ہوم << یہ ہم ہیں مسلمان عورتیں - افشاں نوید

یہ ہم ہیں مسلمان عورتیں - افشاں نوید

دروازے پر سرسراہٹ محسوس ہوتے ہی میں نے دروازہ کھول دیا۔
پارسل کی ڈلیوری کا یہی وقت متعین تھا۔۔
وہ خوبرو دوشیزہ جس کی عمر پچیس برس کے لگ بھگ تھی، اس نے اچانک دروازے پر پایا تو ہاتھ ہلا کر خوشی کا اظہار کیا۔
"آپ گھر پر ہیں! ایک اچھے دن کے لیے نیک خواہشات"۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا"میں جینی ہوں۔"
گھر کے ایڈریس والی پلیٹ کے نیچے سامان رکھا۔
تصویر لی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے واپس پلٹ گئی۔
یہاں دروازے کی کال بیل بجا کر اندر سے کسی کے برآمد ہونے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔۔۔
یہ تصویر آرڈر کرنے والے کو تصدیق کےطور پر فوری بھیج دی جاتی ہے۔۔
عموما" دن کے اوقات میں گھر خالی ہی ہوتے ہیں۔۔
مالکان عورت ہو یا مرد اپنے کتوں کے ہمراہ جا چکے ہوتے ہیں تلاش معاش میں۔۔۔
اس کی خوش گوار حیرت پر کہ"میں گھر پر ہوں"۔
جی تو چاہا کہ اس کو روک کر کہوں" میں تو ساری زندگی گھر پر ہی رہی۔۔۔''
اسلام میں کفالت مرد کے ذمے ہے۔۔۔
ہمارے باپ نے تنہا دس افراد کے کنبہ کا بوجھ بخوشی برداشت کیا۔۔
ان کے ریٹائرمنٹ کی عمر تک بھائی ماشاءاللہ اس قابل ہو گئے۔۔
گھر پہ اچھے برے حالات بھی ائے لیکن کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ بیٹیوں سے کہا جائے کہ وہ اپنا معاشی کردار ادا کریں۔۔
اس میں کوئی گناہ کی بات بھی نہیں۔۔
یہ ہماری اعلیٰ ترین اقدار ہیں کہ بیٹیوں پر والدین معاش کا بوجھ نہیں ڈالتے۔۔
رشتہ طے کرتے ہوئے لڑکی کاذریعہ معاش نہیں پوچھا جاتا۔۔۔

مجھے یاد ہے ہمارے بچپن کے پرانے محلے میں جن گھروں میں چار اور چھ بیٹیاں ہوتی تھیں اگر وہ سلائی کڑھائی یا ٹیوشن کر کے معاشی بندوبست کرتی بھی تھیں تو ان کا وہ پیسہ "بچت" میں شمار ہوتا تھا۔۔۔
عموما لڑکیاں یا ان کی مائیں جہیز بنانے کے لیے وہ آمدنی استعمال کرتی تھیں۔۔
انتہائی غربت میں بھی کوئی باپ بیٹی کو گھر سے نہیں نکالتا کہ خود کما کر کھاؤ, نہ شوہر بیوی کو طعنے دیتا ہے کہ تم میرا سارا مال ہڑپ کر جاتی ہو۔۔۔
شوہر بے روزگار ہوتا تو وہی روزگار تلاش کرتا۔
بیوی کو یہ آپشن نہیں دیتا تھا کہ تم کما کے لاؤ گھر اور بال بچے میں دیکھ لوں گا۔۔۔
معاش کا تصور مرد کے ساتھ وابستہ ہونا اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ شاید اس مغربی معاشرے کا مرد یہ ذمہ داری قبول بھی نہ کرے۔
مسلمان مرد بہت عظیم ہیں کہ وہ کماتے ہی اپنی ماں, بہنوں, بیوی اور بچوں کے لیے ہیں۔۔

جینی سامان سے بھری ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر اگلی سڑک پر مڑ گئی۔جانے کتنے گھنٹے وہ یونہی گھروں کے دروازوں پر سامان رکھ کر فوٹو اتارے گی۔۔
کتنی خوبرو پیاری سی بچی تھی۔۔۔ شاید طالبہ ہو۔۔
اس کو اپنی فیس کے ساتھ گھر کا کرایہ بھی خود دینا ہوتا ہوگا۔۔ اپنی گروسری بھی خود کرتی ہوگی۔۔
اپنے کپڑے لتّے, دوا دارو, ایک جان کے ساتھ ہزاروں خرچ جڑے ہیں۔۔
یہ جوانی ہے۔۔ ادھیڑ عمر میں بھی اس کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے۔۔
اگر پارٹنر نے ساتھ دیا, اللہ نے اولاد دی تو بیٹا بالغ ہوتے ہی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر الگ ہو جائے گا۔۔۔ یہاں ماں کے لیے کون کماتا ہے۔۔
ماں کو تو مدرز ڈے پر چاکلیٹ اور بوکے بھیچ کر وش کیا جاتا ہے۔۔۔آخر ماں تو ماں ہے۔۔۔

یہ ہم ہیں مسلمان عورتیں۔۔۔۔۔
شوہر تنخواہ بیوی کے ہاتھ میں لا کر دیتے ہیں۔۔
اپنی ضروریات کے لیے بھی اہلیہ سے طلب کرتے ہیں۔۔۔
خود دیار غیر میں تنہائی کے عذاب جھیلتے ہیں اور اہلیہ سے کہتے ہیں "گھر میں کوئی تنگی نہ ہونے دینا۔"
اکثر شوہر دے کر پوچھتے بھی نہیں کہ کہاں خرچ کیا؟
بھائی بہنوں پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔۔
بیٹے یہ توقع نہیں رکھتے کہ ماں نے ساری زندگی عیش کیا باپ ,بھائی اور شوہر کے زیر کفالت رہ کر۔۔ اب اپنا معاشی بندوبست خود کرلے۔۔اب تو فراغت بھی ہے۔۔
کوئی بیٹا ماں سے کبھی نہیں کہے گا" ہمارے پاس تمہارے لیے روٹی نہیں ہے۔"
ایک مسلمان عورت کتنے مضبوط حصار میں ہے۔۔
کس طرح ساری زندگی ان چار رشتوں میں عیش کرتی اور رانی بن کر رہتی ہے ۔۔
اس مغربی معاشرے کی عورت سوچ سکتی ہے کہ ان کے مرد تو ان کی غلامی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔۔
اسلام نے مردوں پر معاش کا بوجھ رکھ کر ہم عورتوں پر بہت احسان کیا ہے۔۔
یہاں اپ کو 75 اور 80 برس کی عمر کی عورتیں بھی محنت مزدوری کرتی نظر آتی ہیں۔۔
اپنے مسلمان ہونے پر دل کیسے شکر سے بھر جاتا ہے۔۔۔