ہوم << نوجوان خواتین میں دل کی بیماریاں- ساجدہ فرحین فرحی

نوجوان خواتین میں دل کی بیماریاں- ساجدہ فرحین فرحی

دل کی بیماری خواتین میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے، جو کسی بھی دوسری حالت سے زیادہ جان لیتی ہے۔ سی وی ڈی خواتین کو کس طرح مختلف طریقے سے متاثر کرتا ہے. اس سے بچاؤ کے لیے اہم اقدامات کے بارے میں بصیرت انگیز معلومات حاصل کریں، حقائق جانیں، خطرات کو پہچانیں، اور اپنے دل کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں! اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ اپنے دل کی صحت کے خطرات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے کچھ وقت نکالیں اور اپنی صحت کا تجزیہ کریں اپنا خیال رکھیں.

آغا خان ہسپتال میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہر امراض قلب ڈاکٹر فرحانہ بلوچ کہتی ہیں کہ وہ بیماریاں اور عوامل جو عورتوں کے اوپر زیادہ اثر کرتی ہیں جیسے کہ ہارٹ اٹیک کی صورت میں دیر سے آنا ، ہسپتال دیر سے رجوع کرنا یا تو وہ ان علامات کو پہچان نہیں پاتی ہیں یا پھر وہ علامات مختلف ہوتی ہیں جو عام علامات ہیں جو کہ ہارٹ اٹیک کے مریض کو ہونے چاہییں. اس سے سینے میں درد ہونا یا بازو میں درد ہونا، جبڑے کی طرف جانا . دوسرا اگر وہ ان علامات کو پہچان بھی جاتی ہیں تو جو ہمارےمعاشرتی رویے ہیں صحت کے بارے میں اور معاشی مشکلات ہیں، ہماری خواتین اس کی وجہ سے پہنچ نہیں پاتی. ان کا اپنا تجزیہ بھی ہوتا ہے کہ یہ معدے کی تکلیف ہوگی. دوسرا اگر وہ پہنچ بھی جاتی ہیں تو ایمرجنسی میں تاخیر ہو جاتی ہے، جیسے ای سی جی ہونا، دس منٹ کے اندر ایسپرنگ ملنا پہلے گھنٹے میں.ان چیزوں میں کافی ڈیلے پایا گیا ہے تو یہ بہت سارے عوامل ہیں. اگر شروع سے یہ چیز تسلیم کر لی جائے کہ خواتین کو دل کی بیماری کا اتنا ہی رسک ہے جتنا کہ مرد حضرات کوتو یہ سارے عوامل کنٹرول ہوسکتے ہیں. ایسی کچھ بیماریاں ہیں جو خواتین میں کامن ہیں ، ان کے بارے میں بھی جاننا بہت ضروری ہے. کچھ بیماریاں دل کے والز کی ہیں، جن کو عام زبان میں ہم دل کے دروازے کہتے ہیں، ویلفیل ہارٹ ڈیزیز خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہے، ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں. لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کو اتنا ہی رسک ہے. مرد حضرات شوگر ، ہائپرٹینشن ، سگریٹ نوشی، موٹاپا، غیر صحت مندانہ طرز زندگی ، مینٹل ہیلتھ ، یہ سب عورت کے دل پر اتنا ہی اثر ڈالتے ہیں جتنا کہ ایک مرد کے دل پہ اثرانداز ہوتے ہیں .

