ہوم << اسلامی قانون سازی پر چیخ و پکار کیوں؟ مجذوب مسافر

اسلامی قانون سازی پر چیخ و پکار کیوں؟ مجذوب مسافر

مجذوب مسافر قانون (Law) کسی بھی ریاست کے باشندوں کو معاملات زندگی میں کچھ خاص حدوں کے اندر رکھنے، ان حدوں کے ٹوٹنے پر پیدا ہونے والی خرابی کی اصلاح کرنے اور آئندہ ایسی کسی بھی انسانی کوشش سے بچنے کے لیے بنایا جاتا ہے. اصل مقصد معاشرے کو محفوظ و مامون بنانا ہوتا ہے اور اگر قوانین موجود نہ ہوں یا موجود تو ہوں لیکن ان کا عملی نفاذ نہ کیا جائے تو معاشرے میں ایسی انارکی پھیلے کہ انسانی زندگی کسی جہنم میں جلتی محسوس ہونے لگے-
ریاست کا قیام، قانون سازی اور قوانین کے اطلاق یا نفاذ کا کام انسانی تاریخ میں بے شمار بار انجام پایا ہے. چینی، مصری، یمنی، یونانی، رومی، فارسی، سندھی، میسو پوٹیمیا اور بابل حتی کہ انکا اور استھک تہذیبیں، ہر ایک کے ہاں ریاست اور قانون سازی اور قانون کا نفاذ پوری طرح پایا جاتا تھا. دور جدید میں تو شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں ریاست کا وجود نہ ہو اور وہاں قانون سازی نہ ہوتی ہو. دور حاضر کی طاقتور ریاستیں مثلا امریکہ، چین، روس، جاپان، سیکنڈے نیویا وغیرہ یا پھر نسبتا پسماندہ ریاستیں مثلا وسطی افریقہ اور لاطینی امریکا کے بعض ممالک، سری لنکا، نیپال و بھوٹان جیسی ریاستیں بھی، سب کی سب یہ کام کرتی ہیں اور اپنے اپنے معاشرے کو کسی بھی قسم کی انارکی سے بچانے کے لیے مختلف قسم کی سزائیں جن میں سزائے موت تک شامل ہے' دیتی ہیں. بلکہ سزاؤں کے نفاذ کے بغیر تو یہ زیادہ عرصہ وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکیں گی. یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ان متذکرہ ریاستوں میں قانون سازی کا کام عموما عقل انسانی پر بھروسہ کر کے کیا جاتا ہے گو ان ریاستوں کے اکثریتی مذاہب، ان کی ثقافت اور کچھ تاریخی عوامل بھی اس میں اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں-
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دور قدیم یا جدید کی اکثر و بیشتر قوموں نے اگر اپنی اپنی ریاست کی تشکیل کی ہے، اس میں قوانین بنائے اور ان کا نفاذ کیا ہے اور ہر کوئی اسے عام سی بات (Routine) سمجھتا ہے لیکن جوں ہی اسلام، اسلامی ریاست، اسلامی نظام یا اسلامی قوانین کی بات ہو تو بہت مسلمان اور غیر مسلمان افراد، ادارے اور حکومتیں چیخ و پکار کیوں شروع کر دیتی ہیں؟ ایسی کسی بھی آواز کو دبانے کے لیےاپنے اپنے وسائل اور ہتھیار لے کر میدان میں کیوں نکل آتے ہیں؟
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ افراد، ادارے اور حکومتیں، اپنی اپنی نیت کے لحاظ سے، اسلام کے مجموعی نظام تعلیم و تربیت، نظام معیشت، نظام سیاست اور نظام عدل وغیرہ کو بالکل پرے چھوڑ کر، قرآن و سنت میں بیان کی گئی چند سخت سزاؤں مثلا رجم، قطع ید، قصاص وغیرہ کو لے کر اسلام اور اسلامی ریاست کو زیر بحث لاتے ہیں اور یوں اپنی غلط فہمی یا بدنیتی کو آگے بڑھاتے کا ذریعہ بنتے ہیں. ایسی بحث خواہ کوئی مسلمان کرے یا غیر مسلم' اچھی نیت سے کرے یا بری نیت سے، در حقیقت اسلام کے ساتھ کھلی زیادتی ہے. کسی بھی معاملے میں اسلام یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات کو زیر بحث لانے کے لیے تین بنیادی حقائق کو ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے یعنی:
١- اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو تخلیق کیا اور ان سے نسل انسانی کا آغاز کیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پھیلتی گئی. اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص جسمانی ساخت (Anatomy) عطا کی اور اس کے اعضاء کو کچھ مخصوص اعمال (Physiology) کا پابند کیا. اسے ایک دماغ دے کر اس میں غور فکر (Power of Intellect) اور ایک دل دے کر اس میں جذبات (Emotions) کی تخلیق کی. یوں انسان کی شخصیت (Personality) وجود میں آئی جو اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر وجود میں آنے والی اجتماعی زندگی میں بھی کچھ مخصوص رویوں (Psychology & Behaviors) کا اظہار کرتی ہے؛
