اکتوبر 2023 سے آج تک مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر جن مظالم کو دیکھا ہے جن جنگی جرائم کا مشاہدہ کیا ہے شاید ہی دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہو ۔ 21 لاکھ 42 ہزار مسلمانوں کے اس علاقے کا رقبہ 365 مربع کلو میٹر ہے جو کہ بحیرہ روم کا ساحل سمندر بھی ہے ۔ اسرائیل اس پٹی پر اب تک تین بڑی جنگیں لڑ چکا ہے ۔ 1948 کی فلسطین جنگ ، سوئز بحران کی وجہ سے اسرائیل کا قبضہ اور اس کے بعد 1967 میں کیا جانے والا قبضہ جس میں غزہ کی 1 فیصد آبادی جس میں تقریبا 2 ہزار لوگ شہید کئے گئے ، بے شمار زخمی ہوئے اور سینکڑوں کو قیدی بنایا گیا ۔
اسرائیل نے غزہ پر کئی بار ناجائز بمباری کی 2008 سے 2009 تک 21 دن بمباری کی ۔ 2012 میں مسلسل 8 دن تک فضائی حملے کئے ، 2014 میں 50 دن تک مسلسل بمباری کی گئی ، 2021 میں 11 دن مسلسل اہل غزہ کو فضائی بمباری سے نشانہ بنایا گیا ۔ اکتوبر 2023 سے اپریل 2025 تک یعنی 19 مہینوں سے اسرائیل مسلسل اہلیان غزہ پر فضائی بمباری جاری کئے ہوئے ہے ۔ " مڈل ایسٹ مونیٹر " کی نومبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل غزہ پر اب تک 85 ہزار ٹن بارود غزہ پر گرا چکا ہے ۔ شاید ہمارے لوگوں کو یہ پڑھ کر تعجب ہو کہ فلسطین کے حق میں 1967 سے لیکر 1989 تک " اقوام متحدہ " کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں 131 قرار دادیں بھی پاس ہو چکی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل جیسے بد معاش ، ظالم ، دہشت گرد ملک نے اب تک 136 ہسپتالوں اور میڈیکل کلینکس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ۔ غزہ میں 98 فیصد سکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں ، 1000 سے زائد مساجد کو شہید کر دیا گیا ، مارچ 2024 تک جو مہاجرین تباہ حال غزہ کو چھوڑ کر رفاہ بارڈر تک جانا چاہتے تھے ان کی تعداد تقریبا 11 لاکھ تھی ۔ جب کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 166 صحافی جو غزہ میں مختلف مقامی اور بین الاقوامی جرائد رسالوں اور چینلز کے لئے کام کرتے تھے کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا ۔
غزہ کی مقامی آبادی تو 21 لاکھ تھی ۔ لیکن مسلسل 19 ماہ سے کی جانے والی 85 ہزار ٹن سے زائد بارود کی بمباری سے اصل میں کتنی تعداد میں مسلمان بچ پائے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو شہید کر دیا گیا ۔ پی ای بی ایس "فلسطینی سینٹرل بیورو آف شماریات " کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں بچوں کی آبادی تقریبا 13 لاکھ 64 ہزار تھی ۔ جو تقریبا غزہ کی آبادی کا آدھا حصہ تھی ۔ امریکہ اور اسرائیل کی ملی بگھت سے اب تک اس آبادی کا اکثر حصہ شہید کر دیا گیا ۔ فلسطین میں بچے کچے صحافی جو اپنی مدد آپ کے تحت تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کر رہے ہیں ان کے مطابق اب تک رفاہ شہر کو ملیا میٹ کر دیا گیا ۔
اب سوال یہ بنتا ہے کہ اگر ملحدین/ لبرل ازم کا انسانیت کا ایجنڈا درست ہے تو انہوں نے ایک بھی غزہ کے مسلمان کو شہید کیسے ہونے دیا ؟
انہوں نے غزہ کے ایک بھی سکول ، یونیورسٹی ، مدرسے ، مسجد اور ہسپتال کو تباہ ہونے کیوں دیا ؟ ان کے ہوتے ہوئے ایک بھی معصوم بچہ کس طرح شہید ہو گیا ؟ ایک غاصب ، ناجائز ریاست ، دہشت گرد ریاست نے ان مظلوم مسلمانوں پر 85 ہزار ٹن بارود کیوں برسا دیا ؟ اصل سوال یہ ہے ۔ 6 لاکھ 20 ہزار طلباء و طالبات پڑھائی سے محروم کیوں ہونے دئیے گئے یہ ہے اصل سوال ! PEBS کے مطابق یہ بمباری یہ ظلم و بربریت اتنی شدید تھی کہ یہاں پر 8 لاکھ 16 ہزار بچے مارچ 2024 تک شدید نفسیاتی مسائل کا شکار تھے ؟ کیا ان کا والد بہادر امریکہ ایک لبرل جمہوری ملک نہیں ؟
