اس وقت سوشل میڈیا پر ڈرامہ ”دل والی گلی“ کو لے کر اٹیچڈ باتھ روم کے موضوع پر ایک گھمسان کی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور حسب معمول اس کی حمایت اور مخالفت میں دھڑا دھڑ پوسٹس کی جارہی ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے بلکہ ڈاکٹر لیول کے فیس بکی دانشور اٹیچڈ باتھ کی مخالفت میں ایسے بھونڈے اور بے ڈھنگے جواز و تاویلات پیش کررہے ہیں جن کو پڑھ کر سر دیوار میں مارنے کو دل کرتا ہے۔ حضرات تو چھوڑیے کچھ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر کامن باتھ کے حق میں نعرے لگا رہی ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ بی بی کیا اچھا لگتا ہے گیلے ہاتھ سے ازاربند باندھتے ہوئے یا شلوار درست کرتے ہوئے جیٹھ ،سسر ،دیوروں کے سامنے باتھ روم سے نکلنا۔ مجھے کہنے دیجیے کہ کیا اچھا لگتا ہے تھیلی میں چھپا کر سینٹری پیڈ لے کر باہر نکلنا اور کوئی بچہ پوچھ لے یہ تھیلی میں کیا ہے۔ کیا آپ کو اچھا لگتا ہے کہ ابھی جاکر بیٹھے ہی تھےکہ دروازے پر گولہ باری شروع ہوگئی کہ جلدی نکلو، کوئی مریض ہے جس سے کنٹرول نہیں ہوپارہا، کسی کو پیچش ہوگئی ہے اور دس مسئلے۔ کتنی ہی احتیاط کرلیجیے لیکن ایک گھر میں رہتے ہوئے کیا اچھا لگتا ہے کہ بے دھیانی میں زیر جامے باتھ روم کی کھونٹی پر لٹکے رہ جائیں اور گھر کے دوسرے مرد ان کو دیکھیں۔ صبح سویرے جب سب کی لائن لگی ہوتی ہے تو کیا معطر فضا ہوتی ہےکہ بھابھی نکلی تو دیور گھسا اور دیور نکلا تو باجی گھسی۔ ٹھیک ہے جن کی مجبوری ہے ان کا بنتا ہے مگر اس کے حق میں دلائل دینا کون سا اخلاق شعور یا مزاج دے سکتا ہے۔ اس اکیسویں صدی میں بھی اٹیچڈ باتھ کی مخالفت اور پورے گھر کے لیے کامن باتھ کی حمایت کرنے والے دراصل اس انتہائی دیہی اور گاؤں دیہات کے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کچھ عشروں پہلے تک کامن باتھ تو درکنار گھروں میں سرے سے ٹوائلٹ ہی نہیں ہوتا تھا اور یہ لوگ ہاتھ میں لوٹا تھامے جنگل جھاڑے کے لیے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔ تو بے شک یہ پڑھ لکھ گئے، معزز بھی بن گئے مگر ان کے اندر ابھی تک تہذیب اور پرسنل پرائیویسی اور ھائجین و نفاست کا وہ تصور یا احساس پیدا نہیں ہوسکا ہے جو مہذب اقوام میں گزشتہ دو صدیوں سے رائج ہے۔ یہ لوگ اب بھی ذہنی طور پر وہی دیہاتی ہیں جن کے نزدیک گھر بھر کے لئے کامن ٹوائلٹ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ نہ ہی یہ اس سے متعلق سنجیدہ مسائل پر سوچنے کی زحمت کرتے ہیں۔
