ہوم << خوشبو میں بسے خط، ادب میں استحصال کی کہانی- محمد کامران اتمان خیل

خوشبو میں بسے خط، ادب میں استحصال کی کہانی- محمد کامران اتمان خیل

قصے کہانیوں سے انسان کا واسطہ ازل سے رہا ہے اور ابد تک رہے گا۔ انسان کے ساتھ کہانی ہر زمانے، ہر دور بلکہ ہر لمحہ وابستہ رہی ہے۔ انسان کی زمین پر تخلیق،اس کا جنگل اور غاروں میں رہ کر ترقی کرتے کرتے ہوا میں اڑنا اور چاند پر قدم رکھنے تک سب ایک کہانی بلکہ کہانیاں ہیں۔ہمارے استاد ناصر عباس نیر صاحب نے اپنے ایک افسانے "کہانی کا کوہ ندا" میں لکھا ہے کہ کہانی جھوٹی یا سچی نہیں ہوتی، بلکہ کہانی کہانی ہوتی ہے لیکن خیر ہمیں بعض کہانیاں اس لیے جھوٹی لگتی ہیں کہ ہم نے ان میں درج حادثات و واقعات کو اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھا ہوتا یا ہم نے اس سے پہلے اس طرح کبھی پڑھا یا سنا نہیں ہوتا، سو جب ہم کبھی اپنی محبوب چیزوں،تحریکوں یا شخصیتوں وغیرہ کے بارے میں تلخ حقائق یا ان کے دوسرے چہروں سے آشنا ہوتے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آرہا ہوتا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ہم اندھی تقلید اور عقیدت کے شکار ہوتے ہیں۔ خیر بات کہاں تک جا پہنچی۔

میں آج جس کہانی پر بات کرنا چاہتا ہوں وہ آمنہ مفتی صاحبہ کا لکھا ہوا ڈرامہ "خوشبو میں بسے خط" جو خالص ادبی ڈرامہ ہے۔ اور اس طرح کا خالص ادبی ڈرامہ جس میں لکھنے والے خواص شاعروں اور ادیبوں کا ذکر ہو،اگر اس سے پہلے کبھی بنا بھی ہو تو میں نے نہیں دیکھا۔ اس ڈرامے کا عنوان راجندر ناتھ رہبر کے نظم "تیرے خوشبو میں بسے خط" سے لیا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح شعر و ادب کے دنیا میں موجود لابیز (Lobbies)، موقع پرست،کم ظرف اور برے لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔جس میں احمد زریاب کی شکل میں ہمارے ادبی دنیا میں موجود خود پرست، فلرٹی،مفاد پرست،چالاک و مکار اور احساس برتری میں مبتلا کرداروں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

احمد زریاب کہانی کا ہیرو انتہائی بے حس اور مکار انسان ہے جو اپنی ہنر(شاعری) کے ذریعے کئی لڑکیوں کو شاعرہ بنانے اور شہرت کا جھانسہ دے کر ان کو محبت کی جال میں پھنسا کر ان کی عزتوں کے ساتھ کھیل کر ان کی عزتوں کو لوٹتا ہے.وہ کہانی میں موجود کئی کرداروں چھاجو،رخشندہ،تابندہ اور عدیلہ(جو کہ سہیلیاں ہوتی ہیں) کو محبت میں پھنسا کر نہ صرف ان دوستوں کی دوستی کو ختم کرتا ہے بلکہ ان میں سے ایک کامیاب عورت عدیلہ (جو کہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوتی ہے) سے شادی کر لیتا ہے۔اور اس طرح وہ اس کی پیسوں پہ پلنے اور عیش کرنے لگتا ہے۔

