ہوم << گم شدہ آوازوں کا تعاقب - ثمینہ سید

گم شدہ آوازوں کا تعاقب - ثمینہ سید

کتاب:گم شدہ آوازوں کا تعاقب
افسانہ نگار: زویا حسن
تعارف اور تبصرہ:ثمینہ سید

کہانی ایک دن کا واقعہ نہیں ہوتی اس کی گود میں دکھ سکھ برسوں پرورش پاتے ہیں۔ وقت کی بھٹی میں ہلکی آنچ پر پکتے ہیں تب کہیں جا کر کہانی کا چہرہ کندن ہوتا ہے۔ایسی ہی کندن ہوٸی تمتماتی کہانیاں زویا حسن نے لکھ کر ہمارے حوالے کردی ہیں۔

زویا حسن کے اندر کہانیوں کا بحربیکراں ٹھاٹھیں مارتا ہے وہ اپنا دامن بچا کر مطمٸن زندگی نہیں گزار سکتی۔اسے کہانیوں کے غم مضطرب رکھتے ہیں وہ انہیں لکھ دینے کے بعد بھی اسی احساس میں جیتی ہے۔اس کے پاس بات کہنے کا ایسا سلیقہ ہے کہ وہ الفاظ کے انبار میں سے منفرد اور انوکھے لہجے نکال کر اپنے کرداروں کے لسانی زاویے بناتی ہے۔یہ کہانیاں بولتی ہوٸی آنکھوں کے آگے تصویر ہوتی ہوٸی کہانیاں ہیں زویا کے تخیل سے گزر کر یہ مجرد اور صرف گزر جانے والا ایک بودا سا واقعہ نہیں رہ جاتیں بلکہ یہ اردو ادب کے روشن قرطاس پر رقم رہیں گی۔
”گم شدہ آوازوں کے تعاقب میں“ گہرے پاتالوں سے کھینچ کر نکالی ہوٸی کہانیاں ہیں۔ذرا دیکھیے۔

لکھتی ہیں: ”سوچو حسام اگر ہم بھی ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں شامل ہوٸے اور وہ بھی تو اس پار بھی شاید ہم میں سے کچھ لوگوں کی قسمت میں اچانک غاٸب ہوجانا اور کچھ کی قسمت میں انتظار ہی ہوگا۔اور وہاں تو موت بھی نہیں ہوگی۔“

ایسے چشم کشا موضوعات کو زویا حسن نے جراءت سے کہانی کی اوک میں سمایا ہے۔چہروں پہ لکھے خوف اور انسانوں کے اژدحام میں اژدحے دیکھ سکنے کی صلاحیت رکھنے والی یہ کہانی کار آواز اٹھانا اور گلہ پھاڑ کر چیخنا جانتی ہے حالانکہ دیکھنے میں نرم و نازک سی حساس دل والی عورت ہے۔
زویا حسن ایسی انسان کا نام ہے جو افسانہ تو بہترین لکھتی ہی ہیں لیکن ہمدرد اور دوست بھی کمال ہیں۔کچھ لوگ سامنے نہیں آتے اپنے کام کی تشہیر نہیں کرتے ان کا کام پھر بھی اپنی روشنی سے ان کے لیے نٸے جہانوں کے در وا کردیتا ہے ۔تخیل کی اڑان کو روکا ہی نہیں جاسکتا ہے اور دنیا کی کوٸی طاقت تخیل کی خوشبو کو قید کرنے کی طاقت نہیں رکھتی لہذا زویا حسن کے افسانے بہت خوبصورت سرورق کے ساتھ کتابی صورت میں اپنی خوشبو سے میری دوست کے دامنِ دل کو معطر کررہے ہیں۔ایک سو پانچ صفحات کی اس کتاب میں نہایت اعلیٰ سولہ افسانے ہیں۔ یہ کتاب اکادمی بازیافت سے شاٸع ہوٸی ہے۔