گو کہ میرا نفیس مزاج اس موضوع پر قلم اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا مگر یہاں بڑے بڑے پڑھے لکھے حضرات کی کامن باتھ کے حق میں لکھی پوسٹس نے مجبور کیا کہ اس موضوع پر لکھا جائے۔ ویسے تو عجیب سی بات لگتی ہے کہ اکیسویں صدی کے جدید ترین اور مہذب معاشرے میں ہمارے یہاں یہ کامن اور اٹیچ باتھ کی بحث چل رہی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی بھی ہم تہذیب نفاست اور پرائیویسی کے شعور سے ناآشنا ہیں۔ جناب جو بھی کہیے لیکن جدید دور میں استنجا خانے یا بیت الخلا کے سلسلے میں انسان نے جو ترقی کی ہے وہ یقینا انتہائی اعلی اور بہترین ہے۔جو اشرف المخلوقات کہلانے کے شایان شان ہے۔ کہاں وہ کھڈیوں والے بیت الخلا جہاں نہ صرف گھر کا ہر فرد ایک دوسرے کے براز کے رنگ و قوام سے واقف ہوتا تھا بلکہ گھر آئے مہمانوں کا اسٹول ٹیسٹ بھی سب کے سامنے ہوتا تھا۔ اس قدر اندر کی اور انتہائی پرائیویٹ چیز کی ہر ایرے غیرے کے سامنے نمائش کس قدر غیر اخلاقی اور شرمناک بات ہوا کرتی تھی۔
یوسفی صاحب اپنی کتاب زرگزشت میں تقسیم سے قبل کے جے پور کے محلوں کا ذکر کرتے ہیں کہ اس زمانے میں قدمچے والا بیت الخلا کا رواج تھا جہاں کھڈیوں کے درمیان تمام اہل خانہ کے بول و براز کی غلاظت تمام دن ایک ملغوبہ بنی بدبو بلکہ شدید تعفن چھوڑتی رہتی تھی۔ دوپہر میں جمعدار یعنی یہ فضلہ اٹھانے والا آتا تھا جو اس غلاظت کو کڑچھے اور شیفل نما آلات کی مدد سے اٹھا کر اپنے ڈبوں میں بھرتا اور پھر گھر والے اس کو مٹکا دو مٹکے یا بالٹی بھر پانی دیتے جس کی مدد سے یہ بچی کھچی کھڈیوں کے درمیان چپکی غلاظت کو جھاڑو سے دھو کر موری میں بہادیتا۔ اور یوں یہ مورچے اگلے دن کی گولہ باری کے لیے تیار ہوجاتے۔
اٹیچڈ باتھ کے سلسلے میں ہمارے کچھ مذہبی باریک بین حضرات یہ تاویلات پیش کرتے ہیں کہ باتھ یا ٹوائلٹ میں شیاطین ہوتے ہیں، جو روحانی آلودگی اور دیگر بے شمار مسائل کی جڑ ہیں۔ آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ بھوک پیاس اور سانس کے بعد انسان کی سب سے زیادہ اہم اور ضروری حاجت یعنی حوائج سے فراغت کے لیے پرانے انداز کے بیت الخلا کس قدر فطرت و ضرورت کے برعکس تھے۔
کہتے ہیں کہ بیت الخلا گھر کے سب سے دور دراز کونے میں ہوتا تھا کہ اس تک جانے کے لیے کمروں دالان اور صحن سے گزرنا پڑتا تھا۔ سخت سرد راتوں میں اس تک جانے کا تصور ہی انسان کو لرزا دیا کرتا تھا اور بعضے ڈرپوک جن کا جگرا بیت الخلا تک جانے کا نہیں ہوتا تھا وہ بستر پر ہی موت دیا کرتے تھے پھر ان کو تل کے لڈو کھلائے جاتے۔۔ بیماری کی صورت یا پیٹ خرابی کی صورت مریض کے لیے بیت الخلا تک جانا گویا ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا تھا۔
پہلے زمانے میں سنڈاس سسٹم ہوتا تھا جس میں تمام غلاظت سارا دن بیت الخلا میں ہی موجود رہتی تھی اور اگلے دن مہتر اس کو اٹھا کر سنڈاس دھو کر جاتا تھا۔ تو اس صورت میں اس غلاظت کے گرد شیطانی مخلوق وغیرہ کی موجودگی ہوسکتی تھی۔ اور پھر اس کا تعفن اور اس پر بھنکتی مکھیاں الگ ماحول کی آلودگی اور خطرناک جراثیم کے پھیلاؤ کا باعث بنتی تھی۔ آپ اس نظر نہ آنے والے موذی جراثیم کو بھی خبث و خبائث میں شمار کرسکتے ہیں۔ آج کے ٹائل اور فلش سسٹم والے ٹوائلٹ میں غلاظت رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور پھر ٹوائلٹ جانے کی دعا پڑھنے کو عادت بنالینا چاہیے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ویسے تو ہم بڑے مسلمان پاکیزہ اور نفیس بنتے ہیں لیکن ہمارے عقلیں اور ذوق گوبر تھاپتا ہے۔ انگریز نے آج سے تین سو سال پہلے wc ایجاد کرلی تھی۔ اس سے پہلے بھی ان کے یہاں ٹوائلٹ سسٹم ایسا ہوتا تھا کہ کم از کم غلاظت سامنے نہیں پڑی ہوتی تھی۔ بلکہ نیچے چلی جاتی تھی۔ ہمارے بڑے بڑے جید علما تک پاکیزگی اور طہارت کے مسائل بتاگئے لیکن ان کے گھر بھی یہی قدمچوں والا ٹوائلٹ استعمال ہوتا تھا۔ کبھی کسی کو اس طرف خیال نہیں گیا کہ کچھ اس کی صفائی اور پاکیزگی کا طریقہ بھی دریافت کیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ ڈیڑھ سو سال پہلے انگریز نے اپنی تعمیرات میں ٹوائلٹ کے لیے wc استعمال کی۔ آج بھی آپ کو انگریز دور کی پرانی تعمیرات میں انڈین اسٹائل wc ملے گی۔ wc دراصل مخفف ہے water closet کا۔ کیونکہ اس کے ساتھ پیچھے دیوار میں ایک دھاتی واٹر ٹینک لگایا جاتا تھا جس کی زنجیر کھینچنے پر پانی اس کو فلش کرتا تھا۔ ہمارے لوگ اس کو دیکھ کر بھی نہ سیکھ سکے، کیونکہ ہماری باتیں تو بہت ہیں لیکن عملی اور ذہنی سوچ کی سطح زیرو ہے۔
وہ تو جب سے ٹی وی آیا شہروں سے گاؤں اور گاؤں سے شہر آمد و رفت عام ہوئی۔ اور نئی نسل نے wc دیکھی تو رفتہ رفتہ یہاں wc کا رواج پڑ گیا۔ لیکن یہاں بھی wc یعنی واٹر کلوزٹ کے بغیر ہی کام چلانے لگے کیونکہ wc کے لیے آپ کو اوور ھیڈ پانی کے ٹینک سے پائپ کے ذریعے پانی چاہیے جو ہمارے یہاں آج تک اکثریت کے یہاں ندارد ہے۔ اس لیے ایک لوٹا آبدست کے لیے اور دوسرا اپنے کیے پر پانی بہانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر دولوٹے بھی دستیاب نہیں ہوتے۔ حد ہے ہماری گندگی کی؟
ہم کبھی خود نہ سوچتے ہیں نہ کوشش کرتے ہیں۔ دعا دیجیے انگریز کو جو اس نے کموڈ ایجاد کیا۔ انگریز تو یہ کموڈ بھی سو سال سے استعمال کررہے ہیں۔ ہم کو اب بھی اس کے استعمال میں ناک لگتی ہے کہ طہارت نہیں ہوتی۔اگر کموڈ کو اس کے طریقے کے مطابق استعمال کیا جائے صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے تو کیوں نہیں طہارت ہوگی۔
اٹیچڈ باتھ روم زیادہ بہتر زیادہ ھائجینک اور زیادہ بہتر پرائیویسی کے حامل ہیں۔ ورنہ سات آٹھ افراد کی فیملی میں صرف ایک کامن باتھ روم وہی منظر پیش کرتا ہے جو انڈیا کی چالوں والی بلڈنگ میں صبح سویرے وہاں کا کامن باتھ روم پیش کرتا ہے۔ جن دنوں ایسے کامن ٹوائلٹ کا رواج تھا اس دوران خواتین کو اپنے مخصوص ایام کے دوران کس قدر مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہوگا۔ بے چاریاں انتظار میں رہتی ہیں کہ گھر کے مرد ادھر ادھر ہوں تو اپنا کام کریں۔ اور اگر گھر میں کوئی مہمان فیملی آجائے تو مزید سونے پر سہاگہ کہ گھر کی خواتین اور مہمان خواتین کو چاروناچار گھر کے مہمان اور میزبان مردوں کے سامنے باتھ روم میں جانا پڑتا ہے۔ ساری پرایئویسی اور نسوانیت کی ریڑھ لگ جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک قدرتی یا فطری حاجت ہے مگر اس کو موسٹ پرائیویٹ سمجھ سکتے ہیں اور خواتین کے لیے یہ ایک بہت زیادہ شرمندگی جیسا ہوتا ہے۔
