ہوم << لاہور کو "کتاب میلہ" کا تہوار دینے والے، اِرشاد بھائی - فہیم بلال

لاہور کو "کتاب میلہ" کا تہوار دینے والے، اِرشاد بھائی - فہیم بلال

فہیم بھائی! آپ لوگ لاہور میں بُک فیئر نہیں کرواتے؟ ارشاد بھائی مجھ سے مخاطب تھے۔ کندھ کوٹ ضلع جیکب آباد سے آئے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریٹو سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں ایم پی اےکے طالب علم ارشاد احمد ارائیں سے ابتدائی تعارف 1987 کے برس جامعہ کراچی میں اِسلامی جمعیت ِطلبہ کےایک پروگرام کے دوران ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے دادا بھارتی پنجاب سے ہجرت کر کےپاکستانی پنجاب میں آ بسے تھے۔ کچھ عرصے بعد یہ خاندان پنجاب سے سندھ جا کر آباد ہو گیا۔ اسی باعث وہ لوگ پنجاب میں بسنے والے ارائیں بھائیوں کے چوہدری، میاں یا دیگر لاحقوں سابقوں کی جگہ اپنے نام کے ساتھ سندھی رسم و رواج کے مطابق اپنی برادری کا مکمل نام " ارائیں" لگاتے ہیں جو اس وقت ہمارے لئے ایک نئی چیز تھی۔ ارشاد بھائی داؤد انجینئرنگ کالج میں انڈسٹریل انجینئرنگ کر رہے تھے۔ نرم لیکن کھنک دار لہجے میں بات کرنے والے ارشاد بھائی سے کراچی میں قیام کے دوران دوستی کا تعلق قائم ہوا۔ اس دوران ارشاد بھائی نے اپنے ہاسٹل میں میزبانی بھی کی اور اپنے زیر انتظام داؤد انجینئرنگ کالج جمعیت کے سٹڈی ایڈ پراجیکٹ کا تعارف بھی کروایا۔

ارشاد بھائی

لاہور آنے کے بعد بھی میں ارشاد بھائی سے رابطے میں رہا اور شاید وہ ایک بار کسی سٹڈی ٹور کے ساتھ یونیورسٹی بھی آئے۔ بہرحال قصہ مختصر اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی میں سندھ کی سیٹ پر ایم بی اے میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور کچھ عرصے بعد اپنے ڈیپارٹمنٹ کے ناظم بھی مقرر کر دیے گئے۔ بظاہر چپ چاپ اور اپنے آپ میں مگن دکھائی دیتے ہمارے یہ بھائی ہر وقت کچھ نیا کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہوتے۔ ارشاد بھائی نے پنجاب یونیورسٹی میں کئی ایسے کام کیے جو "پہلی بار" کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ ان میں سے ایک پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے زیرِ انتظام 1989 کے پہلے بُک فیئر کا انعقاد ہے۔

ایک دن مجھ سے پوچھنے لگے کہ جمعیت لاہور میں بُک فیئر نہیں کرواتی ؟ ہم تو داؤد انجینئرنگ کالج میں جمعیت کے زیر انتظام ہر سال بُک فیئر کرتے ہیں جس میں طلبہ کے علاوہ عام لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ بُک سیلرز اور ناشرین بڑی تعداد میں سٹالز بُک کرواتے ہیں جن سے ہمیں اتنی بچت بھی ہو جاتی ہے جو پورے سال کے لئے سٹڈی ایڈ پراجیکٹ کے تحت رعایتی نرخوں پر نوٹس اور سٹیشنری فراہم کرنے میں ہمارے زائد اخراجات کو پورا کر دیتی ہے۔ ارشاد بھائی کا خیال تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں تین روزہ بُک فیئر کروایا جائے جس میں لاہور کے باقی تعلیمی اداروں کے طلبہ اور عام شہریوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔

میں نے جواب دیا " نہ تو جمعیت نے کبھی "بُک فیئر" کروایا ہے اور نہ ہی لاہور میں ایسا کوئی کلچر ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایک بُک فیئر الحمراء آرٹ گیلری میں ہر سال ہو رہا ہے اور میں وہاں جاتا بھی رہا ہوں۔ لیکن گنتی کے چند بُک اسٹالز اور منتظمین سے بھی کم تعداد میں خریدار یا وزیٹرز اس بات کا ثبوت ہیں کہ لاہور شہر میں بُک فیئر کا کلچر فروغ پانے میں ابھی ایک عرصہ لگے گا۔ لیکن ارشاد بھائی کا خیال تھا کہ بُک فیئر جیسی مثبت سرگرمی کو لاہور میں فروغ دینے کے لئے پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا پلیٹ فارم اور "مین کوریڈور" ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کچھ اگر مگر کے بعد میں بھی ان کے اس آئیڈیا کا قائل ہو گیا۔ ارشاد بھائی نے یونین کے سیکرٹری شمس الزماں بھائی جو ان کے کلاس فیلو بھی تھے سے اپنا آئیڈیا شیئر کیا کہ یونین کے تحت بُک فیئر کروایا جائے۔ شمس صاحب نے حامی بھر لی لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب ارشاد بھائی نے پتہ کروایا تو معاملات ابھی تک پہلے دن والی پوزیشن پر ہی رکے ہوئے تھے۔ ارشاد بھائی کے غصے اور مایوسی کو بھانپتے ہوئے میں نے انہیں پنجابی کی زبان زد عام کہاوت "جیہڑا بولے ،اوہو کنڈا کھولے" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا برین چائلڈ ہے اور آپ کو ہی اسے عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ بس پھر کیا تھا موصوف اس کام میں جت گئے۔