آج کل نوجوان خواتین میں کارڈیک اریسٹ ہونا موت کی اہم وجہ بن رہی ہے. زندگی کے مختلف مراحل میں ہارمونل تبدیلیاں دل پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں جس میں دوران حمل دل کے پٹھوں کی کمزوری ایک جان لیوا بیماری ہے. کارڈیو مایوپیتھی دل کے پٹھوں کی کمزوری کو کہتے ہیں. اگر دوران حمل دل کے پٹھے کمزور ہو جائیں تو اس کو پریگننسی پیری پارٹم کارڈیو مایوپیتھی کہتےہیں، اگر کسی کو پہلی دفعہ کارڈیو مایوپیتھی ہوئی ہو اور وہ مکمل طور پر صحت مند نہیں ہوا ہو تو کچھ رسک فیکٹر ہوتے ہیں، اس کو دیکھ کر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ کتنا چانسز ماں کو دوبارہ کارڈیو مایوپیتھی ہونے کا ہے، لیکن ایک دفعہ ہوا ہے تو دوبارہ ہونے کے امکانات زیادہ ہو ں گے . اس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں پانی جانا، سانس کا پھولنا، دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی اور کبھی کبھار خدانخواستہ زندگی کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے. بلڈ پریشر کافی حد تک کم ہو جاتا ہے تو زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، مگر اس کا امکان اس بات پر منحصر ہے کہ مریض کے اس وقت سچویشن کیسی ہے؟ ہارٹ کا فنکشن کیسا ہے؟ شدید کم ہے یا درمیانہ کم ہے یا معمولی کمی ہے. عام طور پہ معمولی کمی کی مریض پریگننسی کے دوران دوائیوں پہ بھی بہتر حالت میں رہتی ہیں، لیکن درمیانے سے شدید کمی والی خواتین جن کے دل کے پٹھے کمزور ہوتے ہیں، ان کو ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں. تو بہتر ہے کہ جب بھی اس قسم کی کوئی بھی سچویشن ہو، اپ کے ڈاکٹر آپ کو بتائیں کہ آپ کے دل کےپٹھوں میں کچھ کمزوری نظر آرہی ہے تو فورا آپ کوماہر امراض قلب سے رجوع کرنا چاہیے جو کہ حمل کے دوران دل کی بیماریوں کو دیکھتے ہیں.

ماہر امراض دل ڈاکٹر فاٸزہ فاروق کہتی ہیں کہ ہم جب رات میں سوتے ہیں تو ہمارے سونے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں. نیند کی کئی اقسام ہوتی ہیں جس میں ہلکی ، درمیانی اور گہری نیند شامل ہے . اس کے حساب سے ہمارے جسم میں ہارمون ریلیز ہوتے ہیں. ہلکی نیند میں الگ ہارمون پیدا ہوتے ہیں اور گہری نیند میں الگ، اس دوران آپ خواب بھی دیکھتے ہیں جو گہری نیند کی علامت ہیں. نیند کو آدھی موت جیسا بھی تصور کیا جاتا ہے۔صبح کے اوقات کے ہارمونز کی الگ اقسام ہیں، رات گہری نیند میں جو ہارمونز پیداہوتے ہیں اس سے جسم کو آرام ملتا ہے، جسم کے اعضاء اس دوران اپنی بحالی کاکام سرانجام دیتے ہیں۔آ پ کا جسم حالت سکون میں آجاتاہے، تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے. سرکیڈین ردھم اس طرح اثرانداز ہوتا ہے کہ مختلف حالات میں مختلف ہارمونز کا اخراج اس کا کام ہے۔تحقیق یہ بات ثابت کرتی ہے کہ پریشانی سے سرکیڈین ردھم ابنارمل ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات سرکیڈین ردھم کی بےترتیبی سے اسڑیس لیول بڑھ جاتا ہے، جس سے ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس میں سر فہرست دل کی بیماریاں ہیں جو سرکیڈین ردھم کی وجہہ سے بڑھ رہی ہیں۔مکمل نیند کی کمی کے باعث جسمانی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔دوران سفر بھی جوکہ اگر زیادہ طویل ہوتو اس سے بھی سرکیڈین ردھم متاثر ہوتا ہے۔زیادہ پریشانی کا شکار رہنے والے افراد کا ابنارمل سرکیڈین ردھم ہوجاتا ہے جس سے ذہنی اور اعصابی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ڈیمنشایا انزاٸمر ہوسکتا ہے اور دل پر یہ سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے.

خواتین اور بزرگوں میں دل کے دورے کی علامات مردوں سے کچھ مختلف ہوتی ہیں. دل کی دورے کی صورت میں سینے میں جلن ہوتی ہے، تھکن کا احساس ہوتا ہے، سانس لینے میں دقت ہونے لگتی ہے اور متلی جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔خواتین کودل کے دورے کی ہلکی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔مردوں میں دل کے دورے کی علامات میں سینے میں تکلیف، جکڑن، گھبراہٹ اور بازوؤں، کمر، جبڑوں اور گردن میں تکلیف  وغیرہ شامل ہیں۔ خواتین کو صرف سانس لینے میں دقت ہوتی ہے، غنودگی بھی طاری ہوسکتی ہے،  اس کے علاوہ سینے میں معمولی تکلیف محسوس  ہوسکتی ہے۔ خواتین  میں دل کے دورے کی علامات جُدا ہونے کا سبب یہ خیال جاتا ہے کہ ان  میں مردوں سے مختلف شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ خواتین میں چھوٹی شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے جب کہ مردوں کی عموماً بڑی یا مرکزی شریانوں میں دوران خون میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ خواتین اور بزرگوں کو اکثر ہسپتال لانے میں دیر ہوجاتی ہے اور طبی امداد دیر سے ملتی ہے، پہلے خواتین میں دل کے دورے کی وجہہ سے شرح اموات زیادہ تھی مگر اب اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔

نوجوان خواتین اگر ذہنی پریشانی کا زیادہ شکار ہیں، خاندان میں دل کی بیماری کی ہسٹری ہے جیسے کارڈیو مایوپیتھی کی کچھ اقسام خاندانی بھی ہوتی ہیں اور کچھ دفعہ دوران حمل بھی یہ نوجوان خواتین کو ہوجاتا ہے۔ رومیٹک ہارٹ ڈیزیز بھی ایک عام بیماری ہے جس کا تعلق بچپن میں ہونے والی گلے کی بیماری سے ہے، جس کا ٹھیک طرح علاج نہیں کیا جاتا تو پھر وہ دل کے مختلف حصوں کو متاثر کرتی ہے. یہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کی بیماری ہے. بچپن میں کسی وقت پہ بچوں کو بخار ہوا ، جوڑوں میں درد ہوا اور وہ ختم ہو گیا، اس کے بعد انہوں نے اس کو چھوڑ دیا. جب دس پندرہ سال گزر جاتے ہیں تو اس کے اثرات دل پہ آنا شروع ہو جاتے ہیں. علامات یہ ہوتی ہیں عموما کہ سانس لینے میں دشواری ہو گئی، دل کی دھڑکن بہت تیز چل رہی ہوگی، سانس نہیں لیا جائے گا، پاوں میں سوجن آجاۓ گی، اس میں گلے پہ حملہ کیا ہوتا ہے، دل کے والز پہ حملہ ہوتا ہے، اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کا گلا متاثر ہو. کیونکہ اپ نے اس کا علاج مکمل نہیں کیا ہوتا تو وہ آپ کے جسم اور دل کے اندر والز کے اندر رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے والز سکڑنے لگ جاتے ہیں. بنیادی طور پر دل کا کام ہوتا ہے کہ ایک دروازہ ہے جو پورا کھلتا ہے اور اس میں سے بلڈ باہر نکلتا ہے، اب وہ دروازہ پورا نہیں کھل رہا ہے، وہ کم کھل رہا ہے تو وہ بلڈ پولنگ ہو رہی ہوگی تو اس کی وجہ سے سارے اثرات آتے ہیں، سانس لینے کی دشواری ہو گی، دل کی دھڑکن بڑھے گی بے ربط ہوگی، دل کے سٹرکچرز ایٹریاز میں بڑے ہونے لگ جائیں گے. یہ بیماری ایکو سے تشخیض ہوتی ہے.

