یہ زمانہ وہ ہے جہاں تغیرات کی یلغار ہر سمت بے قابو گھوڑوں کی مانند دوڑ رہی ہے۔ وقت کی یہ تازیانے صدیوں کے تغیرات کو لمحوں میں سمیٹ رہے ہیں۔ پرانی قدروں کی شکست و ریخت، نئی جہتوں کی آمد، اور بے ثباتی کی وہ مہک جو ہر چیز کو مٹانے اور پھر نیا جنم دینے میں مصروف ہے ۔۔۔ یہ سب کچھ آنکھ جھپکنے میں ہوتا ہے اور ہم محض تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر جب اس بے رحم تغیر کے ہاتھوں کوئی ایسی شے متاثر ہوتی ہے جو نہ صرف ہمارا وقت کھا چکی ہو بلکہ ہماری نفسیات پر بھی اپنے پنجے گاڑ چکی ہو، تب اس کا اثر کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتا ہے۔ اور جب بات فیس بک کی ہو، تو معاملہ محض ایک ویب سائٹ کا نہیں، بلکہ ایک عہد کے اختتام اور نئے دور کی شروعات کا بن جاتا ہے۔
یہی وہ فیس بک ہے جو کسی دور میں ایک معصومانہ تفریح تھی، دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کا ایک مرکز، تصاویر اور خیالات کا تبادلہ، وہ نیم سنجیدہ تحریریں جن میں محبت کی میٹھی چاشنی، ادھورے خوابوں کی کسک، اور بچکانہ شاعری کا وہ ذائقہ ہوتا تھا جو جذباتی نوعمر دلوں کو بھاتا تھا۔ مگر وہی فیس بک اب بدل چکی ہے۔ وہ دوستوں کے درمیان ایک چنچل سی خوشبو نہیں، بلکہ سنجیدہ صحافت، کاروباری حکمتِ عملی، سیاسی پروپیگنڈہ، اور مصنوعی ذہانت کے شکنجے میں جکڑی ایک دیو قامت حقیقت بن چکی ہے۔
اب وہ زمانے لد چکے جب لوگ اپنی چھٹیوں کی تصویریں شیئر کر کے داد سمیٹا کرتے تھے، جب کسی نامور شاعر کے ایک مصرعے کے نیچے سادہ دل لوگ "واہ" کی گردان کرتے تھے، جب کسی خوش شکل نوجوان کا سیلفی پوسٹ کرنا کسی ادبی جریدے میں غزل چھپنے کے مترادف محسوس ہوتا تھا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ فیس بک ایک میدانِ جنگ بن چکا ہے جہاں الفاظ تیر بن کر چلتے ہیں، نظریات کے بھالے سنبھالے جاتے ہیں، اور افواہوں کے بادل چھا کر ذہنوں کو دھندلا دیتے ہیں۔
پہلے پہل جو تبدیلیاں آئیں وہ محض ظاہری سی تھیں—تھوڑا انٹرفیس بدلا، کہیں کچھ بٹن اِدھر اُدھر ہوئے، اشتہارات کچھ زیادہ نظر آنے لگے، مگر پھر یکایک ایک ایسی لہر آئی جس نے فیس بک کے تصور کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ مصنوعی ذہانت کے دلدادہ معماروں نے سوچا کہ کیوں نہ یہ طے کر دیا جائے کہ کون کیا دیکھے گا؟ یوں ایک ایسا الگورتھم تخلیق ہوا جو انسانوں کی سوچ سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔ اب صارف وہی کچھ دیکھتا ہے جو فیس بک اسے دکھانا چاہتا ہے۔ گویا آزادیٔ رائے کی جگہ غلامیٔ مشاہدہ نے لے لی۔
ایسا لگتا ہے کہ فیس بک اب محض ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں، بلکہ ایک خودمختار قوت بن چکا ہے۔ وہ طے کرتا ہے کہ کس کی پوسٹ زیادہ وائرل ہو، کس کی آواز دب جائے، کس نظریے کو پذیرائی ملے اور کس حقیقت کو نظر انداز کر دیا جائے۔ دوستوں کے بجائے اب اسکرین پر غیر مرئی قوتوں کے فیصلے ہیں، جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے، مگر ان کے اثرات ہماری سوچ پر واضح ہیں۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب فیس بک کے زوال کے نغمے گائے جانے لگے، مگر یہ وہ پرندہ ہے جو گر کر اڑنے میں مہارت رکھتا ہے۔ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو خریدنے کے بعد اس نے اپنے جال مزید پھیلا لیے، حتیٰ کہ نئے آنے والے ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز سے مقابلے کے لیے اس نے اپنی چالیں بھی بدل ڈالیں۔ اب یہ محض ایک سادہ سا پلیٹ فارم نہیں رہا، بلکہ معاشرتی، ثقافتی، اور نفسیاتی میدان میں ایک ناقابلِ تردید قوت بن چکا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ تبدیلیاں مثبت ہیں یا منفی؟ کیا ہمیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جو ہمیں آزادی کے دھوکے میں جکڑ لے؟ کیا ہم واقعی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں یا بس وہی بول رہے ہیں جو ہمیں سکھایا جا رہا ہے؟ کیا ہم اس "نظریاتی قید" سے نکل سکتے ہیں یا پھر یہ قید ہماری نئی حقیقت بن چکی ہے؟
ان سوالوں کا جواب شاید وقت کے دامن میں ہو، مگر ایک بات طے ہے—فیس بک اب وہ معصوم نیلا آئکن نہیں رہا جو کبھی تھا۔ اب یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سمجھے بغیر اس کا استعمال کرنا گویا بنا پتوار کے دریا میں اترنے کے مترادف ہے۔
تبصرہ لکھیے