ہوم << بےروزگاری سے میں نے کیا سیکھا؟ انصار مہدی

بےروزگاری سے میں نے کیا سیکھا؟ انصار مہدی

بےروزگار ہوئے لگ بھگ مجھے ڈیڑھ سال ہوگیا ہے۔ بیٹی کی آمد سے ایک ماہ قبل بے روزگاری کا شکار ہوا۔ اس کے بعد ایسے لگتا جیسے کوئی شخص مجھے فالو کر رہا ہے جب بھی سیدھا کام ہونے لگتا ہے وہ اس کو خراب کروا دیتا ہے۔ اس دوران معاشی دباؤ کا شکار رہا ہوں۔ مگر کافی قوت لگا کے اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور بحران کا سامنا کیا۔

وقت تیزی سے گزرتا ہے . آغاز میں لگتا تھا جلد کوئی کام کر لوں گا مگر بدلتے حالات اور گرتی جسمانی صحت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ کام ملنا بند ہوتا گیا اور تقریباً گیارہ ماہ بعد زندگی ایک نئے فیز میں داخل ہو گئی۔ گزشتہ رمضان المبارک کے دوسرے عشرہ میں بازو فریکچر ہوگیا۔ دو ماہ ہڈی جوڑ سے بندھوا کے بہتری کا انتظار کیا مگر کچھ نہ ہوا تو سرجری کروا لی۔ چھ سوراخ کی ایک دھاتی پلیٹ سے ہڈی کو جوڑا گیا۔ بازو کی مکمل حرکت بحال ہونے میں وقت لگ گیا۔ اس دوران چائےکی کینٹین بھی نہ چلا سکا۔ جس کاروبار کا آغاز کیا تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر سے ہوم ٹیوشن پڑھانا شروع کی۔ اب ہوم ٹیوشن پڑھا کر کچھ نہ کچھ کما لیتا ہوں۔ گھر پر بھی بچوں کو ٹیوشن دیتے ہیں۔

اس بیروزگاری کے دوران رشتے داروں اور دوستوں کی منافقت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ عزیز و اقارب کال کرکے جب پوچھتے کہ کوئی کام ملا۔ میں کہتا نہیں۔ کوئی کہتا کہ کوئی سپورٹ چاہیے؟ میں سوچتا شاید یہ لوگ انتظار میں ہیں کہ کب میں ان کے سامنے دست دراز کروں گا. جب ان کو پتہ ہے کہ کام نہیں مل رہا تو کام دیتے یا سپورٹ کر دیتے۔ مجھے سپورٹ مانگتے بھی شرم نہ آتی مگر کوئی سچ میں مخلص تو پاتا۔ البتہ کچھ دوست سایہ افگن کی طرح ساتھ رہے۔

حالات آج بھی جوں کے توں ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میں اب پھر سے پر امید ہوں کہ اپنا نام اور مقام پیدا کر جاؤں گا۔ ایک بیٹا تین سال کا ہے اور بیٹی ڈیڑھ سال کی ہے۔ سارا دن مصروف رکھتے ہیں، رات کو بھی تقریباً مصروف ہی رکھتے ہیں۔ میں شادی سے پہلے شدید ڈپریشن میں مبتلا تھا اولاد کی وجہ سے ڈپریشن اب ختم ہو چکی ہے۔ پھر سے خوش رہنے لگا ہوں اپنا خیال بھی رکھتا ہوں کچھ نہ کچھ۔ اس دوران عقلی ارتقاء اتنا ہوا ہے کہ دوست دشمن کی شناخت ہو گئی ہے۔ اور ذرا ذرا منافقت بھرے لوگ سمجھ آنے لگے ہیں۔