1972ء میں ہم خیرپور سے کراچی منتقل ہوئے تو اس وقت میری عمر تقریباً سات سال تھی۔ اس سال رمضان اکتوبر میں آیا تھا اور عید نومبر میں منائی گئی تھی۔ خیرپور کے چھوٹے شہر سے نکل کر کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ ہماری پہلی عید تھی۔ یہاں کی رونق بھی وہاں سے زیادہ تھی اور یہاں کے میلے ٹھیلے بھی خیرپور سے زیادہ پرکشش تھے۔ اب ہماری قسمت کہ کچھ سال بعد جب زندگی کے پہلے روزے رکھنے شروع کئے تو رمضان شدید گرمیوں میں آیا۔ وہ اولین روزے رکھتے وقت تو میں یہی سمجھا تھا کہ اب ساری زندگی رمضان اسی طرح گرمیوں میں ہی آئیں گے اور ہمیشہ اسی طرح شدید پیاس کے ساتھ ہی روزے رکھنے ہونگے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، گریگورین اور ہجری کیلنڈر کا فرق سمجھ آتا گیا اور یہ جان کر بھی بڑی خوشی ہوئی کہ ہماری عید کرسمس کی طرح ہر سال صرف سخت سردیوں میں نہیں آئے گی، بلکہ یہ سارے موسموں میں گردش کرتی ہوئی کبھی گرمیوں میں آئے گی اور کبھی سردیوں کو رونق بخشے گی۔
ہمارے ابا حافظِ قرآن بھی تھے اور ٹیلر ماسٹر بھی، اس لئے رمضان کا مہینہ ان کیلئے دوہری مصروفیت لے کر آتا تھا۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی ان کی مصروفیات عروج پر پہنچ جاتی تھیں۔ وہ دن بھر دوکان پر سلائی مشینوں سے الجھے رہتے کیونکہ عید کے کپڑے سلوانے والوں کی بھرمار ہوتی تھی۔ سارا دن کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتے اور رات کو تراویح پڑھاتے۔ سلائی مشین چلانے کے ساتھ ساتھ وہ دن بھر قرآنی آیات بھی بلند آہنگ سے دہراتے رہتے۔ چنانچہ ہماری بچپن کی یادوں میں سلائی مشینوں کی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ ساتھ قرآن کی تلاوت بھی گونجتی ہے۔
رمضان میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اماں اور ہم سارے بہن بھائی بھی ابا کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ جوں جوں عید قریب آتی جاتی، ہم سب کی مصروفیت بڑھتی جاتی۔ ابا گاہکوں کا ناپ لیتے اور کپڑوں کی کٹائی کرتے، اماں اور بڑے بھائی بہن سلائی میں ان کا ہاتھ بٹاتے اور ہم چھوٹے بھائی کاج بٹن وغیرہ میں ان کی مدد کرتے۔ حتیٰ کہ انتیسویں یا تیسویں رمضان کو چاند کا اعلان ہو جاتا اور وہ رات، چاند رات بن جاتی۔ انتیسویں کا چاند ہمارے لئے بڑا سنسنی خیز ہوتا، کیونکہ ہم پانچوں بہن بھائیوں کے اپنے عید کے کپڑے اسی آخری رات کو سلنے ہوتے جو فجر کی اذان سے کچھ ہی پہلے بمشکل تیار ہو پاتے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے عید کا چاند ہمارے لئے کچھ زیادہ ہی اہمیت رکھتا تھا۔
ان دنوں ہمارا گھر قائدآباد کراچی میں ایبٹ کمپنی کے پاس مین نیشنل ہائی وے پر تھا۔ عید کے دن صبح ہی صبح گھر کے سامنے مین روڈ عیدگاہ میں بدل جاتی۔ سڑک پر دور دور تک صفیں بچھا دی جاتیں۔ مقرر وقت پر عید کی نماز ادا کی جاتی اور پھر خطیب صاحب خطبہ ارشاد فرماتے۔ نماز ختم ہوتے ہی لوگ ایک دوسرے سے والہانہ گلے ملنا شروع ہو جاتے۔ ہم نے یہاں لوگوں کو تین تین بار گلے لگ کر عید ملتے دیکھا تو حیران ہوئے کیونکہ خیرپور میں لوگ ایک ہی گلے کی عید ملا کرتے تھے۔
رمضان اور عید کے مختلف موسموں میں آنے والی بات کے ساتھ ایک اور بات بھی تھی جو ہمیں ذرا بعد میں سمجھ میں آئی … اور وہ بات تھی چاند کی۔ اسلامی کیلنڈر اور عیدین کا رویتِ ہلال سے بنیادی تعلق ہے۔ جب تک نیا چاند نظر نہ آئے، نہ نیا مہینہ شروع ہو سکتا ہے اور نہ کوئی عید منائی جا سکتی ہے۔ لیکن ان دنوں تو ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ عید کے چاند میں بھی کوئی اختلاف ہوتا ہے۔ کراچی میں عیدیں مناتے ہوئے چند سال میں ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ عید کے چاند کا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ ہم قائد آباد ہی پر تھے کہ ایک سال عید کا چاند متنازعہ ہو گیا۔ جن لوگوں نے سرکاری اعلان والے چاند کو مانا، وہ صبح ہی صبح عید کی نماز کیلئے حکومتی حامی عیدگاہوں میں پہنچ گئے۔ لیکن ایک دن بعد والے چاند کے حامی ان کو نماز پڑھتا دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹیں پھینکتے رہے اور انہوں نے اگلے دن عید منائی۔ ہم بچوں کیلئے تو یہ معاملہ بڑا حیران کن تھا کہ کچھ لوگ تو بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے روزہ رکھ کر دن گزار رہے ہیں اور کچھ لوگ ان کے سامنے ہی کھاتے پیتے عید مناتے پھر رہے ہیں۔ اس وقت تو ہم یہی سمجھے کہ یہ منظر ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں، لیکن پھر پتہ چلا کہ عید کے چاند کا یہ مسئلہ بڑا پرانا ہے۔
