دنیا بدل رہی ہے، فیکٹریاں سرک رہی ہیں، اور ٹیکنالوجی اور بھاری صنعتی کمپنیاں چین سے نکلنے کے موڈ میں ہیں۔ وجہ؟ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے حالیہ 54 فیصد ٹیرف! اب سوال یہ ہے کہ یہ کمپنیاں کہاں جائیں گی؟ بھارت، ویتنام، یا کسی اور ملک میں؟ پاکستان کے لیے یہ نایاب موقع ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دروازے پر یا تو بیل خراب ہے یا بجانے والا تھک کر جا چکا ہے۔
پاکستان کے پاس سستی لیبر، بہترین جغرافیائی محلِ وقوع اور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، مگر پالیسی سازی کا حال ایسا ہے جیسے کوئی بچہ اسکول کا کام آخری رات تک ٹالتا رہے اور صبح بستہ اٹھا کر دوڑ لگائے۔ عالمی کمپنیاں سرمایہ کاری کرنا چاہیں تو ان کا پہلا سامنا ہمارے "سرخ فیتے" سے ہوگا، جو اتنا لمبا ہو چکا ہے کہ شاید کسی دن خلا میں لہراتا نظر آئے۔ فائلیں ایک میز سے دوسری میز تک ایسے پہنچتی ہیں جیسے اسکول کے سالانہ فنکشن کی سلو سائیکلنگ ریس، جہاں جیتنے کے لیے زیادہ دیر ساکت رہنا ضروری ہوتا ہے۔
حکومتی بیانات سرمایہ کاروں کو "سازگار ماحول" کا لالی پاپ دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انہیں ہاتھ پیر باندھ کر بیوروکریسی کے آگے پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر افسر شاہی سگار کے کش لگاتے، گرم کافی کے گھونٹ بھرتے سرمایہ کاری کی بے بسی سے ایسے لطف اندوز ہوتی ہے جیسے کوئی کلاسیکی موسیقی کے پروگرام کا مزہ لے رہا ہو۔
تو کیا پاکستان اس موقع کو پہچانے گا؟ شاید! اگر ہماری پالیسی سازی کا "ویٹس ایپ گروپ" وقت پر جاگ جائے اور عملی اقدامات کیے جائیں۔ ورنہ ہم ایک بار پھر عالمی معیشت کی بس کو جاتے دیکھیں گے اور حسرت بھری آہ ہی ہمارے حصے میں آئے گی۔ کیونکہ موقع ہمیشہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، مگر جو سوئے رہیں، ان کے نصیب میں صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے