ہوم << کون صحیح کون غلط، پہچان کیسے ہو؟ رانا عثمان راجپوت

کون صحیح کون غلط، پہچان کیسے ہو؟ رانا عثمان راجپوت

کوئی بھی انسان مکمل طور پر غلط نہیں ہوتا، بلکہ اس کی سوچ، تجربات اور حالات اس کے فیصلوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہم خود ہی غور کریں تو کیا ہمیں یہ گوارا ہوگا کہ کوئی شخص کسی محفل میں ہمارے بارے میں منفی بات کرے یا ہماری عزت کو مجروح کرے؟ یقیناً نہیں۔ ہم سب اپنے وقار اور عزت کے محافظ ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں درست سمجھیں۔ مگر یہی اصول ہم دوسروں پر لاگو نہیں کرتے۔ ہم دوسروں کو غلط ثابت کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں اور ان کے مؤقف کو سمجھے بغیر ہی اپنے ردعمل کا اظہار کر دیتے ہیں۔

ہم کسی کی بات اس نیت سے نہیں سنتے کہ ہم واقعی اس کے خیالات اور احساسات کو سمجھ سکیں، بلکہ ہمارا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم جلد از جلد جواب دے سکیں، بحث جیت سکیں، اور خود کو برتر ثابت کر سکیں۔ اس رویے کی وجہ سے ہم بہت سے قیمتی رشتے کھو بیٹھتے ہیں کیونکہ ہم دوسرے شخص کے حالات، احساسات، اور ضروریات کو سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

ہر انسان کی اپنی زندگی، اپنی مشکلات، اور اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ اگر ہم کسی کی مدد نہیں کر سکتے یا اس کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں، تو ہمیں اسے خودغرض یا مطلبی کہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے دور جا رہا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بے وفا ہے، بلکہ شاید ہم میں ہی کوئی کمی ہے جو وہ کسی اور طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم ہر بار درست نہیں ہو سکتے، اور اگر ہم کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، تو ہمیں اس سے یہ توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ہماری خاطر اپنی بہتری کے مواقع چھوڑ دے۔

ہم خود سوچیں کہ کیا ہم اپنے کسی دوست، بھائی، بہن، یا عزیز کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں! وقت کے ساتھ ہر انسان کی زندگی میں تبدیلیاں آتی ہیں، نئے تعلقات بنتے ہیں، ذمہ داریاں بڑھتی ہیں، اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ شادی، ملازمت، یا کسی اور وجہ سے لوگ اپنی نئی زندگی شروع کرتے ہیں، اور اگر وہ اپنی مشکلات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں، تو ہمیں انہیں غلط نہیں کہنا چاہیے۔

ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ جدائی کا فیصلہ صرف ہمارا حق ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر رشتے میں دونوں طرف سے قربانیاں اور فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر ہم خود کو اس مقام پر رکھ کر سوچیں، تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم بھی کسی نہ کسی موقع پر دوسروں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، اپنی ترجیحات بدلتے ہیں، اور اپنی بہتری کے لیے کچھ فیصلے لیتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں، تو دوسروں کو بھی یہی حق دینا چاہیے۔

زندگی توازن اور افہام و تفہیم کا نام ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے رشتے مضبوط رہیں، تو ہمیں دوسروں کی بات سننے اور ان کے فیصلوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔ اگر ہم صرف اپنے زاویے سے سوچیں گے اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں گے، تو ہم نہ صرف خود کو تکلیف میں مبتلا کریں گے، بلکہ اپنے قریبی لوگوں کو بھی خود سے دور کر لیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل کو وسیع کریں، دوسروں کے فیصلوں کو قبول کریں، اور ان کی خوشیوں میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں، چاہے وہ فیصلے ہمارے حق میں نہ بھی ہوں۔ یہی حقیقی وسعتِ نظر اور حقیقی تعلق کی پہچان ہے۔