ہوم << حسن محو رنگ و بو ہے عشق غرق ہائے و ہو - جویریہ سعید

حسن محو رنگ و بو ہے عشق غرق ہائے و ہو - جویریہ سعید

چمکدار فرش پر ہیل والے جوتوں کی ٹک ٹک ، راہداریوں کی دیواروں پر لگی بیش قیمت تصاویر ، کامن ایریا میں مریضوں کی صبح کی دلچسپ محفل کے بعد ریویوز ، میٹنگز اور لیکچرز سے بھرپور ایک جیسے بہت سے ایام۔ اور ان ایام سے بھرے کئی برس گذرے جارہے تھے۔ زندگی جیسے اپنے کاندھے پر لادے بستی بستی گھوم رہی تھی۔ گاڑیاں، خود کار دروازے، کچن میں مشینیں، لیدر کے نرم صوفے جدید طرز نے باتھ رومز اور لان ۔ ہاتھ میں، پرس میں، میز پر، دیوار پر یہاں تک کہ کلائی پر اور کانوں میں گیجٹس اٹکے تھے۔بچے بجلی کی مشینی جھولوں میں لطف لیتے تھے۔ دوست احباب ، واقف کار سب تھے۔

مگر دل تھا کہ سرخ اینٹوں سے بنی قدیم عمارتوں کی مخدوش کھڑکیوں میں اٹک جاتا۔ نگاہیں بوسیدہ دیواروں کے پیچھے چھپے کمروں کے اندرونی منظر کو سوچنے لگتیں۔ پرانی طرز کے صوفوں پر بڑے بڑے پھولوں کے پرنٹ والے کور چڑھے ہوں گے۔ کروشیے اور جھالر والے میز پوش ہوں گے۔ آتش دان کے پاس لکڑیوں کا چھوٹا سا ڈھیر سجا ہوگا اور ساتھ تپائی پر چائے دانی اور چائے کی چند پیالیاں طشتریوں کے ساتھ سجی ہوں گی۔ پرانے طرز کا فرنیچر، گلابی دیواروں والی خواب گاہ، پیلی پڑ چکی ٹائلوں والے باتھ روم اور روٹ آئرن کی بھاری کرسیاں بیک یارڈ میں منقش میز کے کنارے رکھی ہوں گی۔ چلتے چلتے، کام کرتے، کسی کے ساتھ کلچرل ، اسپرچوئل اور سایکولوجیکل اشوز پر بات کرتے، اچانک سینے میں بائیں جانب ٹیس کیوں اٹھتی ؟

انگریزی و دیسی پودوں سے سجے باغ میں پتوں کی کانٹ چھانٹ کرتے اچانک فلیش بیکس ہونے لگتے اور اچانک ہی وجود میں کسی برآمدے کے ایک طرف چھوٹی سی کیاری میں لگائے گئے موتیے اور رات کی رانی کے پھولوں کی مہک اترنے لگتی۔ کبھی سفید ماڈرن اسٹائل کئی دیوار نظروں کے سامنے سے بالکل غائب ہوجاتی اور دور کہیں اب بھی موجود پیلی دیوار پر لگی پرانی گھڑی اور اس کے برابر میں لکڑی کی چوکھٹ نظر آنے لگتی۔ کوئی پکارتا۔۔۔ “کواڑ بند کردو، تیز ہوا اندر آرہی ہے ، سارا کمرا دھول سے بھر جائے گا۔ میں نے ابھی جھاڑو لگائی ہے۔ “

جاتی سرما کے ایک اداس دن لنچ کے بعد سب شیشے کی دیواروں والے ڈائننگ روم سے نکل کر پیر ریویو میٹنگ کے لئے چلے گئے اور میں نے نہ جانے کیوں کہہ دیا کہ کہ میں نے ایک اہم رپورٹ لکھنی ہے اور ایک مریض دیکھنا ہے۔ مگر قدم آفس کی طرف جانے کی بجائے ، پیچھے کو جاتی راہداری کی طرف بڑھ گئے۔
جدید عمارت کے پیچھے اٹھارویں صدی میں بنی پرانی عمارت کو باقی رکھا گیا تھا۔ ہلکی بارش کے بعد باغ کی ساری گھاس نم ہورہی تھی۔ روش پر چمپا کے بے شمار پھول بکھرے ہوئے تھے۔ بادلوں سے ڈھکے آسمان کو دیکھنے کو سر اٹھایا تو نگاہیں خالی جھروکے پر اٹک گئیں۔ اور پھر کوئی چھم سے وہاں آن کھڑا ہوا۔ ایسا لگا کہ بند کھڑکیوں کے پیچھے گرامو فون پر رکارڈ بج رہا ہے، اور کوئی روشنائی میں قلم ڈبو کر لکھتے لکھتے اٹھ کر جھروکے میں آن کھڑا ہوا ہے۔ جیسے کسی مانوس آہٹ پر کان چونکے ہوں اور نگاہیں دیدار کو بے قرار ہوئی ہوں ۔