٢- اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے تحت انسان کی انھی جسمانی خصوصیات، ذہنی اور قلبی کیفیات اور شخصیاتی نفسیات کے مطابق کرۂ ارض (Earth) کی تخلیق کی اور اس پر انسان کو قیام کے لیے اتار دیا اور ساتھ ساتھ ایک "دین" یعنی اس کرۂ ارض پر زندگی گزارنے کا اصول، ضابطہ، طریقہ' اورانداز بھی بتا دیا. اس اصول پر عمل کے نتیجے میں ہونے والے فوائد اور اس سے روگردانی کے نقصانات سے بھی آگاہ کر دیا؛
٣- یہ اصول، ضابطہ، طریقہ اور انداز دراصل "اسلام" ہے جو کہ ایک "دین" ہے کیونکہ یہ انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی، ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے مثلا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، جسمانی ضروریات کی تکمیل، انفرادی و اجتماعی رسوم و عبادات، خاندانی، معاشرتی، قانونی، تجارتی، تعلیمی، فنون لطیفہ، سائنس و ٹیکنالوجی، حکومتی، سیاسی اور دفاعی معاملات وغیرہ. الغرض انسان اور انسانی گروہوں کو زندگی میں جس جس معاملہ یا چیز سے سابقہ پڑتا ہے، وہاں وہاں تک دین کا دائرہ عمل موجود ہوتا ہے اور یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے؛
یوں انسانی زندگی کا آغاز براہ راست اللہ کی ہدایت یعنی ایک خاص اصول یعنی "دین" کے تحت ہوا جسے ہم اسلام کہتے ہیں-
حضرت آدم (ع) اور حوا سے شروع ہونے والی نسل انسانی جب صرف افراد سے بڑھ کر خاندانوں اور قبیلوں اور پھر علاقائی ریاستوں کی شکل اختیار کرنے اور پھیلنے لگی تو انسانی فطرت کی کمزوریوں اور شیطان کی حیلہ سازیوں کے سبب انسان اور انسانی گروہ اللہ کی دی ہوئی اصل ہدایت کو بھی بھولنے، چھوڑنے یا اس سے دور ہونے لگے. یوں اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ انبیاء و رسل شروع کیا جو مختلف علاقوں، قبیلوں اور ریاستوں میں آتے اور انھیں اصل ہدایت (اسلام) کی یاددہانی کرواتے تاکہ اولاد آدم ایک بار پھر سے اپنے اللہ سے جڑ جائے، اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کی صورت گری اللہ کی ہدایت کی روشنی میں کریں اور اس کرۂ ارض پر امن و سکون، ترقی و خوشحالی، محبت و رحمت پھیلے اور انسان پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو انسانی تمدن کی ترقی پر صرف کر سکے. یہ سلسلۂ نوح، ابراہیم، لوط، اسحٰق و اسماعیل اور داؤد و سلیمان (علیہم السلام) وغیرہ سے ہوتا ہوا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا-
چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللهہکے آخری نبی اور رسول تھے لہذا قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رہنمائی بھی ان کے ذمہ تھی. اس کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے اس طرح کیا کہ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات مثلا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، جسمانی ضروریات کی تکمیل، انفرادی و اجتماعی رسوم و عبادات، خاندانی، معاشرتی، قانونی، تجارتی، تعلیمی، فنون لطیفہ، سائنس و ٹیکنالوجی، حکومتی، سیاسی اور دفاعی معاملات وغیرہ کے لیے اصولی ہدایات دے دیں جو قرآن و سنت کی صورت آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہیں. اس کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے انسانوں کو اللہ کی ہدایت کی طرف بلانے کی ذمہ داری کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کاروں کا اصل فرض قرار دے دیا-
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتے پہنچتے چونکہ انسانی تمدن اس مقام پر پہنچ چکا تھا کہ آئندہ کے لیے اس کی زندگی ایک منظم ریاست یا حکومتی نظام کے بغیر ناممکن ہو چکی تھی یا ہونے والی تھی لہذا یہ ناممکن تھا کہ انسانی زندگی کے اس انتہائی اہم معاملے کو نظرانداز کر دیا جاتا، لہذا ہدایت الہی کے تحت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی تربیت کے ذریعے ایک اعلی اخلاق کی حامل اجتماعیت تشکیل دی اور پھر "مدینہ" میں ایک منظم ریاست قائم کی. اس ریاست کا نظم و نسق عین اللہ کی ہدایت کی روشنی میں چلایا اور اس کے شہریوں کو امن و سکون، عدل و انصاف، تعلیم و تربیت اور معاشی مواقع الغرض ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی.