کارڈیو مایوپیتھی میں آپ کے جو دل کے پٹھے ہوتے ہیں، جو دل کے مسلز ہیں وہ کمزور ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے دل کا فنکشن کم ہونا شروع ہو جائے گا اور اس کی وجہ سے پٹھے کمزور ہو جائیں گے، دل صحیح طریقے سے پمپ نہیں کرے گا تو بلڈ پولنگ شروع ہو جائے گی اور سانس لینے میں دشواری ہوگی. یہ رومیٹک ہارٹ ڈیزیز ہے. پیری پارٹم کارڈیو مایوپیتھی حمل کے آخری مہینوں سے لیکر ڈلیوری کے چھ ماہ تک ہوتی ہے. حمل کے دوران سے ہی جسم کے کچھ اینٹیجنز باڈی کے خلاف ریگ کرتے ہیں، اس کو آٹوامیون ڈیزیز کہتے ہیں. اس کی وجہ سےمسلز پٹھے کمزور ہو جائیں گے اور کارڈیو مایوپیتھی ہو جائے گی۔یہ بہت خطرناک اور جان لیوا بیماری ہے. ہمارے ملک میں بھی عام ہے. کافی خواتین کو ہوتی ہے. پتہ نہیں چلتا، صحیح وقت پر اکثر تشخیص نہیں ہوپاتی اور جب ایک دفعہ ڈائیگنوز ہو جائے تو اس کے بعد اگلی پریگننسی بالکل منع کردی جاتی ہے۔فیٹل موٹیلٹی تو ہے یا مٹیرنل موٹیلٹی ہے، 90 پرسنٹ سے زیادہ ہوتی ہے ۔اس میں ریکوری بہت کم ہوتی ہے۔ماں کی زندگی بہت اہمیت رکھتی ہے اس لیے شوہر کی کونسلنگ کرنی ہوتی ہے۔ایک دفعہ آپ کا دل متاثر ہوجاتا ہے تو بہت مشکل ہے کہ وہ پہلے جیسا کام کرسکے، صرف دس فیصد کیسیز میں مکمل صحت یابی ہوتی ہے. وہ خواتین نارمل زندگی گزار سکتی ہیں ورنہ اکثر خواتین کو ساری زندگی ادویات جاری رکھنی ہوتی ہیں.

ڈپریشن ایک ایسی بھی بیماری ہے جو ہر بیماری کی وجہ ہوسکتی ہے. پریشان انسان زیادہ بیماریوں کا شکار بنتے ہیں. جن افرادکو زیادہ غصہ آتاہے ان کو غصہ کرنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ نوجوان افراد میں دل کا دورہ ہونے کی عمر اب چالیس اور تیس سے کم ہوکر پچیس اور بیس سال کی عمرتک ہوگئی ہے، بلکہ کل ہم نے ایک سولہ سال کے لڑکے کے دل میں اسٹینٹ ڈالا ہے۔ سگریٹ نوشی آپ خود کررہے ہوں یا کسی سگریٹ نوشی کرنے والے فرد کےساتھ بیٹھے ہوں، دونوں صورتوں میں آپ اس کے مضر اثرات کا شکار ہوسکتے ہیں۔چاہے وہ مرد ہو یا عورت ہو۔سگریٹ نوشی دل کی بیماریوں ، خاص طور پر دل کے دورے کا بڑا سبب ہے۔اب خواتین میں بھی سگریٹ نوشی عام ہوتی جارہی ہے. کچھ خواتین فیشن کے طور پر بھی سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔الیکٹرک سگریٹ نوشی بھی ویسی ہی خطرناک ہے جیسی عام سگریٹ نوشی.

خواتین کو اپنے دل کی بہتر صحت کےلے کیا کرنا چاہیے۔ خواتین کو تھوڑا محتاط رہنا چاہیے. خواتین اور بزرگ افراد میں دل کے دورے کی علامات روایتی نہیں ہوتیں. خواتین کو اپنی صحت کا خود خیال کرنا ہے. یوٹیوب پر ڈرامہ دیکھنے سے بہتر ہے کہ آپ اپنی صحت کے بارےمعلومات و آگاہی حاصل کریں کیونکہ خواتین میں دل کی بیماری کینسر کے بعد دوسری بڑی وجہ ہے موت کی۔ تو آپ کو اپنے آپ کو خود بچانا ہے اس سے اگر آپ کے خاندان میں، آپ کے والدین میں، یا آپ کے بہن بھائیوں میں کسی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا، پچاس سال کی عمر سے پہلے تو آپ کو زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں. اپنی خوراک کا خیال رکھیں، واک کریں، ایکسرسائز کریں، سٹریس نہیں لیں، رات کی نیند بہتر کریں. اگر آپ دل کی بیماریوں سے محفوظ رہنا چاہتی ہیں تو آپ کو بہتر طرز زندگی اپنانا ہوگا.

