اولاد کو میراث میں جاگیریں، جائیدادیں، گھر، کاروبار اور زر دینا پوری دنیا میں عام ہے مگر وطن عزیز میں ان سب چیزوں کے ساتھ ایک اور چیز جو اولاد کو وراثت میں منتقل ہوتی ہے وہ باپ کا سیاسی اور مذہبی منصب ہے اور اس کے لیے کسی قابلیت یا اہلیت کا ہونا نہیں بلکہ "مرحوم " کا "فرزند ارجمند " ہونا ہی کافی ہے۔
آپ دیکھ لیں ہمارے اس " دبستان" میں جتنے بڑے سیاسی نام ہیں، سب کو منصب سیاست وراثت میں ہی حاصل ہوا ہے. کسی کی بیٹی کو یہ وراثت ملی تو کسی کے بیٹے کو۔ بیٹی کو پورا حصہ دینے کی مخالفت کرنے والوں کی بیٹیوں کو یہاں پورا پورا "حصہ" عنایت ہوا ، اور اگر کسی کو کچھ نہیں ملا تو ایک مخلص کارکن کو نہیں ملا جس نے ساری زندگی ذہنی، نظریاتی اور جسمانی اعتبار سے جماعت کے لیے وقف کر دی.
سیاسی کارکن جب جوان تھا ، رگوں میں گرم گرم خون دوڑتا تھا، پارٹی کے نظریے کا علی الاعلان ببانگ دہل پرچار کیا کرتا تھا. پارٹی کی خاطر اپنے رشتہ داروں سے بھی الجھ جایا کرتا تھا ،حتی کہ گھر کے ضروری کام نظر انداز کر کے جماعت کے کام کو ترجیح دیا کرتا تھا. پارٹی کی خاطر مشکلات کاٹنے کو بھی ہمہ وقت تیار رہا کرتا تھا. یہاں تک کہ پارٹی کے ساتھ وابستگی کے "جرم" میں جیل بھی جانا پڑا تو گیا، بلکہ شوق سے گیا اور اس کو اپنا "اعزاز " سمجھتا رہا ، غرض یہ کہ جسمانی اور نظریاتی اعتبار سے جو کچھ پارٹی کے لیے کیا جا سکتا تھا وہ اس نے کیا. مگر آج جب یہ بڑھاپے میں پہنچ چکا ہے اور اس کی پوری زندگی میں اس کا سب سے بڑا تعارف پارٹی کے ساتھ وابستگی ہے، جس وقت اس کا پارٹی سے وابستگی کا دورانیہ بھی کسی رہنما کی اولاد کی عمر سے زیادہ ہے، اس وقت تک بھی اس مخلص انسان کے عہدے میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ۔ہاں بس اتنی ترقی ضرور ہوئی کہ پہلے یہ پارٹی کا "کارکن" تھا ، اور اب "دیرینہ کارکن" ہے۔
مگر دوسری جانب لیڈر کا بیٹا ،جونہی سن بلوغت کو پہنچنے پر اس کے جسم میں جوانی آئی وہیں اس کے لیے ایک بڑے عہدے کا انتظام کر دیا گیا۔ شاید یہ پیدا ہی عہدہ سنبھالنے کے لئے ہوا تھا۔ یہی نظام مذہبی جماعتوں کا بھی ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں شدید چپقلش پائی جاتی ہے مگر اس معاملے میں اس حمام میں سب "یکساں " ہیں۔ بعض اوقات تو والد کی وفات کے ساتھ ہی بغیر کسی مشورے، بغیر کسی طریق کار کے اولاد کو جماعت کا مرکزی عہدےدار بنا دیا جاتا ہے۔ اس "نو مولود" عہدے دار کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے ک اسے والد کی وفات کا دکھ زیادہ ہوا ہو گا یا عہدہ ملنے کی خوشی۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ "میراثی " عہدے دار اپنے آپ کو اس طرح تجربہ کار سمجھتا ہے کہ گویا اس نے پیدائش سے لے کر لمحہ موجود تک اسی "میدان" میں گھوڑے دوڑائے ہوں۔ اور جماعت کے "دیرینہ کارکنوں" سے کوئی مشاورت کرنا تو دور کی بات ان سے بات کرنا، ملنا جلنا بھی پسند نہیں کرتا اور ضرورت پڑنے پہ ان کی تضحیک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
آپ پاکستان کی تمام جمہوریت کی دعوےدار پارٹیوں کو دیکھ لیجیے ، سب میں اسی طرح کے طور طریقے نظر آئیں گے یہ سب لوگ عوام کی خدمت کرنے اور اس خدمت کو "ثواب" سمجھنے کے دعوےدار ہیں اور جمہوریت کے بھی نام لیوا ہیں مگر مجال ہے جو یہ کبھی اس "ثواب " کو خاندان سے باہر جانے دیں ۔ چاہے کوئی سیاسی پارٹی ہو یاکوئی مذہبی پارٹی ہو، دائیں بازو کی پارٹی ہو یا بائیں بازو کی ہو ، سب کا یہی عالم ہے۔ ایک جماعت اسلامی کو اس سے استثنی حاصل ہے، جس کا نظام جمہوری ہے، اور جہاں موروثیت کا کوئی گزر نہیں.
تبصرہ لکھیے