قانون (Law) کسی بھی ریاست کے باشندوں کو معاملات زندگی میں کچھ خاص حدوں کے اندر رکھنے، ان حدوں کے ٹوٹنے پر پیدا ہونے والی خرابی کی اصلاح کرنے اور آئندہ ایسی کسی بھی انسانی کوشش سے بچنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، اصل مقصد معاشرے کو محفوظ و مامون بنانا ہوتا ہے. محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ریاست مدینہ اور اس کے شہریوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے اللہ کے عطا کیے ہوئے قوانین کا، اللہ ہی کی ہدایت کی روشنی میں اطلاق کیا، جہاں ضرورت محسوس ہوئی ایک پورا نظام عدل بروئے کار آیا اور جرم ثابت ہونے پر مجرموں کو رجم، قطع ید اور قصاص وغیرہ جیسی سزائیں دی گئیں. اب فرض کریں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم قانون کا نفاذ نہ کرتے یا پھر محض اپنی یا اپنے جیسے انسانوں کی عقل پر ہی بھروسہ کر کے یہ کام کرتے تو کیا نتائج نکلتے؟ جواب بلکل سادہ اور واضح ہے: یعنی کسی قانون کی غیرموجودگی میں رفتہ رفتہ ایک ایسی افراتفری کی فضا پیدا ہوتی کہ جس کا جو جی چاہتا کرتا پھرتا، فتنہ (Anarchy) پھیلتا، لوٹ مار ہوتی اور انسانی خون بہتا. نتیجے کے طور پر مدینہ کی ریاست اپنا وجود برقرار رکھ سکتی نہ اس ریاست کے باشندے کسی بھی صورت کوئی بہتر زندگی گزار سکتے تھے. دوسری چیز یہ کہ ظاہر ہے اللہ نے ہی انسان کو تخلیق کیا ہے اور وہی اس کی حسیات، کیفیات، جذبات اور نفسیات سے واقف ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس کے لیے کیسا طرز عمل درست ہے اور کون سا طرز عمل غلط لہٰذا اس ریاست کے باشندوں کی زندگیوں کو معمول پر رکھنے (Regulate) کے لیے جو قوانین اس نے عطا کیے وہی درست ثابت ہو سکتے تھے اور ہوئے بھی-
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور پھر آنے والی صدیوں میں جہاں بھی مسلمانوں کو موقع ملا، انہوں نے ریاستی قوانین کی تشکیل کم و بیش اللہ کی ہدایت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنت کو مدنظر رکھ کر کرنے کی کوشش کی. آج بھی صاحب علم مسلمانوں کو تو چھوڑیں' ایک عام سا گناہگار مسلمان بھی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں اپنی ریاست کی تشکیل اور اس میں قانون سازی کے ذریعے دنیا میں علمی و ادبی، معاشی، سائنسی و دفاعی شعبوں میں ترقی اور آخرت میں رضائے الہی و رضائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کا خواب دیکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر قرون اولیٰ میں اس راستے سے کامیابی مل سکتی ہے تو اب کیوں نہیں؟
تو پھر اسلام، اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کے خلاف اتنا واویلا کیوں؟
دراصل کسی اسلامی ریاست میں قانون کا اصلی ماخذ ہدایت الہی ہے جس کی عملی صورت گری محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھائی اور جس کے نتیجے میں امت مسلمہ نے ایک ایسا عالمگیر غلبہ حاصل کیا جو اگلے کم و بیش ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جاری رہا. رضائے الہی کی امیدوار امت مسلمہ مدینہ کی چھوٹی سی ریاست میں اللہ کے احکام کو جاری و ساری کرکے انسانی عدل، مساوات، ترقی، خوشحالی اور محبت کا وہ ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوئی کہ جس کی کشش اور اثر سے جلد ہی اس کا غلبہ و اقتدار زمین کے وسیع رقبے پر ہی نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی اتر گیا اور وہ اللہ سے روشناس ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے-
آج کے دور میں اسلام بیزار مسلمانوں اور غیر مسلموں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ وہ شدید خوفزدہ ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بار پھر کوئی اسلامی ریاست وجود میں آ گئی اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ قائم ہوگیا جس میں قانون سازی ہدایت الہی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہونے لگی تو ایسا معاشرہ دنیا میں انسانی ترقی و خوشحالی کی علامت بن کر ے گا اور اسے دیکھ کر دنیا اپنے خالق کی طرف رجوع کرنا شروع ہو جائے گی-
یہ لوگ اپنے اس خوف کا اظہار تو نہیں کر سکتے لہذا وہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی ریاست، اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کی ایسی بھیانک شکل لوگوں کے سامنے پیش کریں کہ لوگ ان کا نام سنتے ہی بدک اٹھیں. بدقسمتی سے بہت سے نیک طینت مسلمان اور غیرمسلم لوگ اس گروہ کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں. اوپر سے بہت سے افراد اور تنظیموں نے بوجوہ یا پھر کسی ردعمل میں اسلام، اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کا جو عملی نقشہ دنیا کے مختلف خطوں میں پیش کیا ہے، اس نے بھی اسلام بیزاروں کو ایک حد تک اسلامی قوانین اور پھر اسلام اور اسلامی ریاست و نظام کو ہی ظالمانہ قرار دینے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے.

Comments

Click here to post a comment