عید اور رمضان کا انحصار چاند نظر آنے پر ہوتا ہے، جبکہ چاند نظر آنے کا انحصار موسم کے صاف اور آسمان کے شفاف ہونے پر رہتا ہے۔ لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ چاند دیکھنے کے وقت ہر جگہ آسمان صاف شفاف ملے۔ چنانچہ اسلامی ممالک میں ہجری کیلنڈر کے مطابق نئے مہینے کی ابتداء جاننے کیلئے ملک کے ہر بڑے شہر میں رویتِ ہلال کا اہتمام کیا جاتا ہے کیونکہ جب تک عاقل و بالغ افراد کی ایک مطلوب تعداد چاند دیکھنے کی گواہی نہ دے، نئے اسلامی مہینے کی شروعات نہیں ہو سکتیں۔
یہ معاملہ صرف ایک ہی دن کیلئے ہوتا ہے کیونکہ اسلامی کیلنڈر کے مطابق مہینہ یا تو 29 دن کا ہوتا ہے یا 30 دن کا۔ اگر انتیسویں شام کو نیا چاند طلوع نہیں ہوا تو مہینہ تیس کا ہوگا اور اس سے اگلے دن خود بخود پہلی تاریخ ہو جائے گی۔ البتہ رمضان اور عید کا معاملہ چونکہ نازک ہے اس لئے اس میں ذرا سی بھی چوک روزے اور عید دونوں کو مشکوک بنا سکتی ہے۔ یعنی اگر چاند صحیح طور پر نظر نہ آیا تو آپ روزہ چھوڑ کر عید نہیں منا سکتے اور نظر آ چکا ہے تو پھر عید چھوڑ کر روزہ جاری رکھنا بھی گناہ ہے۔ اسی لئے ہر سال رمضان کی آمد پر سرکاری سطح پر رویت ہلال کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ملک بھر سے چاند دیکھنے کی گواہیاں جمع ہونے پر ہی رمضان کی ابتداء یا عید کا اعلان کیا جاتا ہے۔
چاند دیکھنے کے حوالے سے ویسے تو پاکستان بننے کے پہلے سال ہی سرکاری سطح پر ایک ادارہ بنا دیا گیا تھا جو ملک بھر سے چاند کی شہادتیں وصول کر کے نئے مہینے کا اعلان کرتا تھا۔ لیکن ملک کے دور دراز علاقوں میں لوگ عام طور پر اس کمیٹی کے اعلان پر انحصار کرنے کی بجائے خود ہی چاند دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے کہ اگلے دن عید منانی ہے یا نہیں۔ خصوصاً صوبہ سرحد و بلوچستان کے بلند علاقوں اور پنجاب و سندھ کے میدانی خطوں میں عام طور سے چاند دیکھنے کی گواہیوں میں اختلافات کا امکان رہتا ہے۔ ایوب کے دور میں 1961ء میں تو یہ غضب بھی ہوا کہ پشاور والوں نے 17 مارچ کو عید منائی، سرکاری سطح پر 18 مارچ کی عید کا اعلان کیا گیا، جبکہ کراچی کے لوگوں نے 19 مارچ کو عید منائی۔ یعنی ایک ہی ملک میں تین الگ الگ عیدیں ہو گئیں۔
2001ء میں جب میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں رمضان اور عید کے حوالے سے ایک عجیب مشاہدہ سامنے آیا۔ اسلام آباد پاکستان کے تمام خطوں سے آئے ہوئے لوگوں کا شہر ہے۔ یہ کراچی، کوئٹہ اور لاہور کے مقابلے میں پشاور سے زیادہ قریب ہے۔ صرف دو ڈھائی گھنٹے کا سفر کر کے ہی اسلام آباد سے پشاور پہنچا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں حصول روزگار کیلئے پشاور سے خصوصاً اور دیگر قریبی شہروں سے عموماً ایک بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد آتی ہے۔ چونکہ رویتِ ہلال میں سب سے زیادہ اختلاف عام طور پر پشاور ہی سے آتا ہے، چنانچہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے اٹک کے مقام پر پنجاب کی حدود میں تو روزہ جاری ہوتا ہے جبکہ دریا پار کرتے ہی نوشہرہ میں دھوم دھام سے عید منائی جا رہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے وہ پختون بھائی جو اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں، وہ اکثر عید سے دو دن پہلے ہی اپنے شہروں کی جانب لپکتے ہیں تاکہ یہ نہ ہو کہ وہ اسلام آباد سے تو صبح سویرے روزہ رکھ کر نکلیں اور پشاور یا مردان پہنچتے ہی عید کی نماز ادا کرنی پڑ جائے۔ اسی طرح کا اہتمام رمضان سے ایک دن پہلے پہنچنے کا بھی کیا جاتا ہے تاکہ پہلا روزہ قضا نہ ہو۔
قیام پاکستان کے بعد سے یہ اختلافات کئی سال تک تواتر سے سامنے آتے رہے، حتیٰ کہ 1974ء میں بھٹو دور میں قومی اسمبلی نے ”مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی“ کا قانون پاس کر دیا اور مولانا احتشام الحق تھانوی کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ کمیٹی بننے کے بعد چاند کا جھگڑا کچھ تھما اور اکا دکا اختلاف کے ساتھ ملک بھر میں عام طور سے ایک ہی دن عید منائی جانے لگی۔
تبصرہ لکھیے