ہوم << اظہار رائے کی آزادی؛ اسلام اور مغرب کا نقطہ نظر - غلام نبی مدنی

اظہار رائے کی آزادی؛ اسلام اور مغرب کا نقطہ نظر - غلام نبی مدنی

غلام نبی مدنی اظہار رائے کی آزادی کو فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن سے تعبیر کیا جاتاہے، جس کا سادہ سا مطلب بولنے کی آزادی ہے۔ عمل اور لکھنے کی آزادی کو بھی اظہار رائے کی آزادی میں شمار کیا جاتا ہے، یعنی ہر انسان تقریر وتحریر اور عمل کرنے میں آزاد ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر کی شق نمبر 19 کے مطابق ہرشخص کو اپنی رائے رکھنے اور اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے اور جس ذریعے سے چاہے بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کیے علم اور خیالات کی تلاش کرے، انہیں حاصل کرے اور ان کی تبلیغ کرے۔حیرت ہے اس شق میں کہیں اظہار رائے کی آزادی کی کوئی لمٹس بیان نہیں کی گئیں جس کا واضح مطلب اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہتک عزت کا دروازہ کھولنا ہے۔
عام طور پر اسلام پر الزام لگایا جاتاہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے، مگر حقیقت میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے لوگ غلام تھے، مصنوعی خدائوں کے آگے جھکتے تھے، ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، جو کوئی ان کے بارے لب کھولتا، پوری سوسائٹی اس کی دشمن بن جاتی۔ اسلام سے قبل روم و فارس میں لوگ حکمرانوں کے غلام تھے، ان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی اجازت نہ تھی، یونان کا کلیسا مقدس خدائی کا دعویدار تھا، جس سے اختلاف رائے کا مطلب موت تھی۔ اسلام نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزاد کروایا اور صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔ یہی اسلام ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہے۔ اللہ نے ”دین میں کوئی جبر نہیں“، ”اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“، اور پیغمبر اسلام کو سماج چلانے کے لیے ”معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو“ جیسے سنہری اصولوں سے واضح کردیا کہ اسلام اظہار رائے کی آزادی کاحامی ہے۔ لیکن اسلام اعتدال پسند ہے، فساد کے خلاف ہے، چنانچہ اس نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ انسان رائے دینے میں حیوانوں کی طرح شتر بےمہار نہیں، بلکہ اس کی اظہار رائے کی آزادی کچھ حدود کی پابند ہے۔ ان حدود پر تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہروقت (لکھنے کے لیے) تیار۔“ سورہ حجرات میں اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔ اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف یہ بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو دوسری طرف انسان کو رائے دہی میں آزاد کیا اور جبر اور طاقت سے زیادہ ذمہ داری سونپنی کی حوصلہ شکنی کی۔ مشورے اور اظہار رائے کی آزادی کا عملی مظاہرہ ہمیں سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی جابجا ملتا ہے۔ چنانچہ آپ نے غزوہ خندق، غزوہ احداور غزوہ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں نہ صرف صحابہ سے مشورہ کیا بلکہ ان کے مشورے کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اسی طرح قبیلہ غطفان (جو مشرکین مکہ کا حلیف تھا) کے ساتھ مدینہ کی پیداورا کے تیسرے حصے پر جب معاہدہ کرنے لگے تو انصار نے بلاخوف و خطر آزادی رائے کا اظہار کیا اور آپ کو اس ذلت والے معاہدے سے روک دیا۔ نیز حضرت بریرہ اور مغیث کے معاملے میں حضرت بریرہ نے کھل کراپنی رائے کا اظہار کیا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔ حیرت ہے لوگ پھر بھی اسلام کو الزام دیتے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔
دوسری طرف مغرب کے ہاں آزادی اظہار رائے کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ منافقت اور تضاد سے بھرپور ہے۔ ایک تو ان کے ہاں عملا اظہار رائے کی آزادی کی کوئی لمٹس نہیں، چنانچہ چغل خوری، عیب جوئی، تمسخر، مذاق وغیرہ وہاں معمول ہے۔ دوسرا آزادی اظہار رائے کے نام پر جو چیزیں وہ خود پسند نہیں کرتے مسلمانوں سے ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔مثلا ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم، قومی پرندے کی قید، عدلیہ اور دیگر بعض دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتا ہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین و تنقیص جرم ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو پیغمبر اسلام کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ مغرب کی دوغلی پالیسی کا اندازہ ان مثالوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ایک مرتبہ آسٹریلیا میں ایک مراکشی عالم نے تنگ و چست لباس پر بات کی تو پورا آسٹریلیا ان کے خلاف ہوگیا۔ 27 جنوری 2003ء میں ٹیلی گراف اخبار نے اسرائیلی وزیراعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں اسے فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا دکھایا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواؤں نے ہنگامہ کھڑا کردیا جس پر اخبار نے معذرت کی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسی کے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام نہاد علمبردار امریکہ کاحال یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے فون تک ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر امریکہ کے نیچ اخلاق کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں کہ لیبیا میں توہین قرآن و توہین رسالت کا واقعہ ہوا جس میں مشتعل مظاہرین نے امریکی ایمبیسی میں آگ لگادی، چندامریکی مارےگئے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا گیا، جس سے خطاب کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ ”توہین رسالت و توہین قرآن آزادی اظہار رائے کی ایک شکل ہے۔ امریکی آئین اسے تحفظ دیتاہے۔ امریکی اکثریت عیسائی ہے، ہم باوجود عیسائی ہونے کے عیسی کی توہین پر قدغن نہیں لگاسکتے۔“ لیکن منافقت اور گھٹیا پن دیکھیے کہ پیغمبر اسلام و مقدس شعائر کی توہین تو برداشت ہے مگر امریکہ کے قومی پرچم، قومی پرندے کی قید اور عدالتوں کی توہین پر سزائیں اور جرمانے ہیں۔ ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ امریکہ میں ایک ڈینٹل ڈاکٹر کو حجاب پہننے پر نوکری سے برطرف کر دیاگیا، فرانس اور جرمنی میں حجاب پر پابندی تو پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان مثالوں سے بآسانی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اظہار رائے، عمل اور مذہب کی جس آزادی کا ڈھنڈورا اقوام متحدہ، یورپ اور امریکہ پیٹتاہے وہ صرف ایک دھوکہ ہے۔
افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض سیکولر اور لبرل دانشور مغرب کے اس دھوکے میں آ کر اسلام پسندوں کو شدت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہیں، حالانکہ کوئی بھی منصف مزاج مسلمان اس کے خلاف نہیں۔ البتہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کے خلاف ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ انسان کی آزادی دوسرے کی ناک تک ہے۔ جہاں سے دوسرے شخص کی ناک شروع ہو وہاں سے انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ ہےکہ انسان وہاں تک آزاد ہے جہاں سے دوسروں کو تکلیف یا دل آزاری نہ ہو۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں انسانوں کو مطلق آزادی حاصل ہو۔ ریاستی معاملات میں انسان کا ریاستی قوانین کا پابند ہونا اس کی واضح مثال ہے۔

Comments

Click here to post a comment