ہوم << آزادی ہی آزادی - نصیراحمد ناصر

آزادی ہی آزادی - نصیراحمد ناصر

نصیر ناصر دنیا و مافیہا سے بےخبر، بےسدھ پڑے 85 سالہ بابا جی نے’’جشن ِ آزادی‘‘ کا ذکر کانوں میں پڑتے ہی اچانک اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی، انھیں کامیاب نہ ہوتا دیکھ کر میں نے سہارا دیا اور بستر کی ٹیک لگا کر بٹھا دیا، باباجی نے پوچھا، بیٹا کیا تذکرہ چل رہا تھا؟ میں نے بتایا کہ ’’اس بارحکومت نے صرف 14 اگست کے بجائے پورا مہینہ ہی آزادی کی تقریبات منانے کی ہدایت کی ہے اور تمام سرکاری ادارے یکم اگست سے 31 اگست تک صرف جشن آزادی منائیں گے اور ان تقریبات میں عوام کو بھی شریک کیا جائے گا‘‘. باباجی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، اور بولے،’’یہ تو بہت اچھی بات ہے کیونکہ آزادی جیسی نعمت ہر کسی کو تو نہیں ملتی، اور پھر جیسی’’آزادی‘‘ہمارے نصیب میں آئی ہے، اس کا تو تصور بھی کوئی دوسرا نہیں کرسکتا،‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا،’’بابا جی آپ کیا بات کررہے ہو، یہاں تو پورا ملک پریشان حال اورتنگ ہے، کون سی آزادی ہمیں ملی ہے؟ جس کی آپ تعریف فرما رہے ہو‘‘۔ باباجی نے حقے کی نلکی اپنی طرف کھینچی، دو تین کش لگائے اور دھوئیں کے مرغولے فضا میں اڑاتے ہوئے گویا ہوئے، ’’بیٹا! محکوم اور غلام اقوام کو طاقتوروں کے تسلط سے نکال کر زندگی، نظریات اور عمل کا اختیار دینے کا نام آزادی ہے، ہماری منزل بھی تو ہندو اور انگریز کے تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا، اور ہم نے 14اگست1947ء کو صرف ہندو اور انگریز سے ہی آزادی حاصل نہیں کی بلکہ اور بہت سی آزادیاں ہمارا مقدر ٹھہریں، البتہ جو لوگ اب بھی نالاں ہیں، ان کی کہانی کچھ اور ہے ‘‘۔
میں نے وضاحت کے لیے اُن کے چہرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، مگر میرے اشتیاق کے باوجود باباجی نے پرسکون انداز میں پہلو بدلا اور پانی طلب کیا، پانی پینے کے بعد کٹورا مجھے تھماتے ہوئے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے فرمایا،
’’ہماری آزادی میں پہلا رنگ مال غنیمت نے بھرا، وقف املاک کی لوٹ سیل سے یہاں کے بااثر سرکاری و سیاسی حضرات نے پوری ’’آزادی‘‘ کے ساتھ فائدہ اٹھایا، اعلانِ آزادی کا پہلا اور حقیقی فائدہ اسی طبقے کے حصے میں آیا، اور پھر آنے والے مہاجرین کے نام پر جعلی کلیم بنانے، ہتھیانے اور ان کلیموں پر حاصل کردہ اراضی پر قبضوں کی آزادی نے تو اس طبقہ اور ان کے ہمرازوں کی زندگیاں ہی بدل دیں، یہ مرحلہ تمام ہوا تو اس دوران قائد کی رحلت نے آزادی کا لطف دوبالا کردیا اور پھر ہر صبح ہر شام حکومتیں اور نظام بدلنے کی آزادی نے نہ صرف ملک و قوم کو پتلی تماشا بنائے رکھا، بلکہ اسی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی نظریاتی اساس کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا، اور ابھی آزادی کی عمر صرف 12سال ہی ہوئی تھی کہ مارشل لا کی بہار نے آزادی کو مزید چار چاند لگادیے، یہ سلسلہ 14سال تک جاری رہا جس میں ہم نے اپنی آزادی کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے ملک کے ایک حصہ سے ہی آزادی حاصل کرلی، اب آزادی اپنی جوانی کے عروج پر پہنچ چکی تھی، اس لیے قوم و ملک کے ہمدردوں نے محکومی سے آزادی کے بعد جمہوری آزادیاں دینے کا بھی عزم کرلیا، اور یہ وہ زمانہ تھا جب نت نئے جمہوری تماشے سجانے، آئین بنانے اور مخالفین کو راہ سے ہٹانے کی آزادیوں نے سماں باندھ دیا‘‘۔
باباجی سانس لینے کو رُکے، اور حقے کے کش لینے کے بعد پھر سے گویا ہوئے، ’’یہی وہ دور تھا جب ہمیں اصل آزادیاں ملنا شروع ہوئیں، مزدوروں کو صنعتی اداروں سے روزی حاصل کرنے کے بجائے انہی وسائل رزق پر قبضے کرنے اور برباد کرنے کی آزادی، طلبہ کو سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کو درسگاہوں کے بجائے اکھاڑوں میں بدلنے کی آزادی، سیاسی ورکرز کو عوام کی خدمت کے بجائے جگا شاہی کی آزادی، حکومتی اداروں میں میرٹ اور اہلیت کے بجائے اقربا پروری اور رشوت وسفارش کی آزادی، سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا دینے، روندنے اور ملیا میٹ کر دینے کی آزادی حاصل کرکے قوم سرشاری کی بلندیوں کو چھونے لگی، اسی دوران ایک بار پھر آزادی