امریکہ اسرائیل کو غزہ جنگ کے لئے اکتوبر 2024 کی الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 22.76 بلین ڈالر کی امداد دے چکا ، جس میں آلٹری ( بارود اور بمباری کے سامان کا وزن) 2000 پائونڈز الگ سے امداد دی گئی ؟ انٹر نیشنل ایتھیسٹ الائنس کینیڈا اور امریکہ کے تحت یہ خونی لبرل ملحدین جن سے ڈالرز کی بھاری امداد چٹ کرتے ہیں ان میں سے کسی ایک ملحد نے اپنے باپ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک لفظ احتجاجی نہیں بولا ؟ آخر کیوں ؟ کیا یہ بے نتیجہ اور بے ثمر اخلاقیات کا نتیجہ تو نہیں ۔ ؟ یا پھر یہ پیڈ مشنری ہیں جو صرف انسانیت کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور فراڈ ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں ؟ اصل میں خونی لبرل اور ملحدین ان انسانی جنگی جرائم اور المیوں کے سب سے بڑے مجرم ہیں ۔ جنہوں نے پہلے انسان کو جمہوری اور احتجاجی راگ الاپنے سیکھائے ۔ اور اپنی تعداد کی بہتات پر وہ ہمیشہ اپنے ہی کئے گئے وعدوں ، قراردادوں سے مکرتے رہے ۔
امریکی ادارے UNICEF کے مطابق اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے ہماری 60 ہزار سے زائد مائیں بہنیں جو حاملہ تھیں ، 20 ہزار بچوں کو جنم دے پائیں ۔ جن میں سے روزانہ اوسطا 8 سے 9 بچے پیدائش کے فوری بعد شہید ہوئے ۔ جو باقی بچے ان کو کسی قسم کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی ، ان کے پاس ادویات نہیں تھی ، دو بار شدید سردی کا موسم آیا ، ان کے پاس پہننے کو صحیح کپڑے موجود نہ تھے ، سینکڑوں مسلمان بہنوں نے "لائیو برتھ " بغیر کسی میڈیکل سہولت کے بچوں کو جنم دیا ، سینکڑوں مائیں نا مناسب طبی اور خوراک کی سہولیات کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں. ان معصوم بچوں اور مائوں کا کیا قصور تھا ؟ یا ان مائوں اور بچوں کا جو ہزاروں واقعات میں اپنے بچوں کے لاشے مکمل ہی نہ کرپاتیں ، کسی کے پاس بازو آ جاتے تو ٹانگیں نہیں ملتیں ، کسی کے پاس دھڑ ہوتا تو باقی پورا جسم نہ ہوتا نہ جانے کیسی کیسی اذیتیں دیکھیں اہل غزہ اور ان کی مائوں بہنوں نے ؟ کیا انسانیت !!!! اس بات کا بھی تقاضہ کرتی ہے کہ کوئی مسلمان ہو تو اس تک انسانی بنیادوں پر ہی امداد پہنچا دی جائے ؟ یا پھر امریکہ بہادر جو بے لگام خونی بھیڑیا ہے جو اصول اس نے انسانیت کے وضع کر دیے ہیں وہی درست ہیں ؟ اسی طرح PEBS کی رپورٹ 2020 کے مطابق غزہ کی پٹی پر 43 ہزار 3 سو ایسے معصوم بچے بھی پیدا ہوئے جن کے باپ ان کی پیدائش سے قبل ہی اس دنیا سے جا چکے تھے ۔ کیا پوری دنیا میں زمین کا کوئی خطہ اس وقت ایسا موجود ہے جہاں پر بچوں کی اتنی بڑی تعداد صرف اس لئے یتیم ہو گئی کیوں کہ وہ ایک ظالم ، جابر ، دہشت گرد ملک کے جبر کی شکار ریاست کے مکین ہیں؟
اب میں تبصرہ کرنا چاہوں گا اہلیان اسلام پر
ہمیں اپنی کمزوریوں پر بھی نظر رکھنی ہے ۔ اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہے ۔ اپنی کوتاہیوں کو بھی سمجھنا ہے ۔ اس کے لئے ہمیں کتاب و سنت کی روشنی میں اپنی اصلاح کرنی ہو گی ۔ ہمیں ایسے گروہ کے ساتھ چلنا ہو گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کا درس دیتا ہو ۔ جس کے لئے دوسری کسی بھی جماعت ، گروہ یا مسلک کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے بچوں ، آنے والی نسلوں کے سامنے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا ہے، جس میں ہم کافی حد تک ناکام رہے ہیں ۔ فلسطین سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل اولاد کی سر زمین ہے ۔ فلسطین کی سر زمین واقعہ معراج کی چشم دید گواہ سر زمین ہے ۔ فلسطینی سر زمین سیدنا سلیمان اور سیدنا لوط علیھم السلام کی سر زمین ہے ۔ یہ سر زمین سیدنا یعقوب علیہ السلام کا مسکن تھا ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو سر زمین فلسطین میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور بشارت الٰہی عطا ہوئی ۔ اللہ رب العزت نے ارض فلسطین کو بلد الامین کہا ہے ، برکت والی سر زمین کہا ہے ۔ جہاں پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر نبوت عطا کی گئی ، طور سینا جہاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی اور جو سیدہ مریم علیھا السلام کی جائے سکونت رہی.
