بات ہو جب انسانیت کی اور موضوع اگر ہو انسانوں کے لیے بلا تفریق رنگ ونسل و تہذیب ہمدردی کا، تو انسانی تاریخ میں ایک ہی شخصیت ایسی ملتی ہے جس نے اس معیار اور اس موضوع کا حق اداکردیا۔رہبر انسانیت ﷺ۔اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے انسانیت نوازی کی اعلی مثالوں سے۔۔
غزوہ بدر میں دشمن کے جو قیدی مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے، انھیں مسجد نبوی میں رکھاگیا اور رسیوں سے باندھا گیا۔ رات کے وقت قیدی کراہنے لگے۔ آپﷺکا حجرہ مبارک مسجد نبوی کے قریب تھا ، قیدیوں کے کراہنے کی آواز آپ برداشت نہ کر پائے، آپﷺبے قرار ہوگئے اور سو نہ پائے حتٰی کہ ان کی رسیوں کے بند ڈھیلے کردیے گئے۔ حیات مطہرہ کے مطالعے سے ایسی بے شمار مثالوں کا پتہ چلتا ہے۔
انسانیت ایک معیار ہے۔ انسانیت انسان کے خوبصورت ہونے کا نام ہے۔ انسانیت انسان کی معراج ہے۔ انسان جب مشکل ترین حالات میں بھی اعلی کردار کی مثال پیش کرتا ہے۔ بلا تفریق رنگ و نسل و ںظریہ و عقیدہ دوسرے انسان کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ۔اس طرزِ عمل کو انسانیت کہتے ہیں۔
آج یہ جو کہا جاتا ہے کہ انسانیت مر چکی ہے، یہ درست نہیں۔ انسانیت زندہ ہے۔ ہاں اس کے جو نام نہاد چیمپئین بنے بیٹھے ہیں اور دنیا بھر میں ان کے طفیلی جو ہیں مدت ہوئی یہ سب ایک آنکھ کہیں کھو چکے ہیں۔ اب ہوا یہ ہے کہ انھیں انسانیت کچھ تو نظر آ جاتی ہے، کچھ نہیں آتی۔ کہیں تو دور سے ہی انسانیت کی مثالیں ان کے احاطۂِ نگاہ میں آجائیں گی۔کہیں سامنے کا منظر بھی دیکھنے سے یہ لوگ قاصر دکھائی دیں گے. یہ ایک سانحہ ہے۔ پتہ ہے یہ سانحہ کب رونما ہواتھا؟؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد ۔جب سفید فام ریچھ نما انسانوں کے ہاتھ میں پوری دنیا کی باگ ڈور آگئی تھی۔ اب آپ متجسس ہیں کہ ان ،دیکھنے اور دکھانے والوں، کی ایک آنکھ کس ظالم نے پھوڑ دی۔ تو جناب ان لوگوں نے خود ہی تعصب کا ایک بڑاسا پتھر لیا اور اپنی ایک آنکھ پھوڑ لی۔لہذا اب یہ کانے ہیں۔
اب آپ سوچ رہے ہیں کہ اس قدر سنجیدہ گفتگو کا مقصد کیا ہے آخر؟ تو جناب معاملہ ہے ہی سنجیدہ، بلکہ یہ ایک انتہائی دکھ بھری کہانی ہے. کہانی یہ ہے کہ کچھ دن پہلے زلزلہ آیا 7۔7 شدت کا۔ کہاں؟ میانمار میں۔ اور ہاں کوئی ڈیڑھ سال پہلے ایک اور جگہ بھی زلزلہ آیا۔۔۔۔کہاں؟ غزہ میں۔۔۔اس کی شدت کتنی تھی؟ اس کی شدت کا اندازہ وہاں پہ پھینکے جانے والے بارود کی مقدار سے لگا لیجیے۔۔۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک مختلف قسم کا زلزلہ تھا جس کے جھٹکے تاحال جاری ہیں۔ اس دوران ہزاروں افراد لقمہ اَجل بنے، ہزاروں بچے خون میں لت پت ہوئے، ہزاروں افراد ملبے تلے دب گئے اور کئی علاقوں میں گہرے گڑھے پڑ گئے. اس دوران ملبے تلے دبے لوگوں کی مدد کرنے والے افراد اور زخمیوں کے علاج معالجے میں مصروف ڈاکٹرز اور طبی عملہ خود کو خوفناک قسم کے حالات کے حوالے کر کے اپنے فرائض میں لگے رہے. کہانی کے اس حصے کو یہیں پہ روکیے. واپس میانمار کے زلزلے کی طرف چلتے ہیں کہ ایک ہسپتال میں دو نرسیں دو عدد نوزائدہ بچوں کو زلزلے کے دوران مکمل طور پہ محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں. ان کی ویڈیو چند دنوں کے اندر ہر خاص و عام تک پہنچ گئی۔ہر کوئی ان نرسوں کو داد و تحسین کے نذرانے پیش کرنے لگا۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کرنا چاہیے تھاایسا، بلاشبہ ان نرسوں کا یہ طرزِ عمل لائقِ تحسین ہے۔ چلیں اب ذرا غزہ کے زلزلے کی طرف چلیں وہاں بھی نوزائدہ(دس بیس نہیں سینکڑوں) بچوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوئے اور ان بچوں کو بچانے والے بھی کئی ہاتھ تھے، نرسیں بھی ڈاکٹرز بھی پیرا میڈیکل عملہ بھی، اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے ان لوگوں نے انسانیت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ ہتھیلی ہی پہ جان رکھ کے صحافت سے جڑے لوگوں نے ان لوگوں کی ویڈیوز بنائیں، لیکن سفید فام سامراج اور مسلم ممالک کی مسند اقتدار پر اور میڈیا پہ حاوی ان کے کانے لے پالکوں کو اچھا نہیں لگتا کہ ایسی ویڈیوز زیادہ وائرل ہوں۔ کیونکہ عالمی غنڈہ کے سپاہی خطرے میں گھرے ان مسیحاوں اور صحافیوں کی بقا کے بھی دشمن ہیں۔ کسی کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا، کسی کو شدید زدو کوب کرکے کار مسیحائی ہی ختم کر دیا گیا حتی کہ ہسپتالوں کو بھی ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا کتنے ہی ڈاکٹرز اور طبی عملے کے افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور شدید قسم کی جسمانی و نفسیاتی اذّیتیں انہیں دی گئی ان کی ویڈیوز بھی دنیا کے ہرحصے تک پہنچیں مگر ان مسیحاؤں ان نرسوں ان صحافیوں کو داد تحسین دیتے ہوئے ہماری آپ کی زبانیں گنگ ہیں۔ان ویڈیوز اوردل دہلا دینے والی خبروں کے نیچے کمنٹ دیتے ہم ڈرتے ہیں ۔ یہی تو چاہتے ہیں ،دکھانے والے ، یہی تو چاہتے ہیں ایک آنکھ والے، خبر اور تصویر اور ایکشن کی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان ،قتل و غارتگری کے سارے سلسلے کے پشتیبان ۔
بس یہیں پہ یہ کہانی ختم ہوتی ہے مگر ایک سوال سارے انسانوں کے لیے چھوڑ جاتی ہے کہ دنیا میں یہ تعصّب اور جبر اور سفّاکیت کا راج کب تک رہے گا؟؟ غزہ میں طبی خدمات انجام دینے والوں کو خود کو انتہائی خطرے میں ڈال کر خون میں لت پت انسانوں کو بچا لینے کی کوشش کرنے والوں کو آخر وہ پذیرائی کیوں نہ ملی؟ یہ سوال قارئین آپ میں سے ہر ایک سے ہے اور یہ سوال بذات خود انسانیت کے ماتھے پہ ایک بدنما داغ ہے ۔ قارئین ! آیئے اس سوال کا جواب تلاش کر لیں قبل اس سے کہ خود انسانیت ہی پہ نزع کا عالم طاری ہو جائے.
ظلم پھر ظلم ہے اس کو مہلت نہ دو
جبر کی رات کا کچھ بھروسہ نہیں
تبصرہ لکھیے