نوجوانی میں دل کے دورے کا شکار ہونے والی مدیحہ بخاری اپنی بیماری اور اس کے دوران ہونے والے تجربات کے بارے میں کہتی ہیں۔ ایک چیز جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ جب آپ کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو آپ کو جج بہت زیادہ کیا جاتا ہے . ہمارے معاشرے میں ہارٹ اٹیک کا شکار اگر کوئی نوجوان خاتون ہے تو اس کو لوگ سیریس نہیں لیتے، جس میں ڈاکٹرز بھی شامل ہیں. ہمارے یہاں یہ بہت بڑا المیہ ہے جس کا میں نے تجربہ کیا. ای سی جی سب چیزیں بعد میں دیکھتے ہیں پہلے وہ اپ کے اپیرنس دیکھتے ہیں کہ اپ لگ رہی ہیں کہ نہیں لگ رہی ہیں، آپ کی باڈی کے اندر کیا ہو رہا ہے، مگر کیونکہ میں دبلی ہوں تو سب نے مجھے نظرانداز کر دیا. جی نہیں یہ تو بہت دبلی لگ رہی ہے، اس کے بچے بھی ہیں، مگر جب انہوں نے چیک کیا تو بولا ہاں خون کی رپورٹ میں تو آ رہا ہے کہ اس کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا . ای سی جی بھی میری فلکچویٹ کر رہی تھی بہت زیادہ نہیں مگر تھی. جب دل میں شدید درد کی شکایت کی تو وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کو تو مسکولر پین ہے یا اس کو گیسٹرک پین ہے. وہ یہ چیزیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہیں. باہر کے ملکوں میں یہ چیز نہیں ہے، وہ آپ کی ظاہری خد و خال نہیں دیکھتے ، وہ سیدھا آپ کو علاج پر لے کر آتے ہیں. ہم بھی علاج پر جاتے ہیں مگر علاج کے ساتھ آپ کومستقل تبصرے سننے پڑتے ہیں کہ اپ لگ نہیں رہی نہیں . مریض فوری رزلٹ چاہتا ہے ، دود سے نجات چاہتا ہے ، بار بار ایک ہی بات بولی جائے کہ اپ تو بہت دبلی ہیں آپ کو تھوڑی ہو سکتا ہے. اس طرح کے رویے ایک خاتون کے لیے بہت تکلیف دہ ہوسکتےہیں.