اٹیچڈ باتھ روم میں کم از کم ایک پرائیویسی رہتی ہے ۔ پورا گھر نہیں دیکھ رہا ہوتا کہ کون کس مقصد کے لیے باتھ روم گیا ہے۔ اب فرض کیجیے کسی کا پیٹ خراب ہوگیا اور وہ ہر دس منٹ بعد ٹوائلٹ کی طرف بھاگ رہا ہے، ایسے میں کامن ٹوائلٹ کے نتیجے میں جو نتائج برپا ہوسکتے ہیں آپ سوچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی نویلی دلہن یا گھر کی بہو کا باتھ روم میں نہانا پرانے زمانے کی ساسوں کو بڑا اکھرتا تھا۔ حالانکہ کامن سینس کی بات ہے کہ آپ بہو بیاہ کر کس مقصد کے لئے لائی ہیں جو اس کا نہانا آپ کو ناگوار گزر رہا ہے اور جس نے یعنی آپ کے فرزند نے یہ کام کیا ہے اس پر کوئی بازپرس نہیں۔
اٹیچڈ باتھ کوئی اتنی مشکل یا مہنگی چیز نہیں ہے۔ شادی پر جہاں لاکھوں خرچ کرتے ہیں وہاں چند ہزار خرچ کرکے ایک اٹیچڈ باتھ بنوانا کسی طور ناممکن نہیں۔ اگر آپ شادی کا سوچ رہے ہیں اور آپ کے پاس اٹیچ باتھ یا کم از کم الگ باتھ کی سہولت نہیں ہےتو سب سے پہلے یہ کام کروائیے۔چوک پر گندے کپڑے دھونا کوئی تہذیب یا اخلاق کی بات نہیں ہے۔ بہو کو زیور کم چڑھا دیں مگر اس کوایک الگ باتھ کا تحفہ دے کر اس کی زندگی آسان کردیں۔ دوسرا یہ کہ آج کل باتھ روم ٹائلز اور کموڈ و فلش سسٹم کی وجہ سے بالکل صاف ستھرے رکھے جاسکتے ہیں۔ اب اگر کوئی خود ہی گندا اور الکس مارا ہو تو الگ بات ورنہ باتھ روم تو کلینر سے صفائی کے بعد جھک جھک چمکتا ہے اور فلش سسٹم کی وجہ سے اس میں کسی قسم کی غلاظت بھی نہیں رک پاتی۔ ہر کوئی اپنے اپنے باتھ روم کی صفائی ستھرائی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی ایک یا دو کی گندی عادت پورے گھر کو برداشت کرنی پڑ رہی ہو۔
میرا تو یہ ماننا ہے کہ آپ کا کمرہ الگ ہو یا نہ ہو مگر ٹوائلٹ لازمی علیحدہ ہونا چاہیے کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ موجودہ دور کی وہ لگژری اور مہذب سہولت ہے جس کو جتنا سراہا جائے کم ہے کیونکہ It is the most private thing، لہذا التماس ہے کہ مہذب اور نفیس باشعور بن جائیں۔ اپنی اور دوسروں کی موسٹ پرائیویٹ چیز کی پرائیویسی کا احترام کرنا سیکھیں۔ بلاوجہ اٹیچڈ باتھ کی مخالفت کرنا چھوڑیں کیونکہ یہ پینڈو سوچ آپ اورخاص طور پر گھر کی خواتین کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ڈگری لے لی ہے، ڈاکٹر بن گئے ہیں، جدید دور کی ہر آسائش سے مستفید ہورہے ہیں تو ذرا کچھ مہذب اور نفاست مزاج بھی بن جائیے۔ ورنہ کامن باتھ کا اصرار آپ کا تعلق اس قوم سے ثابت کردیتا ہے جہاں آج کل گھر گھر شوچالے بنانے کی مہم جاری ہے۔ اگر آپ کے گھر میں اٹیچڈ باتھ کی سہولت موجود نہیں ہے تو اس کے بارے میں آج ہی سے سوچنا شروع کردیجیے۔ باقی یہ آپ کے گھر کا معاملہ ہے، جیسا چاہیں رکھیں ہمیں کیا!
تبصرہ لکھیے