یونین سے "اتھارٹی لیٹر" بنوا کر وہ لاہور شہر کی سڑکیں ناپنے نکل پڑے۔ ارشاد بھائی لاہور کے راستوں سے بالکل نا آشنا اور موٹر بائیک چلانے میں صفر اہلیت کے حامل ہوتے ہوئے کبھی اپنے کسی کلاس فیلو کی بائیک کے پیچھے اور کبھی ویگنوں کے سہارے اردو بازار اور دیگر ناشر حضرات سے رابطوں میں لگ گئے۔ گو کہ میری تنظیمی ذمہ داری لاہور شہر جمعیت کے ساتھ تھی تاہم ارشاد بھائی کے ساتھ مجھے بھی ایک دو اہم حضرات سے ملاقات کے لئے جانا پڑا۔ ان میں سے ایک مشہور نام کلاسیک بُکس والے آغا امیر حسین (اب مرحوم) تھے۔ آغا صاحب نے پہلے تو بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ ہم انہیں پنجاب یونیورسٹی کے بُک فیئر میں اپنے ادارے کا اسٹال لگانے کی دعوت دینے آئے ہیں۔ کہنے لگے کہ کیا ہم اپنی تمام کتابیں وہاں ڈسپلے اور فروخت کر سکیں گے، پھر نمونے کے طور پر چند کتابوں کی رونمائی بھی کروا دی جن میں کیمونسٹ فکر کے علاوہ بھٹو مرحوم کی کتابیں اور ان کے بارے میں چند کتابیں شامل تھیں۔ ہم چونکہ اصولی طور پر پہلے سے طے کر چکے تھے کہ ہم نے ہر ایک قابلِ ذکر ادارے کو نظریاتی وابستگی کو بیچ میں لائے بغیر بلا مشروط دعوت دینی ہے اس لئے ہم نے ان کو گارنٹی دی کہ آپ جو چاہیں ڈسپلے کریں اور بیچیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

"ریسٹ اِز ہسٹری"۔ آئی ای آر سے لے کر کیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ تک مین کوریڈور میں دو رویہ کم و بیش سو کے قریب اسٹالز، ہزاروں عاشقان کتب کی روزانہ کی بنیاد پر شرکت اور ہزاروں کتابوں کی روزانہ فروخت نے اس بُک فیئر کو واقعی لاہوریوں کا "اٹھواں میلہ" بنا دیا۔ کئی سٹالز والے تو دن بھر اپنا سٹاک ہی پورا کرتے رہتے۔ اوروہ بُک سیلرز جوبغیر کسی فیس کے بھی اِس بُک فیئر میں اسٹال لگانے سے ہچکچا رہے تھے اب تین دن کے بُک فیئر میں ایک دن کی توسیع کے لئےبھی یہی حضرات اصرار کر رہے تھے۔

لاہور کی علمی اور ادبی تاریخ میں یہ بُک فیئر ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، پنجاب یونیورسٹی نے اب تک اس درخشندہ روایت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ لاہور انٹرنیشنل بُک فیئر بھی اب الحمراء آرٹ گیلری کی سیڑھیوں سے اُتر کر ایکسپو جیسی وسیع اور عوامی جگہ پر باقاعدگی سے منعقد ہو رہا ہے۔ لیکن لاہور شہر کو بُک فیئر کا تہوار دینے والے کندھ کوٹ کی سادگی اور شرافت کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت میں کراچی جیسے کاسموپولیٹن شہر سے "تِھنک بِگ" کا امتزاج لائے ہمارے اِرشاد بھائی کے ذکر کے بغیر اس تہوار کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ گھر میں جب بھی کوئی ایسی کتاب ہاتھ میں آتی ہے جو 1989 کے بُک فیئر میں خریدی گئی یا لاہور میں کسی بُک فیئر کے بینرز لگے دیکھتا ہوں تو یہ بھولی بسری یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