مدیحہ بخاری نے اپنے دل کے دورے کی تفصیلات کے بارے میں بتایا کہ مجھےمائیو کارڈیل انفیکشن ہوا تھا. اس میں آپ کے دل میں کوئی ارٹریز بلاک ہوتی ہیں، کولیسٹرول کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، تو وہ کلیئر ہوتی ہیں تو بلڈ میں اس کی وجہ سے ٹروپونن ائے ہائی ہو جاتا ہے جو کہ انڈیکیٹر ہوتا ہے کہ آپ کو دل کا دورہ پڑا ہے . ٹروپونن ائےصرف دل کے دورے کی وجہ سے نہیں زیادہ ہوتا ، گردے اور جسم میں کوئی ڈس فنکشن ہو تو اس کی وجہ سے بھی ہوتا ہے. زیادہ تر یہ بڑی عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے، جو پچاس سال سے زائد ہوں مگر اب یہ نوجوانوں میں ہونے لگا ہے. تھائیرائڈ کا ڈس فنکشن بھی ہوتا ہے، شدید سٹریس اور ڈپریشن بھی ہوتا ہے ، خراب لائف سٹائل بھی ہوتا ہے ، یہ اس کی بڑی وجوہات ہیں. جو خواتین ایکسرسائز نہیں کرتیں یا جن کا وزن زیادہ ہے، ان کو ہونے کا چانسز زیادہ ہوتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو دبلے ہیں، ان کو نہیں ہوگا، جیسے میں تھی. بچے ہو نے کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن ہوتا ہے جس میں عورتوں کو ہیلپ چاہیے ہوتی ہے، پاکستانی کلچر میں اس کو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا . کہا جاتا ہے کہ بچے کے بعد عورت کو کوئی ڈپریشن نہیں ہوتا، یہ سب عورت کے بہانے ہیں، سستی ہے. ایک تو حمل کی مشکلات، اس کے بعد ڈلیوری ، پھر بچہ سنبھالنا ، اس میں ہارمونل چینجز آتے ہیں، کیئر نہ کی جائے تو مسئلہ ہوتا ہے. پرانے زمانے میں دیکھیں گے کہ پنجیری دیتے تھے، لڑکیاں اپنی اماں کے گھر چلی جاتی تھیں، وہ اسی لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکی کو شدید کیئر کی ضرورت ہوتی ہے. عورت ہر بچے کے بعد تین سال پیچھے ہو جاتی ہے اپنی صحت میں یعنی کہ اس کا گراف نیچے آ جاتا ہے، اس کو ریکور کرنے میں ٹائم لگتا ہے. بہت ساری عورتوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ اپ کم از کم تین سال کا وقفہ دیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہیلنگ اور ریکوری پیریڈ بہت سلو ہوتا ہے. جن کے بہت جلدی جلدی ڈھیر سارے بچے ہو جاتے ہیں توان کی صحت بہت تیزی سے نیچے آتی ہے، اور وہ پوسٹ پارٹن ڈپریشن کا بڑی جلدی شکار ہونے لگتی ہیں. ہر بچے کے بعد ان کو ڈپریشن ہونے لگتا ہے تو وہ ان کی کیئر کر لیتی ہیں یا سسرال والے ہوتے تو وہ کیئر کر لیتے ہیں. یہ نیٹ ورکنگ بہت ضروری ہے. اگر یہ کیئر ہو تو عورت ڈپریشن میں نہیں جاتی اور اگر ڈپریشن میں نہیں جاتی تو اس کو ہارٹ کے پرابلمز ہوتے نہیں ہیں.

ایک اور بات پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے متعلقہ یہ ہوتی ہے کہ پچھلے ٹراماز پریگننسی میں ٹرگر ہو جاتے ہیں کیونکہ ہارمونل چینجز اتنی پیک پر ہوتے ہیں کہ آپ کو پچھلی پرانی باتیں ، پچھلے غم ، حادثے یاد آتے ہیں. کسی کا انتقال ہوتا ہے جس کو اپ نے دل سے لگا لیا ہوتا ہے ، وہ دکھ بڑھ جاتا ہے. پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں اس لیےسائیکلوجیکل ہیلپ کی بہت ضرورت ہوتی ہے. ٹراما سے انسان نکلتا ہے یا کسی بیماری سے اٹھ کر آتا ہے، اس کے بعد سائکلوجیکل ہیلپ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ، اسے دوائیاں پکڑا دی جاتی ہیں ، گھر بھیج دیا جاتا ہے کہ بھئی اب آپ نے یہ ایک سال چھ مہینے تک کھانی ہے ، اس کا سائیڈافیکٹ بھی ہو گا . اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بندہ اسی میں پھنسا رہتا ہے، ایک سائیکل بن جاتی ہے جس میں بندہ ڈرتا ہے. دوائی کھاتا ہے پھر صبح اٹھتا ہے پھر ڈرتا ہے پھر دوائی کھاتا ہے.جس ڈپریشن سے نکلنے یا اپنے سرکیڈین ردھم کو بہتر کرنے کے لیے دوائی کھاتا ہے، وہ بہتر نہیں ہوتی ، کیونکہ اس کی کونسلنگ نہیں کرتا، وہ صرف میڈیسن ہیلپ لے رہا ہے مگر مینٹل ہیلپ نہیں لے رہا . یہ کمبائن کر کے چیزوں کو ہیلپ کی جاتی ہے ، مگر ہمارے ہاں ویسے ٹیبو سمجھا جاتا ہے مینٹل ہیلپ کو، تو یہ مسئلہ ختم نہیں ہوتا، بڑھتا رہتا ہے