تو پیچھے رہ جانے والے انتظار کرتے ہیں؟ بھیگی ہوئی سرخ روش باغ کے درمیان میں چھوٹے سے چیپل کی طرف لے گئی۔ اندر یسوع مسیح کا مجسمہ گرد میں ڈھکا چپ چاپ پودوں کے درمیان ایستادہ تھا۔ تکونی چھت جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھی ۔ مگر اوپر دائرے میں بنی دیوار پر لگے رنگین شیشے بتا رہے تھے کہ اپنے وقتوں میں اس عمارت کا رعب اور رونق ہی اور ہوگی۔ چیپل سے نکل کر کونے میں خرگوشوں کا پنجرہ تھا۔ مگر پچاس برس سے جب کوئی یہاں رہا ہی نہیں تو خرگوش کس کے آسرے وہاں پھدکتے ۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ اور سناٹے میں مقدس مریم کا مجسمہ کسی الوہی اور ابدی سکون کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

میں نے اداسی سے مسکرا کر سوچا۔کیا ہوجائے اگر تنہائی اور فراق کے سناٹے کو ابدی سکون سمجھ لیا جائے ؟ مگر دل میں ٹیسیں اٹھتی رہیں۔ دور کسی حویلی کے کواڑ تیز ہوا سے کھلتے اور بند ہوتے رہے۔ کھڑکیوں کے پٹ شور مچاتے رہے۔ چھت پر بندھی الگنی سے کپڑے اڑ اڑ کر مٹی میں گرتے رہے۔صحن کے تخت پر کوئی سر نیہوڑائے بیٹھا تھا۔ اور اندر کمرے میں کوئی فرش پر بچھی پلاسٹک پر گاؤ تکیے لگائے پان لگاتا رہا اور بڑبڑاتا رہا۔۔

” کسی کو توفیق نہیں کہ کواڑ بند کرکے کنڈی لگادے۔ چھت سے کپڑے اتار لائے ، نالی سے پتے ہٹا دے۔ ابھی تیز بارش ہوگی تو سارا پانی چھت پر کھڑا ہوجائے گا۔ ذرا نہیں خیال آتا کہ جنریٹر کو کھینچ کر اور اندر لے آئیں ، کہیں پانی کی بوچھاڑ سے بھیگ نہ جائے۔“
گلی میں بچے بارش میں بھیگ رہے تھے مگر پیلی اور سبز دیواروں والی اس حویلی میں کوئی بچہ نہ تھا، جو باہر دوڑ کر جاتا اور بارش میں سائیکل چلاتا۔ وہاں تو چھوٹے سے کمرے میں مسہری پر کوئی میری ڈائری اور میری کتابیں دیکھ رہا تھا۔
دل کے صحن میں گیت بلند ہونے لگتے۔

اسے مکمل کر بھی آؤ، وہ جو ادھوری سی بات باقی ہے۔
اسے میسر کر بھی آؤ، وہ جو دبی سی آس باقی ہے۔

دل دماغ پر کون سا خمار طاری کرتا ہے کہ تصورات امیدوں اور خودساختہ فرائض کا سارا نصاب سارا جہاں تعمیر کردیتا ہے۔

میں کہہ رہی ہوں کہ مجھے ایسا لگا تھا کہ وہاں یہ سب ہورہا ہے ۔۔ مگر جب میں جدید عمارتوں اور بیش قیمت گاڑیوں اور خود کار مشینوں والی دنیا کو چھوڑ کر گھومتی ہوئی تنگ گلیوں سے ہوتی جھروکوں اور محرابوں والی حویلی میں پہنچی تو وہان کوئی نہ تھا۔ خاک اڑ رہی تھی۔ ادھ کھلے کواڑوں کے پیچھے تاریک خاموش کمروں میں ماضی پرانی چادر اوڑھے سو رہا تھا۔ دیواروں سے پیلا اور سبز رنگ اور پلستر اکڑ رہا تھا۔ برآمدے میں پرانے تخت کے پاس ایک پرانی سلائی مشین مٹی میں اٹی رکھی تھی۔ سنگھار میز ، تپائی، اور نعمت خانوں میں کچھ نہ تھا۔ چھت پر بادام کے پتے اور کبوتروں کی بیٹ بکھری تھی۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ گھمبیر خاموشی میں ماضی کے سائے سرگوشیاں کررہے تھے۔