عدیلہ کے ساتھ شادی کرنے کے بعد بھی یہ ٹھرک پن کو چھوڑ نہیں پاتا کیونکہ احمد زریاب کو کسی سے محبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک خود پرست اور مفاد پرست انسان ہوتا ہے، جس کو صرف اور صرف اپنے مطلب سے کام ہوتا ہے۔اس نے بیک وقت کئی لڑکیوں سے عشق کا ڈھونگ رچایا ہوتا ہے،وہ بڑا ڈرامے باز شخص ہے. پہلے عدیلہ کے سامنے اپنے آپ کو اس کا سچا عاشق ظاہر کرنے کے لیے ڈرامہ کر کے خود کو بے ہوش کرتا ہے، تاکہ اس کی ماں اپنی بیٹی کی اس سے شادی کرنے پر راضی ہو، اور پھر "پینی" نام کی ایک شادی شدہ عورت (جو کہ خوشحال زندگی گزار رہی ہوتی ہے) کا یہ ذہن بناتا ہے کہ آپ جس گھر میں رہ رہی ہیں ، یہ تو ایک قید خانہ ہے، آپ جیسی خوبصورت اور حسین عورت کو تو آزاد ہونا چاہیے،آپ کو پرواز کرنا چاہیے، لیکن جب تک آپ اس گھر میں رہیًں گی تو آپ آزاد نہیں ہو سکتیں، اور نہ پرواز کر سکتی ہیں، لہذا اگر آپ کو شاعری کی دنیا میں نام بنانا ہے اور آپ نے مشہور ہونا ہے تو آپ کو اس گھر سے آزادی چاہیے ہوگی۔لہذا یہ ظالم مرد اس سے بھی محبت کے نام پر کھیل کر اس کی نہ صرف طلاق کرواتا ہے بلکہ کہانی کی آخر میں وہ زریاب کی وجہ سے خودکشی بھی کر لیتی ہے،کیونکہ احمد زریاب اس کو بھی بیچ راہ میں چھوڑ دیتا ہے۔

حسنہ حسین نام سے ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکی جو ایک کالج میں پڑھتی ہے،ایک روز احمد زریاب کو کالج کے مشاعرے کا انویٹیشن کارڈ دینے جاتی ہے۔ زریاب اسے بھی اپنا شکار بنا لیتا ہے ، اور اسے بھی حسنی تخلص سے نواز کر (اپنی شاعری دے کر)ایک ٹی وی مشاعرے میں لے جاتا ہے، وہ اسے پروین شاکر بننے اور مفت مشہور ہونے کا خواب دکھاتا ہے،لہذا وہ اور اس کی ایک سہیلی "جہان آرا" اس کے جال میں پھنس جاتی ہیں، اور اس کا بھی انجام بھیانک ہوتا ہے۔

وقت گزرا ڈاکٹر عدیلہ بھی تھکتی جا رہی تھی،ساری عمر وہ اسے شاعر سمجھ کر،حساس انسان سمجھ کر وقت کاٹتی رہی، مگر ایک خاص عمر میں اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ حساس نہیں مجرم صفت انسان بن چکا ہے۔عورت اس کے لیے کھیل تماشاہے ، لہذا وہ اپنی ماں سے کہتی ہے: "ماں میں ایک سرجن ڈاکٹر ہوں، اور میں یہ اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ ایک کٹ کہاں لگانا ہے اور زخم کتنے وقت میں ٹھیک ہوسکتا ہے۔۔۔" سو وہ ایک خاص وقت کے بعد اس سے خلح لے لیتی ہے اور اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔

المختصر اس کہانی کا انجام وہ ہوتا ہے جو اس طرح کی کہانی کا ہونا چاہیے لیکن کچھ قارئین کو شاید اس پر اعتراض ہو کہ اس میں بعض کرداروں کو وہ سزائیں نہیں دی گئیں جو انھیں ملنی چاہیے تھیں۔ خیر ہماری ادبی دنیا میں کئی ایسے لوگ ہیں جو احمد زریاب جیسے کردار کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ایسے افراد عام طور پر خود پسندی،نرگسیت اور خود عرضی کا شکار ہوتے ہیں،اور اپنے الفاظ علم یا شہرت کو نہ صرف دوسروں پر اثر انداز کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ صرف اپنی دانشوری کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں اور دوسروں کی آراء کو کمتر سمجھتے ہیں۔ایسے لوگ اپنی شہرت اور رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے نئی لکھاریوں اور ادیبوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور رخشندہ و عدیلہ جیسے کرداروں کا نہ صرف ذہنی و جذباتی استحصال کرتے ہیں، بلکہ تخلیقی استحصال (سرقہ) سے بھی گریز نہیں کرتے.

Comments

محمد کامران اتمان خیل

محمد کامران اتمان خیل شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ شاعری پشتو زبان میں کرتے ہیں۔ ترجمہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اردو میں پشتو افسانوں کے تراجم اور اردو سے پشتو میں منظوم تراجم کیے ہیں۔ اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب لاہور سے بی ایس اردو کیا ہے۔ ادب، زبان اور ثقافت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیت اور ترجمہ نگاری کے ذریعے ادب کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

Click here to post a comment