ہوم << سفرنامہ: چین - جیسا میں نے دیکھا (5) - محمد حسیب اللہ راجہ

سفرنامہ: چین - جیسا میں نے دیکھا (5) - محمد حسیب اللہ راجہ

عید الاضحیٰ - ضیافت
میڈیکل کروا کر باہر نکلا تو بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی، شاید چند قطرے خون دینے کا نفسیاتی اثر تھا کہ کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھی، سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی اور لوگ اپنے اپنے کاموں کی طرف جا رہے تھے۔

جیسا سنا کرتے تھے کہ چین میں لوگ سائیکل چلاتے ہیں ویسا کچھ بھی دیکھنے کو نہ ملا، ہاں البتہ عوام کی ایک بڑی تعداد موٹرسائیکل سکوٹی جو کہ بیٹری سے چلتی اور بجلی سے چارج ہوتی ہے وہ استعمال کر رہی تھی، ان کے لیے سڑک کے ساتھ الگ راستہ بنا تھا۔ بہت کم، اکا دکا لوگ سائیکل چلاتے نظر آئے۔ شہر کافی جدید اور عمارتیں بلند و بالا تھیں، ہر طرف لوگ ہی لوگ نظر آ رہے، ان میں مرد و زن کی تخصیص کرنا آسان نہ تھا۔ اکثر لوگوں نے آفس جانے والے کپڑے پہن رکھے تھے یعنی کہ سفید شرٹ اور کالی پینٹ/سکرٹ، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس علاقے میں کمپنیوں کے دفاتر زیادہ ہیں جب کہ مزدور طبقہ یا فیکٹری میں کام کرنے والے لوگ نہایت ہی کم یا اکا دکا ہی نظر آرہے تھے۔

سڑکوں کا عجیب سا جمگھٹا بنا تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی نے سڑکوں کا ایک جال سا بُن دیا ہو، میرے دائیں طرف سڑک، میری بائیں طرف بھی سڑک، میرے سامنے سڑک، میرے پیچھے بھی سڑک، حتیٰ کہ میرے سر کے اوپر سے بھی دو تین سڑکیں جا رہی تھیں۔ ٹریفک کا نظام نہایت بہترین اور نظم و ضبط پر مشتمل تھا، تمام گاڑیاں اپنی اپنی لائن میں اشاروں پر رکتی اور اشاروں پر چل پڑتیں۔ وہ گاڑیاں کہ جن کو پاکستان میں امارت کی نشانی سمجھا جاتا ہے یہاں پر عام تھیں، ہر چند سیکنڈ کے بعد کوئی بی ایم ڈبلیو یا مرسیڈیز گزرتی۔

موسم میں ہلکی سی خنکی یعنی کہ سردیوں کا آغاز تھا اور آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کے لوگ نک سک سلیقے سے تیار تھے، مرد حضرات نے شرٹ کے ساتھ پینٹ یا جینز پہنی تھی اور خواتین نے اکثر شرٹ کے ساتھ سکرٹ پہنی تھی۔ اکا دکا لوگوں نے جیکٹ بھی پہن رکھی تھی، البتہ اکثر مرد حضرات کے پاؤں میں جوگر شوز جبکہ خواتین نے درمیانی ہیل والی بند جوتیاں پہن رکھی تھی، فارمل آفس والے کالے شوز بہت کم لوگوں نے پہن رکھے تھے۔

دن کے تقریبا ساڑھے گیارہ بج رہے تھے اور دکانیں سب کھل چکی تھیں، کہیں کہیں کونے میں چند بزرگ خواتین و حضرات بیٹھ کر گپ شپ کر رہے تھے، دکانیں نہایت صاف ستھری اور چیزیں سلیقے سے لگی ہوئی تھی۔ لوگ آ جا رہے تھے اور گہما گہمی کا ساماں تھا، جگہ جگہ کوڑے دان لگے تھے اور سب لوگ ہر طرح کا کوڑا ان میں ہی ڈال رہے تھے۔ میڈیکل سنٹر آتے ہوئے راستے میں کہیں بھی کوئی پولیس والا نظر نہیں آیا۔ سڑکوں کی حالت کافی بہتر تھی، کہیں کوئی گڑھے وغیرہ یا پانی کھڑا ہوا نظر نہیں آیا۔ چلتے چلتے کافی دور نکل آیا تھا.

میں نے دیکھا کہ ہر چوتھا پانچواں شخص سگریٹ پی رہا تھا، جس میں خواتین بھی شامل تھیں، اس کی وجہ سے جہاں کہیں رش ہوتا وہاں ایک ناگوار سی بو پھیلی تھی اور مجھے تو سگریٹ کی بو ویسے بھی پسند نہیں کیونکہ میرے گھر والوں اور قریبی دوستوں میں سے کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا۔ اچانک ایک دکان کے بورڈ پر نظر پڑی تو اوپر جلی حروف میں اردو/عربی میں حلال لکھا تھا جسے دیکھتے ہی رواں رواں خوشی سے کھل اٹھا۔ قریب جاکر دیکھا تو محسوس ہو رہا تھا کہ دکان ابھی ابھی کُھلی ہے، چیزیں بکھری ہوئی تھیں اور اور اندر کی لائٹیں بھی ابھی مکمل طور پر آن نہ تھیں.

البتہ چند مرد و خواتین کی آپس میں بات چیت کی آواز آ رہی تھی، ریسٹورنٹ میں داخل ہو کر دیکھا تو دیوار پر بڑا بڑا "طعام السلمین" لکھا تھا، میں نے مسکرا کر السلام علیکم کہا جس کے جواب میں چینی لہجے میں وعلیکم السلام سننے کو ملا۔ مرد حضرات نے ڈھیلا ڈھالا شلوار ٹائپ پاجامہ اور اوپر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی، ایک کے سر پر ٹوپی بھی تھی جبکہ خواتین نے ٹی شرٹ کے ساتھ جینز پہن رکھی تھی اور سر پر اسکارف لیا ہوا تھا جو کہ صرف سر کے بالوں کو ڈھانپے ہوا تھا۔ عید کی نماز کے بعد چند طلباء نے بتا دیا تھا کہ کچھ بھی لینا ہو تو اس چیز کی طرف اشارہ کر کے "وا یاو جھ گا" (Wo Yao Zhe Ge) کہتے ہیں، اور قیمت پوچھنے کے لیے " دو شاو چھی این" (Duo Shao Qian) کہتے ہیں.

جسکو میں نے موبائل کے نوٹس میں محفوظ کر لیا تھا۔ میں نے وہی فارمولا استعمال کرتے ہوئے دیوار پر لگی تصویروں میں سے ایک قابل قبول صورت چاول اور آلوؤں کی تصویر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ مجھے یہ چاہیے، جسکے جواب میں جو کچھ کہا گیا وہ میرے اوپر سے گزر گیا، مجھے لگا کہ شاید کہنے میں کچھ غلط کہہ دیا ہے تو دوبارہ اسی تصویر پر ہاتھ رکھ کر دوبارہ کوشش کی تو جواب ملا، No, No. مجھے لگا کہ شاید یہ دستیاب نہیں ہے۔ میں نے ایک دوسری تصویر پر ہاتھ رکھ دیا تو بھی جواب No, No ہی تھا۔ سمجھ نہ آئے کہ مسئلہ کیا ہے۔

اسی اثناء میں کچن سے ایک درمیانی عمر کا مرد برآمد ہوا اور ہم دونوں کے پاس آ کھڑا ہوا، دو چار منٹ سوچنے کے بعد، اس نے موبائل نکالا اور بائےدُو ٹرانسلیٹ کھول کر کچھ لکھا اور موبائل میرے چہرے کے سامنے کیا۔ لکھا تھا، No Work, Today Muslim Holiday. یہ تو سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ میں نے بھی اسکے موبائل پر لکھ دیا، Sorry, I am new here, Just came yesterday.

یہ کہہ کر میں نے باہر کی راہ پکڑی، مگر میری سماعتوں میں ایک بزرگ خاتون کی چیختی ہوئی آواز پہنچی، مڑ کر دیکھا تو ایک کافی بزرگ خاتون، پتلی جسامت، مہربان صورت، چہرے پر مسکراہٹ لیے کچن کے دروازے میں کھڑی مجھے ہاتھ کے اشارے سے بلا رہی تھیں، وہی مرد جو کہ غالباً اس خاتون کا بیٹا تھا نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہا، میں نے انکار کیا کہ اب انکو چھٹی والے دن کیا اپنی ایک پلیٹ چاولوں کے لیے تکلیف دینا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے اور منہ سے No, No کہہ کر جانا چاہا تو ان محترم بزرگ خاتون جو کہ کسی بھی طرح میری نانی دادی سے کم عمر نہ ہونگی نے آگے بڑھ کر میرا بازو پکڑا اور زبردستی بٹھا دیا، میں نے پھر اٹھ کر جانا چاہا تو کہنے لگیں، عید القربان، ضیافت، مہمان۔ اللہ اللہ، یہ مہمان نوازی، محبت و احترام، ایک مسلمان کا دوسرے انجان، پردیسی مسلمان کے لیے۔

پھر چند ہی لمحوں میں میرے سامنے میز پر رنگ برنگی نہ جانے کون کون سی ڈشیں لگا دی گئیں، کم سے کم بھی دس مختلف طرح کے کھانے تھے۔ جن میں مجھے جو سمجھ آیا وہ ایک بن کی طرح، جیسے پاکستان میں کچوریاں ہوتی ہیں، مگر تیل میں تلی ہونے کی بجائے پانی میں ابلی یا بھاپ سے پکی ہوئی تھیں۔ بس اس دن سے میں باو-ز BaoZi کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ نہایت بہترین ذائقہ، اندر آلو اور گاجر کے ساتھ پیاز بھرے تھے، کم از کم کھانے کے قابل تھے اور بھوک کی وجہ سے شاید کچھ زیادہ ہی ذائقہ دار لگ رہے تھے، اس کے علاوہ آلو کے تلے ہوئے قتلے، تلا ہوا مرغی کا گوشت، ڈھیر سارے پھل جن میں ڈریگن فروٹ بھی شامل تھا اور تین چار قسم کی ساگ سے ملتی جلتی سبزی، اور ہاں اچاری ذائقے والی کھیرے کی لمبی لمبی قاشیں۔

میں اِس میں سے اُن کے اصرار کے باوجود زیادہ کچھ نہ کھا سکا۔ موبائل پر ترجمے کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند رسمی تعارفی باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد میں نے اجازت چاہی تو انہوں نے زبردستی قربانی کے گوشت میں سے بکرے کی ایک مکمل ران مجھے تحفہ دی جو میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلی۔ میں نے اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا جس نے پردیس میں بھی عید کروا دی۔ اس خاندان سے میرا آج بھی رابطہ ہے۔ الحمدللہ

Comments

Avatar photo

محمد حسیب اللہ راجہ

محمد حسیب اللہ راجہ پچھلی ایک دہائی سے چین میں مقیم ہیں۔ سائنسی تحقیق کے ساتھ ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ "صنعتی استعمال شدہ پانی کی صفائی" پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ جنوبی افریقہ، ملائشیا، انڈونیشیا اور چین میں رہنے اور کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد مباحثے جیت چکے ہیں۔

Click here to post a comment