اہلیان اسلام کی دوسری مسجد اللہ کا دوسرا گھر ۔
سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ! کرۂ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونسی تعمیر کی گئی؟آپﷺ نے فرمایا: مسجدالحرام، پھرعرض کیا دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا:مسجدالاقصیٰ ،انہوں نے سوال کیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا:چالیس سال۔ (صحیح بخاری:۳۳۶۶،مسلم:۵۲۰)
اللہ تعالیٰ کافرمان:[اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ۹۶ۚ ](آل عمران:۹۶) یعنی سب سے پہلاگھر جولوگوں کی عبادت کےلئے بنایاگیا وہ بابرکت گھر مکہ میں ہے۔ [وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۰ۭ] (البقرہ:۱۲۷) یعنی ابراھیم اور اسماعیلiنےبیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں ۔ داؤدعلیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ بقیہ تعمیر سلیمان علیہ السلام کریں گے۔(طبرانی بحوالہ فتح الباری، تحت حدیث:۳۳۶۶) . مسجد اقصیٰ کے فضائل میں ایک بات یہ بھی ہے کہ ارض مقدس کی یہ مسجد مسلمانوں کا قبلہ اول تھی ۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ سولہ یاسترہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نمازیں ادافرماتے رہے اس کے بعد بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیاگیا۔(صحیح بخاری:۷۲۵۲،۳۹۹،۴۴۹۲،صحیح مسلم:۵۲۵). اور رسول اللہ ﷺ کی ایک اور حدیث کے مطابق مسجد اقصیٰ کی طرف سفر کرنا بھی باعث ثواب ہے. سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا(زیادہ ثواب اور برکت کی نیت سے خاص) قصد کر کے سفر کرناجائز نہیں ہے، (۱)مسجد الحرام(۲)مسجد الرسول(نبوی)(۳) مسجد الاقصیٰ ۔ (صحیح بخاری:۱۱۸۹،صحیح مسلم:۱۳۹۷). ارض فلسطین ، بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں رسول اللہ ﷺ نے انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس مسجد اقصیٰ میں امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ نے تمام انبیاء کرام علیھم السلام اجمعین کی امامت فرمائی۔(صحیح مسلم:۱۷۲)میں ہے: فحانت الصلاۃ فاممتھم یعنی جب نماز کا وقت ہوا تو میں نےانبیاء کی امامت کی۔ مسند احمد:۲۳۲۴میں ہے : فاذا النبیون اجمعون یصلون معہ یعنی تمام انبیاء نے آپﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ (الاسراء والمعراج للالبانی رحمہ اللہ ،ص:۱۴-۲۷) اور اسی طرح مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے پر گناہوں سے بخشش بھی ملتی ہے۔ سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ :جب سلیمان بن داؤد علیھم السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں:(۱)یا اللہ!میرے فیصلے تیرے فیصـلے کے مطابق (درست)ہوں۔(۲)یا اللہ!مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے(۳)یااللہ! جو آدمی اس مسجد (بیت المقدس)میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جناتھا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان(u)کی پہلی دودعائیں تو قبول فرمالی ہیں(کہ ان کا ذکر توقرآن مجید میں موجود ہے)مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔(سنن ابن ماجہ :۱۴۰۸،سنن نسائی:۶۹۳)
سوال یہ ہے کہ اتنے فضائل ہونے کے باوجود اللہ رب العزت نے اس سر زمین میں یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں کے قتل عام کی چھوٹ کیوں دی ؟
