تو دکھائی دیتا ہے،
مگر انسانیت نہیں۔
ہم وہ سجدے گزار لوگ ہیں
جن کی پیشانیوں پر محراب تو ہے،
مگر دلوں میں غزہ کی چیخ نہیں۔

اے دنیا کے باسیو!
اگر تمہیں غزہ کی اذیت محسوس نہیں ہوتی،
تو شاید تم نے انسان بننا چھوڑ دیا ہے۔

کب تک ہم لاشوں پر تبصرے لکھیں گے؟
کب تک ہم لفظوں کے کفن تیار کریں گے؟
یہ وقت ہے کہ
قلم کو تلوار بنایا جائے،
آواز کو اذان،
اور آنکھوں کو چراغ —
کہ ظلم کی یہ شب
اب بہت طویل ہو چکی ہے۔