یوں تو میں ثمینہ کو کافی سالوں سے جانتی ہوں۔ ایک فنکشن میں میری ملاقات اس سے ہو گئی۔ اس نے مجھے اپنی کتاب دی۔ میں نے گھر آکر ثمینہ کی کتاب کو دیکھا اور پہلی فرصت میں اس کا پہلا افسانہ " ہم کہاں کے سچے تھے" پڑھا تو مجھے کافی اچھا لگا۔
بیٹی کے جانے کے بعد کتاب بہت ڈھونڈی لیکن نہیں مل سکی۔ کچھ دن پہلے نیلم احمد بشیر کی تقریب میں ثمینہ سے ملاقات ہوئی تو اسے بتایا کہ کتاب مکمل پڑھوں گی۔ اور رائے بھی دوں گی ان شاءاللہ۔ بڑی ہی محنت سے میں نے کتاب کو ڈھونڈا۔ اس افراتفری سے بھری دنیا میں گم ہوئی کتاب دوبارہ مل جائے تو اس سے بڑھ کر اور خوشی کیا ہوگی. میں نے پھر پڑھا اور میں اس کی گرفت میں آچکی ہوں۔ میں پڑھتے ہوئے سوچ رہی تھی آج کے دور سے یہ کہانیاں کتنی مطابقت رکھتی ہیں۔ ہر شخص مختلف ہے اسی طرح اسلوب بھی مختلف ہوتا ہے ہر ادیب کا جی چاہتا ہے کہ وہ اچھوتے انداز میں لکھے۔
ثمینہ بھی اس انداز کو منفرد بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ بڑا درد مند دل رکھنے والی لکھاری ہیں۔ پیش لفظ میں سلمیٰ اعوان لکھتی ہیں:
" ثمینہ کا سادہ، خوبصورت اور پرتاثیر انداز فنی پختگی کا حامل ہے۔ وہ افسانے میں ثمینہ کا منفرد مقام متعین کررہاہے۔ اس کے کردار ماورائی یا تخیلاتی نہیں ہیں۔ وہ موضوعات کا انتخاب اپنی اور میری اس دنیا سے کرتی ہے۔ اپنے ماحول اپنے گردوپیش میں بکھرے ہوئے کردار سمیٹتی ہیں۔ ثمینہ اپنے ارد گرد پھیلے دکھوں سے ایک لمحہ بھی غافل نظر نہیں آتیں۔ "
میں نے مطالعہ کے دوران ہی محسوس کر لیا کہ ہر کہانی اپنی نوعیت کی بہترین کہانی ہے۔ یہ جزئیات اس کا گہرا ویژن ہے۔ جو وہ مثبت طریقے سے پیش کرتی ہے۔ یوں تو افسانے بہت ہی اچھے ہیں مگر "مقدمہ " افسانہ پڑھ کر اس کی سوچ کا گہراپن محسوس ہوا۔ عام کہانی کو بھی خاص بنا کر لکھنے کا ہنر جانتی ہیں۔
آج کے دور میں جو ہورہا ہے۔ نوجوان نسل اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ ہاتھ کرجاتی ہے شادی ہوتے ہی والدین کو چھوڑ کر نئی دنیا بسا لیتی ہے۔ مقدمہ افسانے میں والد نے بچوں پر مقدمہ دائر کردیاکہ جو میں نے تینوں پر خرچ کیا ہے مجھے واپس کریں۔ اس افسانے میں عدالت میں بیٹھے بوڑھے والدنے جج صاحب سے کہا۔ میرے تینوں بچے اڑ گئے ہیں، میں اور میری بیوی تنہا رہ گئے ہیں ان کی بیویوں کو یہ ڈر ہے کہ ہم ان سے اپنے بیٹے نہ چھین لیں۔ اور یہ کہ میں چاہتا ہوں میرا بڑا بیٹا یاسر اپنا بیٹا اور دوسرا بیٹا مجھے اپنی بیٹی دے دیں بذریعہ عدالت تاکہ یہ لوگ بچوں کی جدائی کا درد جان سکیں۔ عدالت میں موت جیسی خاموشی چھا گئی۔
بچے باپ کے پاس دوڑے آئے اور گلے لگ گئے۔ باپ نے مقدمہ واپس لے لیا۔ یہ کہانی پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ثمینہ معمولی واقعات کو غیر معمولی بنادیتی ہے۔ جتنی بھی کہانیاں ہیں۔ ان کے کردار جیتے جاگتے ہیں۔ جو کوئی اہم کردار سامنے آتا ہے وہ اسے اپنی کہانی کا موضوع بنا لیتی ہے۔ ثمینہ اپنے دردمند دل ، تحریروں اور اخلاق کی وجہ سے ادب میں اپنا مقام بہت جلد بنا چکی ہے۔ وہ معاشرتی ناہمواریوں سے قاری کو آگاہ کرتی ہے۔ معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کی برداشت سے باہر ہے وہ اپنی گھٹن مٹانے کے لیے اپنی کہانیوں میں ان مسائل کی عمدہ ترجمانی کرتی ہے۔ ان کے اس کی کتاب میں اور بھی بہت سے اچھے افسانے ہیں جو مجھے پسند آئے ان کے نام لکھ دیتی ہوں۔
میں طاہرہ
کہانی سفر میں ہے
جنت دو قدم پر
معافی نہیں مل سکتی
ہاتھ میرے خالی ہیں
ثمینہ کا ایک خاص اسٹائل ہے۔ منفرد انداز، سوچ اور مشاہدہ ہے۔ ان کی تحریر میں بے ساختگی اور قدرتی پن ہے۔ اس نے اپنی کہانیوں میں جن موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی ہے وہ قابل داد ہے۔ طرز تحریر دل چسپ ہے۔ ان کی کتاب قاری سے اپنا آپ پڑھاتی ہے اسے گرفت میں رکھتی ہے۔ وہ ادھر ادھر نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے تو پھر کہنا پڑتا ہےکہ کہانی تو سفر میں ہےاور یہ زندگی بھی سفر میں ہے۔ ابھی زندگی کے اس سفر میں ثمینہ نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھنی ہیں۔
ثمینہ نے کہانیوں کا جو یہ چھوٹا سا پودا لگایا تھا اب وہ تناور درخت بن چکا ہے۔ اور چھاؤں بھی دینے لگا ہے۔ بہت سے لوگ اس کی کہانیوں کو پڑھ کر مستفید ہوتے ہیں۔ میری دعا ہے۔ کہ اپنی تحریر کے ذریعے وہ خوب پھلے پھولے۔ آمین
تبصرہ لکھیے