تو اس کا جواب کئی پہلوئوں سے دیا جا سکتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس پر بے شمار فرامین موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرب قیامت مسلمانوں کا زوال ہو گا ، مسلمان مغلوب ہوں گے ، قتل عام ہو جائے گا ، جنگیں لڑی جائیں گی ۔ یہود و نصاریٰ (کفار) بھوکے کتوں یا بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ مسلمان تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا، فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ . ”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں «وہن» ڈال دے گا“ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! «وہن» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَلَاحِمِ/حدیث: 4297]
ایک اہم وجہ یہ ہے بھی ہے کہ ہم نے یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کی. یہود و نصاریٰ کی پیروی کی رسول اللہ ﷺ کی پیروی سے اجتناب کیا ۔ جیسے رسول اللہ ﷺ کے بہت سے فرامین ہیں۔ «لاتسلموا تسليم اليهود والنصاریٰ فإن تسليمهم بالأکف والرء وس والإشارة» "یہود اور نصاریٰ کا طرزِ سلام اختیار نہ کرو۔ وہ ہاتھ، سر اور اشارہ سے سلام کرتے ہیں۔" (البانی، سلسلة الاحادیث الصحیحہ، ج۴ ص ۳۸۹). رسول اللہ ﷺ کا ایک اور فرمان ہے: « نهی عن القزع قال وما القزع؟ قال: أن يحلق من رأس الصبی مکان ويترک مکان» "رسول اللہ نے 'قزع' سے منع کیا، صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! 'قزع' کیا ہے؟آپ نے فرمایا: بچے کے سر کے کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور سر کا کچھ حصہ ایسے ہی چھوڑ دیا جائے۔" الکتب الستة(سنن ابن ماجہ)، ص ۲۶۹۵ (حدیث ۲۶۳۷) «لايزال الدين ظاهرا ماعجل الناس الفطر لأن اليهود والنصاریٰ يؤخرون» "دین اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک مسلمان افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاریٰ اس میں تاخیر کرتے ہیں۔" الکتب الستة (سنن ابی داود) ص ۱۳۹۸ (حدیث ۲۳۵۳)
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ہر اس عمل کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے جو اہل کتاب یعنی نصاریٰ اور یہود اختیار کریں گے ۔ جیسے یہود و نصاریٰ اپنی داڑھی اور سر کے بالوں کو نہیں رنگتے رسول اللہ ﷺ نے انہیں رنگنے کا حکم دیا ، کفار اور یہود و نصاریٰ زرد رنگ کے کپڑے پہنتے تھے رسول اللہ ﷺ نے ایسے رنگ کے کرتوں اور کپڑوں کو جلانے کا حکم دیا ، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود راہبوں کی مشابہت کا لباس پہننے سے بھی منع فرمایا ، یہود کی عبادت کی مخالفت فرمائی ، جیسے رسول اللہ ﷺ نے جوتوں اور موزوں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو ، یہود و نصاریٰ سحری نہیں رکھتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ رکھو تمہارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری ہے ، یہود و نصاریٰ افطاری تاخیر سے کیا کرتے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دین اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک مسلمان افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاریٰ اس میں تاخیر کرتے ہیں۔اسی طرح عاشورہ نو یا دس محرم کا روزہ یہود و نصاریٰ کی عید منانے کی خوشی کی مخالفت اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی فتح کی خوشی کی مناسبت سے رکھنے کا حکم دیا گیا غرض رسول اللہ ﷺ نے ہر اس عمل کی مخالفت کی جو یہود و نصاری کیا کرتے تھے ۔ لیکن آج اہل اسلام مادیت پرستی میں غرق ہیں ۔ وہ نہ صرف یہود و نصاریٰ کی مشابہت کرتے ہیں بلکہ ان کی پراڈکٹ کو فخر سے استعمال کرتے ہیں ان کو کاروباری فوائد بھی پہنچاتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا «من تشبه بقوم فهو منهم» "جو جس قوم سے مشابہت اپنائے گا وہ انہی سے ہوگا "(سنن ابی داد) ص ۱۵۱۸(حدیث نمبر ۴۰۳۱) اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا ایک اور فرمان عالی شان ہے :[arabic] «لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ، شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا فِي جُحْرِ ضَبٍّ لَاتَّبَعْتُمُوهُمْ» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ آلْيَهُودَ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: «فَمَنْ؟» [صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 2669] ”تم اپنے سے پہلے لوگوں کی ضرور پیروی کروگے، بالشت بقدر بالشت اور ہاتھ بقدر ہاتھ (یعنی مکمل) ۔ اگر وہ کسی سانڈے کے بِل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤگے“۔ صحابہ كرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان سے مراد یہود و نصارىٰ ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : "پھر اور کون؟"