یہاں کے رہنے والے اندرون شہر چھوڑ کر نئی بستیوں میں جابسے تھے۔ بڑی حویلی میں مل کر رہنے والے اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے مگر روشن ہوا دار جدید سہولیات سے سجے مکانوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ چھوٹے تنگ بازاروں میں آنے والی “جنٹری” ہی اور تھی، وہاں اب کون جاتا ہے؟ ہر علاقے میں نئے ائر کنڈیشنڈ مالز کھل گئے ہیں۔ گھر بدل گئے، بازار بدل گئے۔ پرانے علاقے اپنی یادوں کے ساتھ مخدوش، بدحال اور عجیب ان جانے چہروں میں آخری سانسیں لے رہے ہیں۔

کسی کے پاس کسی کی یاد میں پرانے خط پڑھنے اور کسی کی ڈائریاں کھولنے کا وقت نہیں ہے۔ مصروف صرف میں نہیں اور سب بھی ہیں۔ نئے زمانے کی ٹرین ان سب نے بھی پکڑنی ہے۔
اٹھارویں صدی کی اس سنسان کوٹھی کئی طرح ، یہ حویلی بھی بوسیدہ اور مخدوش ہو کر خالی ہوگئی تھی۔ تخت پر گھٹنوں میں چہرہ چھپائے بیٹھا وجود، پان کی گلوری بناتا اور مسہری پر میرے خط پڑھتا شخص بھی محض ماضی کی پرچھائیں تھا۔ تنگ گلیوں سے نکل آؤ تو سڑک پر جدید طرز کی نئی پرانی گاڑیاں نظر آتی تھیں۔ گلی میں چلنے والوںُ کے کانوں اور مٹھیوں میں گیجٹس تھے اور ان کے گھروں کی دیواروں اور میزوں پر اور تکیوں کے نیچے بھی گیجٹس دھرے تھے۔ کواڑوں کے سروں اور راہداریوں کے کونوں سے جھانکتی تاریکی نے میرا مذاق اڑا کر کہا کہ تم سمجھتی ہو کہ کچھ لوگ تمہارے انتظار مین وہیں ، اسی جگہ پر اپنی زندگی کی باگیں کھینچے کھڑے رہیں؟ کوئی کسی کے لیے کیوں رکے؟ اور کب تک ٹھہرے؟

مجھے نہیں پتہ مجھے دکھ ہورہا تھا یا اطمینان کہ کوئی میرا منتظر نہیں رہا تھا۔ مگر کچھ ایسا تھا جیسے کبھی کبھی اینٹی ڈیپریسںنٹ لینے والے مریض شکایت کرتے ہیں ۔ پہلے تو اداسی اور غم کا کرب تھا، مگر یہ اب کیا ہورہاہے ؟ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ ذہن جیسے خلا میں ہے ہر احساس سے عاری اور یہ اداسی سے زیادہ کرب ناک کیفیت ہے۔ مجھے اسی لیے سائیوں کو کھوجنے سے ڈر لگتا تھا۔ grief یا سوگ کے ابتدائی مراحل میں مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ کس بات کی خلش زیادہ تکلیف دہ تھی؟ کسی سے جدا ہوجانے کی شرمندگی ، یہ کسک کہ کوئی میری وجہ سے ادھورا ہے ، یا اس آگہی کا کرب کہ کوئی منتظر ہے نہ ادھورا ۔۔۔ مگر حزن کے کچھ ادوار گذار لینے کے بعد مجھ پر یہ القا ہوا ہے کہ دل تو ہے ہی شاخ نہال غم۔ درد ہی اسے سینچتا ہے۔ خلش ہی اسے زندگی کی حرارت بخشتی ہے۔ بے قراری اسے پھڑکتا دھڑکتا رکھتی ہے۔ درد سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے دوستی کر لی ہے تو سمجھ میں آنے لگا ہے۔

حسن محو رنگ و بو ہے عشق غرق ہائے و ہو
ہر گلستاں اس طرف ہے ہر بیاباں اس طرف

اور

عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
بستیاں نکلیں جنہیں ویرانیاں سمجھا تھا میں

غوثی شاہ نے سمجھایا

ڈھونڈھ ہے جن کی انہیں کے ہی تو کاشانہ میں ہے
بے خبر ہشیار ہو اب ان کا تو کاشانہ بن
دیکھ پھر اس کے یگانہ بن کے جلوے آپ میں
یار سے ہو جائے گا نہ آپ سے بیگانہ بن