”گم شدہ آوازوں کا تعاقب “ وصول کر کے ان افسانوں میں دنوں مستغرق رہی۔ افسانوں کی گرفت ایسی ہے کہ آپ دنوں ان کے سحر میں رہتے ہیں۔ تلخ ترین موضوعات اور معاشرے میں پھیلی تعفن زدہ روایات کو جیسے زویا حسن نے اپنے وجود پہ جھیلا ہو۔ اس کا ویژن بہت وسیع ہے وہ ملکوں ملکوں گھومتی ہوٸی مشاہدہ کی آنکھ سے یہ سارے روتے کرلاتے رشتے اور سانحے دیکھتی ہے پھر کہانی کی بنت کرنے بیٹھتی ہے۔ گھر کی چاردیواری کے اندر کے بین اور ملکی منظرنامے پر چھاتی پیٹتے بےحال عوام تک کہانی کار کی خوب اچھی رساٸی ہے۔

لکھتی ہیں: ”تمہاری آواز اگلی نسلوں کے کانوں کی تلاش میں نکلی ہے میرے لال،صرف انہی کو سناٸی دے گی۔کیونکہ وہ آواز اس مرکز سے بچھڑ گٸی تھی جہاں وہ سنی جاتی تھی اور توانا تھی مگر اب ایک عمر کے تمام ہونے تک اسے بھٹکنا ہوگا۔آواز جب اپنے مرکز میں ہوتی ہےتو توانا ہوتی ہے اسے ہر کوٸی سن سکتا ہے۔ مرکز سے بچھڑ کر کمزور پڑ جاتی ہے۔“

کہانی کار نے اپنے مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ قاری کو بتادیا اب قاری کی مرضی ہے وہ مرکز سے جڑا رہے یا جدا ہوجاٸے۔اور ذلیل ورسوا ہو کر جیے۔

انسانوں کی بےبسی جو اپنے جیسے ہی انسانوں کی طاقت کی نماٸش کے سامنے ،گھروں میں پلتی سازشوں کے آگے اور معاشرتی ناہمواریوں کے استحصال میں گھٹن زدہ آوازوں کی بےبسی کو زویا حسن نے مہارت سے کہانی کیا ہے۔
ایک خوبصورت اقتباس دیکھیے: ”میں گو کہ بقا کے سوراخ سے نکل کر ست رنگا ہوگیا ہوں اور میرے وجود کے یک رنگی خدا نے کٸی داٸرے جنم دے لیے ہیں جن کا احاطہ کرتے ہوٸے میری سانس پھولنے لگی ہے۔“

زویا حسن مہر بہ لب لوگوں کی آواز بنی ہے۔رشتوں کے کھوکھلے پن سے نقاب اتارنے اور کریہہ رویوں کی نشاندہی بہادری سے کرتی ہے۔
مجھے افسانہ ”سمے کا بندھن “بہت پسند آیا اس کا آغاز ہی کچھ ایسے ہوا کہ جیسے آگے بڑھ کے کسی نے گزرے ہوٸے ،موجود اور آٸندہ کا دروازہ ایک ساتھ وا کردیا ہو۔
لکھتی ہیں: ”سمے کے بندھن کے فریب سے بڑھ کر کوٸی فریب نہیں کیونکہ ہر سمے کا انجام ہوتا ہے اور اس کے انجام سے ایک نٸے سمے کا آغاز ہوتا ہے۔“

ایسے رمزوں بھرے افسانے لکھنے پر میں دوست کومبارک باد پیش کرتی ہوں۔ ادبی افق پر یہ کتاب اور زویا حسن کا نام ہمیشہ دمکتا رہے۔آمین

Comments

Avatar photo

ثمینہ سید

ثمینہ سید کا تعلق بابا فرید الدین گنج شکر کی نگری پاکپتن سے ہے۔ شاعرہ، کہانی کار، صداکار اور افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں پر مشتمل تین کتب ردائے محبت، کہانی سفر میں اور زن زندگی، اور دو شعری مجموعے ہجر کے بہاؤ میں، سامنے مات ہے کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ رات نوں ڈکو کے عنوان سے پنجابی کہانیوں کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ مضامین کی کتاب اور ناول زیر طبع ہیں۔ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ریڈیو کےلیے ڈرامہ لکھتی، اور شاعری و افسانے ریکارڈ کرواتی ہیں

Click here to post a comment