آج جو امت مسلمہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ آج جو امت اس وقت تنزلی کا شکست اور مغلوبیت کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا ،. یہود و نصاریٰ کے طریقوں کے جواز تلاش کرتے رہے ، ان کی برانڈز اور کاروبار کو تقویت دیتے رہے ، میڈ ان اسلام یا مسلمان اشیاء کو حقیر جانا ، انہی کا فیشن خود پر مسلط کیا ، انہی جیسا لباس پہنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد و نصرت کے جذبے کو دل سے نکال دیا ، یا بے حسی اختیار کر لی ۔ ایسے حالات میں جب مسلمان ہی من حیث الامہ نا فرمان ہو گئے تو اس میں رب باری تعالیٰ کا کیا قصور ؟ آج کی مسلم امہ کی اکثریت بے حیائی اور ناچ گانے میں مصروف عمل ہے ، سوشل میڈیا کی بے باکی اور بے لگامی نے نوجوان نسل کو بے حیاء اور بے حس بے غیرت بنا دیا ہے تو کس طرح ہمارے حکمران حیاء دار ِ غیرت مند اور احساس کرنے والے ہوتے ۔ حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ، وَالْحَرِيرَ، وَالْخَمْرَ، وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ، فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً، وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. ابوعامر رضی اللہ عنہ یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: اللہ کی قسم! انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔ (صحیح البخاری :حدیث نمبر: 5590)
اسی طرح مسلمان مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے ، اس کی نصرت و مدد کرتا ہے ، اس پر ظلم نہیں کرتا نہ اس پر ظلم ہونے دیتا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسد مت کرو، بولی بڑھانے کے لئے قیمت مت لگاؤ۔ ایک دوسرے سے دشمنی مت کرو، تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے پس نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے اور نہ اس کو حقیر جانے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا (یعنی ظاہر میں عمدہ اعمال کرنے سے آدمی متقی نہیں ہوتا جب تک اس کا سینہ صاف نہ ہو) اور آدمی کو یہ برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت و آبرو۔ (حدیث نمبر: 1775) حدثنا ابو الزبير ، عن جابر ، قال: اقتتل غلامان غلام من المهاجرين، وغلام من الانصار، فنادى المهاجر او المهاجرون: يا للمهاجرين، ونادى الانصاري: يا للانصار، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما هذا دعوى اهل الجاهلية؟ قالوا: لا يا رسول الله، إلا ان غلامين اقتتلا فكسع احدهما الآخر، قال: " فلا باس ولينصر الرجل اخاه ظالما او مظلوما، إن كان ظالما فلينهه فإنه له نصر، وإن كان مظلوما فلينصره ابوزبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا: دو لڑکے آپس میں لڑ پڑے، ایک لڑکا مہاجرین میں سے تھا اور دوسرا لڑکا انصار میں سے۔ مہاجر نے پکار کر آواز دی: اے مہاجرین! اور انصاری نے پکار کر آواز دی: اے انصار! تو (اچانک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے اور فرمایا: "یہ کیا زمانہ جاہلیت کی سی چیخ و پکار ہے؟" انہوں نے عرض کی: نہیں، اللہ کے رسول! بس یہ دو لڑکے آپس میں لڑ پڑے ہیں اور ایک نے دوسرے کی سرین پر ضرب لگائی ہے، آپ نے فرمایا: "کوئی (بڑی) بات نہیں، اور ہر انسان کو اپنے بھائی کی، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، مدد کرنی چاہئے، اگر اس کا بھائی ظالم ہو تو اسے (ظلم سے) روکے، یہی اس کی مدد ہے، اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے۔" ان تمام تر نا فرمانیوں کا وبال ہے اہل اسلام پر جو کفار یا یہود و نصاری ان پر غالب آ گئے ۔ اور اتحاد و اتفاق ہم نے ختم کر لیا ۔ اپنے مسلمان بھائی پر ہونے والے ظلم پر خاموشی اختیار کی اور مظلوم کی مدد نہیں کی ظالم کو ظلم سے روکا بھی نہیں . وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَـهُ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ ۖ وَاصْبِـرُوْا ۚ اِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو (اوراپنے رسول کی مخالفت کرتے ہوئے ) آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیداہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی،صبرسے کام لو یقینا اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔(انفال:46)
اہل غزہ پر ہونے والے مظالم پر اللہ تعالیٰ کی پکڑ ضرور ہو گی ۔ اس وقت جب مسلمان ایک ہوں گے ، رسول اللہ ﷺ کی پیروی کریں گے ، مسلمان دوسرے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھیں گے ، تفرقہ سے پرہیز کریں گے ۔ کفار کو کمزور کرنے کے لئے ان سے تجارت کی نسبت مسلمانوں سے تجارت کو فروغ دیں گے ۔ ایمان داری اپنائیں گے ۔ اپنے کاموں کے ساتھ مخلص ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پوری امت مسلمہ کی آزمائش ہے ۔ کفار جتنی مرضی خوشیاں منا لیں ۔ اللہ ایک دن مسلمانوں کو ہی فتح یا کرے گا نصرت دے گا ۔ مسلمان حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ اپنی رعایا پر سختی نہ کر کے رسول اللہ ﷺ کی بد دعا سے بچیں ۔ جو لوگ اہل اسلام کی نصرت و تائید کرنا چاہتے ہیں ان کی مدد کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللهم من ولي من امر امتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه» ” یا الٰہی! میری امت سے جو شخص کسی کام کا والی و سربراہ بنایا جائے اور وہ لوگوں کو مشقت میں مبتلا کرے تو، تو اس پر سختی فرما۔“ (مسلم)
کفار و ملحدین کو رسول اللہ ﷺ کے ان فرامین کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے ۔۔
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک یہود کو صفحہ ہستی سے مٹا نہیں دیا جائے گا ۔ رسولﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیاجائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گاکہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے حتی کہ اگر کوئی یہودی کسی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا تو وہ بھی بول اٹھے گا کہ اے مسلمان! میرے پیچھے یہودی چھپاہوا ہے آکر اسے قتل کردو۔ (صحیح بخاری:۲۹۲۶،۳۵۹۳،صحیح مسلم:۲۲،۲۹۲۱) . دجال مسجد اقصیٰ میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔۔ مسجد اقصیٰ آباد ہو گی ۔ اور اس دور میں بڑی لڑائیاں ہوں گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت سے قبل مدینہ منورہ(غیرآباد)ویران ہوجائے گا اوربیت المقدس آباد ہوگا تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔(ابوداؤد:۴۲۹۴). رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دجال کا فتنہ اس امت کابہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کوڈرایا۔(بخاری:۳۳۳۷). رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مگردجال چارمقامات پر داخل نہیں ہوسکےگا:(۱)مکۃ المکرمہ (۲)مدینہ منورہ(۳)بیت المقدس ،مسجد الاقصیٰ(۴)طور۔ (مسند احمد:۲۳۶۸۳)