کی رونق میں اضافے کے لیے ایک جرنیل نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی، اور اس دور میں منشیات فروشی کے ذریعے ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کی آزادی نے غربت کا خاتمہ کردیا، اسلحہ لانے، بیچنے اور چلانے کی آزادی نے امن وامان کو’’سُرخرُو ‘‘ کردیا،اسی دور میں سابقہ سیاسی دور کے سیاسی ورکرز کو ٹھکانے لگانے کی آزادی نے جمہوریت کے غبارے سے ہوا نکال دی، یہ دور پوری شادمانی کے ساتھ جاری تھا کہ ایک دوسرے کو عذاب زندگی سے چھٹکارا دلانے کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی نے جہاز فضا میں اُڑا کر مُقتدر کو قید و بند زندگی سے چھٹکارا دلادیا، اور ایک بار پھر سے جمہوری آزادیوں کی پھلواری سج گئی. آزادی اظہار رائے کے طفیل مختصر مختصر وقفے سے حکومتیں بننے اور ٹوٹنے لگیں، ملک و قوم کے سرمائے کو چند محفوظ اور مضبوط ہاتھوں میں منتقل کرنے کی آزادی نے سرمایہ سوئٹزر لینڈ، امریکہ، برطانیہ اور دبئی کے بینکوں میں پہنچادیا، مگراسی دوران ایک’’جمہوری‘‘ حکمران کا حق آزادی جرنیل کو اچھا نہ لگا تو اس نے آزادی کے ہتھیار سے حکومت کو چلتا کیا اور پھر ملک وقوم کی آزادیوں کے یقینی تحفظ اور ترقی کےلیے ریاست کو امریکہ کےلیے میدان ِ کارزار میں بدل دیا گیا، جس کے بعد اقوام عالم کی آزادیوں کو برقرار رکھنے کے لیے پوری آزادی سے پاکستانیوں کو خاک و خون میں لوٹانے کا طویل سلسلہ شروع ہوا، اور ہزاروں شہری خاک کی خوراک بنادیے گئے. اخلاقی ومذہبی اقدار کی جکڑ بندیاں خاتمے کو پہنچیں، احتساب کے نام پر سیاسی وابستگیاں تبدیل کراکے ساری سیاسی اشرافیہ کو ایک ہی جماعت کے نام سے جمع کیا گیا اور جنم جنم کے بھوکوں کو ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کی آزادی نے ریاست کے باشندوں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی کے مواقع فراہم کیے. یہی وہ وقت تھا جب قوم کے بعض’’ ناکارہ بیٹوں‘‘ کو قیمتاً بیچنے کی آزادی بھی ملی اور اپنی ہی سرزمین پر امریکی جانبازوں کو بمباری کی آزادی دے کر ہم نے مستقبل کے خطرات سے آزادی حاصل کی، اپنی ہی قوم کی بہو بیٹیوں کو ہم رنگ ِزمیں کرنے کے لیے بھی ہم میدان میں اترے، تاہم یہ سنہرا دور بھی بالآخر انجام کو پہنچا، اورتاریخ نے وہ منظر بھی دکھایا کہ قومی سرمائے کی لوٹ مار کے الزام میں کئی سال جیل کاٹنے والے فرد کو ریاست کااعلیٰ ترین منصب عطا ہوا، اور پھرمال موذی بدست غازی کا ایک ایسا دور چلا کہ خود آزادی بھی پناہ مانگتی نظر آئی.
باباجی کچھ دیرسانس درست کرتے رہے اور پھر بولے’’اگر چہ چہرے اب بدل چکے ہیں، مگر آزادی کا کھیل واقعی اپنے عروج پر ہے اور سرکاری عہدیداروں کو حرام خوری کی، سیاستدانوں کو کمیشن کھانے اور عوام کو بےوقوف بنانے کی، مذہبی رہنماؤں کو قرآن و حدیث کی من مانی تشریحات پیش کرنے اور دین کے نام پر نئی نئی دکان سجانے کی، تاجران کو ملاوٹ کرنے اور منہ مانگے دام وصول کرنے کی، تعلیم کو تجارت بنانے کی اورعلم کی جگہ جہالت بانٹنے کی، صحافت کو خبر نگاری اور عوامی مسائل اجاگر کرنے کے بجائے اہل ثروت کی خوشامد اور کمزور اہلکاروں و شہریوں کو بلیک میل کرنے کی، قانون کی ڈگریاں لے کرقانون کی محافظت کے نام پر جرائم پیشہ عناصر کی معاونت اور انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بے گناہوں کو عذابِ ذلت میں مبتلا رکھنے اور گناہگاروں سے حسن سلوک کی، عوامی مشکلات ومسائل کو کندھے پر اٹھائے حکومتوں کو انقلابات سے ڈراکر ذاتی مفادات حاصل کرنے کی آزادی، یہ ایسی نعمت ہے کہ ان پر ایک ماہ تو کیا پورا سال بھی جشن منایا جائے تو کم ہے.
میں نے بات سمیٹنے کی غرض سے ابتدائی کلمات یاد کرائے اور دریافت کیا’’باباجی یہ سب بجا، لیکن ناراض و مشتعل عوام، اور حکمرانوں سے نالاں اس ریاست کے شہری تو ہر طرف سے غلام ابن غلام ہی نظر آرہے ہیں‘‘. باباجی کڑک کر بولے’’ان کو غلام ہی رہنا چاہیے، کیونکہ ان کی تو پیدائش کا کوئی اور مقصد ہی نظر نہیں آتا اور ویسے بھی ان کی غلامی اونچے ایوانوں کی آزادی کے لیے ضروری ہے، اگر ان کو غلامی سے نکلنے کا شوق ہوتا تو حالات یوں نہ ہوتے، اور ویسے بھی انھیں نسل در نسل غلامی کے بعد اب تو غلامی کا ’چسکا‘پڑ چکا ہے.‘‘

Comments

Click here to post a comment