مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ملک کے دیگر مسائل کی طرح ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ام المسائل یعنی مسائل کی ماں ہے ۔ یہ مسئلہ حل نہ ہو تو نہ معیشت بہتر ہوسکتی ہے ، نہ جہالت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور نہ ملکی دفاع مضبوط ہوسکتاہے ۔ بعض مسائل بانجھ ہوتے ہیں ۔ بذات خود مسئلہ ہوتے ہیں لیکن دیگر مسائل کو پیدا کرنے کا عامل نہیں بنتے لیکن انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مسئلہ مسائل کی ماں ہونے کے ناطے دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے ۔ یہ ذہنوں کو مفلوج کرتا ہے ، معیشت کو تباہ کرتا ہے ، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کرتا ہے ، اقدار کو تباہ اور سماج کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتا ہے ، یقین کی فضا کو ختم کرکے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، محبتوں کا قاتل ہے اور نفرتوں کو جنم دیتا ہے ، یہ قوموں کو تقسیم اور نسلوں کو برباد کرتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکمران اس کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے جتنا کہ وہ انفراسٹرکچر اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ کو دیتے ہیں ۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر سیاست کی جاتی ہے حالانکہ مہذب دنیا میں وہ مسائل جو قومی سلامتی سے متعلق ہوتے ہیں پر پوری قوم یک زبان ہوا کرتی ہے ۔ امریکہ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس یا پھر برطانیہ میں لبرل اور کنزروٹیو ایک دوسرے سے الجھے رہتے ہیں لیکن دہشت گردی اور نیشنل سیکورٹی کے دیگر مسائل پر یک جان اور یک زبان نظر آتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس ام المسائل پر سیاست چمکائی جاتی ہے ۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کا موقف میرٹ پر مبنی نہیں ۔ کوئی جماعت حکومت میں ہو تو اس کا موقف کچھ اور ہوتا ہے اور اپوزیشن میں تو کچھ اور ۔ کسی کا موقف خوف سے جنم لیتا ہے تو کسی کا لالچ سے ۔ کسی کا موقف لسانی بنیادوں پر استوار ہے تو کسی کا مسلکی بنیادوں پر ۔ زبانی طورپرہر لیڈر یہ نعرہ لگاتا ہے کہ قومی یکجہتی کی ضرورت ہے یا یہ کہ پوری قوم یک آواز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس بری طرح اس مسئلے کو سیاست کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، شاید ہی کسی اور ایشو کو کیا جارہا ہو۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر سول ملٹری اذہان ایک صفحے پر نہیں ہیں حالانکہ کسی اور مسئلے پر ہو یا نہ ہو ں، اس ام المسائل پر دونوں کا یک زبان ہونا ضروری ہے ۔ ایک پیج پر ہونے کے دعوے لاکھ کئے جائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دعوے سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ۔ یہ اختلاف صرف ٹیکٹیکل (Tactical) نہیں بلکہ تشخیص میں بھی دونوں کا نقطہ نظر مختلف ہے اور حل میں بھی ۔ جلوتوں میں مجبوراً ایک صفحے پر نظر آئیں بھی لیکن خلوتوں میں دونوں ایک دوسرے کے نقطہ نظر اور اپروچ پر ماتم کناں نظر آتے ہیں ۔ اکثراوقات ایک طبقہ دوسرے کو اور دوسرا ، پہلے کو ذمہ دار قرار دیتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس ام المسائل کے ضمن میں دونوں ادارہ جاتی مفادات سے بالاتر ہوتے لیکن بسا اوقات اس مسئلے کو ادارہ جاتی مفادات کے حصول کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں کامیابی ہو تو اسے اپنے نام کیا جاتا ہے لیکن ناکامی کو دوسرے طبقے یا ادارے کے سر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جو ایشو ادارہ جاتی اور طبقاتی یکجائی کا موجب بننا چاہئے تھا ، تفریق اور تقسیم کا موجب بنا رہتا ہے۔
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اس سب سے بڑے مسئلے کی سمجھ بوجھ کا شدید فقدان ہے ۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور ہمہ پہلو مسئلہ ہے ۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں سب سے زیادہ وقت اس مسئلےکو سمجھنے پر لگایا ، زیادہ محنت بھی اسی پر کی اور زیادہ رسک بھی اس کو سمجھنے اور رپورٹ کرنے میں لیا لیکن آج بھی پوری طرح سمجھ نہیں پایا ۔ آج دلائل کے ساتھ ایک رائے قائم کرلیتا ہوں اور اگلے دن کچھ اور ایسے پہلو سامنے آجاتے ہیں کہ میں اپنی کل کی رائے سے رجوع کرلیتا ہوں۔ یہ معاملہ نظریاتی پہلو بھی رکھتا ہے ، تزویراتی بھی ، سیاسی بھی، معاشی بھی اور سماجی بھی ۔ کہیں ایک پہلو غالب نظر آتا ہے ، کہیں دوسرا اور کہیں تیسرا لیکن رائے بناتے وقت عموماً کبھی ایک پہلو کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے اور کبھی دوسرے پہلو کے آئینے میں ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ صرف اور صرف کفر اور اسلام کی جنگ ہے ، کچھ لوگوں کے نزدیک یہ صرف اور صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جنگ اور کھیل ہے ، کچھ کے نزدیک یہ سیاست ہی کی جنگ ہے ، کچھ اسے معاشی کشمکش ہی قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ کے نزدیک یہ بعض لسانی اکائیوں کی نسل کشی کی منظم سازش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کی الگ الگ تشخیص ہے اور جہاں تک میں سمجھا ہوں نہ وزیراعظم صاحب اس مسئلے کی تمام جہتوں کو سمجھتے ہیں ، نہ آصف زرداری صاحب اور نہ عمران خان صاحب ۔
پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اس ام المسائل کو پورے پاکستان کا نہیں بلکہ خاص علاقوں اور قومیتوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ فاٹا کا محاذ گرم ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے تو اسے صرف اس علاقے کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ پختونخوا یا بلوچستان جل رہے ہوں تو غالب سوچ یہ رہتی ہے کہ وہاں کے لوگ جانے اور ان کا کام جانے۔ کراچی میں آگ و خون کا بازار گرم ہو تو اسے صرف کراچی والوں کا درد سر سمجھا جاتا ہے ۔ کبھی بھی ان علاقوں کے دکھ کو قومی سطح پر پوری قوم کے دکھ کے طور پر محسوس نہیں کیا گیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ ملک کے کسی بھی گوشے میں ہو ، پورے پاکستان کا مسئلہ ہوتا ہے اور آگ کہیں بھی جل رہی ہو، اس کے شعلوں اور تپش سے پاکستان کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں رہے گا۔
چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو ووٹنگ اور ریٹنگ کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے ۔ حکمران اور سیاستدان سوچتے ہیں کہ فاٹا ، پختونخوا یا بلوچستان کی قومی اسمبلی کی سیٹیں ملا کر بھی پنجاب کی سیٹوں جتنی نہیں ہیں ۔ اس لئے وہاں کے نمبرون مسئلے کو ان کی سیاست میں نمبرون اہمیت نہیںملتی ۔ دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ بلوچستان ، پختونخوا ، جنوبی پنجاب اور فاٹا میں دہشت گردی کے بڑے واقعہ کو وہ کوریج نہیں ملتی جو کراچی اور لاہور میں بارش کے ہونے یا نہ ہونے کی خبر کو ملتی ہے ۔ وزیرستان آپریشن کے دس لاکھ متاثرین جو دو سال سے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، کو ٹی وی اسکرینوں پر ڈھائی سال میں اتنے گھنٹے نہیں مل سکے جتنا کہ صرف قندیل بلوچ کو ملے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اس مسئلے کو قومی سطح پر وہ اہمیت نہیں مل رہی جو کہ ملنی چاہئے تھی۔ نیشنل ایکشن پلان اور میڈیا پر قدغنوں کے بعد تو اس ایشو کی کوریج نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔
ساتواں مسئلہ یہ ہے کہ اس ام المسائل سے متعلق عموماً سچ نہیں بولاجاتا ۔ کچھ مفروضے ، کچھ سازشی تھیوریز اور کچھ کہانیاں ، خاص مقاصد کے تحت عام کردی جاتی ہیں اور پھر سوچے سمجھے بغیر ہر کوئی اس کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے ۔ کوئی بھی واقعہ ہو ، اس سے متعلق تحقیق کی جاتی ہے اور نہ تفتیش کا انتظار کیا جاتا ہے بلکہ ہر سیاسی لیڈر اور صحافی کسی کو خوش کرنے کے لئے یا کسی کی ناراضی سے بچنے کے لئے کوئی ڈگڈگی بجالیتا ہے اور پھر تسلسل کے ساتھ اسے پیٹتا رہتا ہے ۔ معاملہ چونکہ حساس ہے اس لئے بعض لوگ انتہائی نیک نیتی کے ساتھ بھی یہ کام کرتے رہتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی سچ بولنا اور لکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے ۔ ایک فریق سے متعلق سچ بولیں تو غدار ی کے فتوے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور دوسرے فریق سے متعلق بولیں تو کافر اور مرتد کا خطاب مل سکتا ہے ۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو جانتے اور سمجھتے ہیں ، وہ لکھ اور بول نہیں سکتے اور جو بولتے اور لکھتے ہیں ، وہ سمجھتے نہیں ۔ ایک علاقے میں رہنے والے جو بول سکتے ہیں ، دوسرے علاقے کے رہنے والوں کے لئے وہ بولنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ اور وقت کے ساتھ ساتھ رہنمائوں ، دانشوروں اور صحافیوں کا موقف بھی بدل جاتا ہے ۔
ام المسائل سے متعلق آٹھواں اور شایدسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جڑوں کو سلامت رکھ کر شاخوں کو کاٹنے کے ذریعے یہ سمجھا جارہا ہے کہ بیخ کنی ہوگئی ۔ جڑیں نظریاتی ہیں، جڑیں تزویراتی ہیں ، جڑیں سفارتی ہیں ، جڑیں سیاسی، معاشی اور سماجی ہیں ۔ کبھی وہاں سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ملٹری آپریشنز یا فوجی عدالتوںسے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی اس درخت کی صرف شاخیں کاٹیں جاسکتی ہیں ۔ جڑیں تو جوں کی توں ہیں ۔ اب شاخیں کاٹنے سے جو عارضی خاموشی ہوجاتی ہے تو اسے مسئلے کا حل سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ جب تک جڑیں باقی ہیں اور تنا سلامت ہے توشاخیں نئی شکل میں نکلتی رہیں گی ۔ کبھی فاٹا نشانے پر ہوگا تو کبھی کراچی ، کبھی کوئٹہ تو کبھی لاہور۔ کبھی ایک نام سے ایک نعرے کے ساتھ دہشت گرد سامنے آئیں گے اور کبھی دوسرے نام سے ۔
سوال یہ ہے کہ ام المسائل سے متعلق ان آٹھ اور ان جیسے دیگر مسائل کے حل کے لئے کیا کیا جائے ۔ زندگی رہی تو اگلے کالموں میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
تبصرہ لکھیے