اس لئے آج کے دور کے تمام حالات جو پیدا ہو چکے ہیں بلا شبہ یہ ظلم و بربریت کے دن ہیں ، اس کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن یہ حالات رسول اللہ ﷺ کی حقانیت کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ آپ ﷺ کی پیشین گوئیاں حق اور سچ ثابت بھی ہوئیں اور قیامت تک کے لئے ثابت ہوتی رہیں گی ۔ اللہ رب العزت ظالم کی رسی دراز کرتا ہے لیکن انصاف بھی کرتا ہے ۔ اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا: إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ ، حَتّٰى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتُهُ (بخاری:4686) ’’اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل دیتا ہے مگر جب وہ اس کی گرفت کرتا ہے نکلنے کا راستہ نہیں دیتا۔‘‘ ظالم اقوام کو تباہ و برباد کر دیا گیا . ﴿ وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا ۙ وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ۱۳﴾(یونس:13) ’’اور تم سے پہلے کی قوموں کو، جو اپنے زمانے میں بر سر عروج تھیں، ہم نے بلاک کر دیا، جب انہوں نے ظلم کیا اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور دو ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے ۔‘‘ اور اس سے اگلی آیت میں فرمایا: ﴿ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ﴾ (یونس:14) ’’اب ان کے بعد ہم نے تم کو زمین میں جگہ دی ہے، تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ ﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۴۲ مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌ﴾ (ابراهيم:42۔ 43) اور تو اللہ کو ہرگز اس سے غافل گمان نہ کر جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔
کرنے کے کام یہ ہیں کہ مسلمان ممالک آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں ۔ آپسی لڑائی جھگڑوں سے نجات حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں ۔ اپنے حکومتی اور سرکاری نظام کو رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں ۔ حدود اللہ کے نفاذ کے لئے کوشاں ہو جائیں جس سے کفار لرزتا ہے ۔ اسلامی قوانین کے تحفظ کے لئے سر توڑ کوششیں کریں ۔ آپسی باہمی ، مسلکی ، نظریاتی ، قومی لسانی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں ۔ دعوت و جہاد کو اپنا شعار بنا لیں مسلمان حکمران مسلم مبلغین پر پابندیاں کم کریں ۔ مسلمان حکمران اسلامی تجارت کو فروغ دیں تاکہ یہود و نصاریٰ کی تجارت پر اجارہ داری کم ہو ۔ مسلمان حکمران سودی نظام سے نکلنے کو بھرپور کوشش کریں ۔ ہر مسلمان حکمران اسلامی ملکوں کی سرحدوں کو مسلمان ممالک کے لئے فائدہ مند بنائے ۔ اسلامی اخوتی سرحدی سفارتکاری کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ مسلمان ممالک یہود و نصاریٰ کے خلاف منظم اسلامی افواج کا قیام عمل میں لائیں ۔ مسلمان ممالک اپنی فضائیہ کو یہود و نصاریٰ کے مقابلے کا بنائیں ، مسلمان ممالک اپنے سمندروں کی حفاظت کے لئے بحری بیڑے بنائیں تاکہ فضائوں کے ساتھ ساتھ سمندری دفاع اور تجارت مضبوط ہو ۔ جب تک مسلمان حکمران اپنی ریاستوں کو پوری طرح رسول اللہ ﷺ کی تابعداری ، اتباع وپ پیروی میں نہیں لائیں گے ۔ شکست اور مغلوبیت ان کا مقدر رہے گی ۔ اللہ بہت غفور الرحیم ہے الرحمان ہے ، جبار و قہار ہے ۔ اس نے عزت اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اہل اسلام مومنین کے لئے لکھ دی ہے لیکن پہلے ہم مومن بن تو جائیں۔ كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ضرور بالضرور میں غالب رہوں گا اور میرے رسول، یقینا اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے ۔ ( المجادلہ )
آج بھی ہم یہود و نصاریٰ سے مشابہت ترک کر کے ، رسول اللہ ﷺ کے فرامین کی اتباع کر کے ، یہود و نصاریٰ کی معیشت کو کمزور کر کے ، مسلمانوں سے تجارت کو فروغ دے کر اہل غزہ کی دی گئی قربانیوں کا مان رکھ سکتے ہیں ۔ ان کی آنے والی نسلوں کا سامنا کر سکتے ہیں ندامت و شرمندگی سے بچ سکتے ہیں ۔ اگر ہم نے آج بھی مسلم امہ کے لئے اخلاص اور للہیت پیدا نہ کی تو نہ جانے روز قیامت ہم رسول اللہ ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے اور اللہ کی عدالت میں اپنے کونسے اعمال پیش کر سکیں گے ؟
تبصرہ لکھیے