ہوم << ڈاکٹر تابش مہدی : ایک قلندر مزاج شاعر تھا ، نہ رہا - محمد علم اللہ

ڈاکٹر تابش مہدی : ایک قلندر مزاج شاعر تھا ، نہ رہا - محمد علم اللہ

شیش محلوں میں تابشؔ کو مت ڈھونڈیے
اس قلندر کے گھر کا پتا اور ہے
---
دیر تک مل کے روتے رہے راہ میں
ان سے بڑھتا ہوا فاصلا اور میں
---
بہت بے رحم ہے تابشؔ یہ دنیا
تعلق اس سے تم گہرے نہ رکھنا
---
مرا دشمن مرے اشعار سن کر
نہ جانے آج کیوں رویا بہت ہے
---
مرے خدا مرے شعروں کو زندگی دے دے
ہر ایک شعر پہ مانگی ہے یہ دعا میں نے

ایسے خوبصورت اشعار کا خالق، قلندر مزاج شاعر ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کے انتقال کی جب خبر ملی تو دل مغموم ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر ان کی یادوں اور خدمات کا تذکرہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ کتنے خورد نواز اور مہربان انسان تھے۔ تابش مہدی صاحب کا شمار اردو کی اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے ادب کی دنیا میں گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ زود گو شاعر، بہترین ادیب، مایہ ناز مدیر، اور ایک غیر معمولی قلم کار تھے۔ ان کی تحریری صلاحیتوں اور اصلاحی رویے نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو سنوارا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تابش مہدی صاحب نے اپنے قلم کی تاثیر سے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو شاعر اور ادیب بنایا۔ ان سے اصلاح لینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کے چاہنے والوں کی ایک طویل فہرست وجود میں آئی۔ کئی نامور افراد، بشمول مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، ان پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ ایک بار، فجر کی نماز کے بعد بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ مولانا علی میاں کی بیشتر کتابوں کی پروف ریڈنگ اور نظرثانی انہوں نے خود کی تھی، اور علی میاں کو ان پر مکمل بھروسہ تھا۔ یہ ان کی قابلیت کا زندہ ثبوت ہے۔

تابش مہدی صاحب کی سب سے منفرد بات ان کا شاگردوں کے ساتھ تعلق تھا۔ ان کے شاگردوں کی تعداد پورے ہندوستان میں ہزاروں سے زیادہ ہوگی۔ وہ ہر ایک کو رہنمائی فراہم کرتے، کبھی کسی کی درخواست کو رد نہ کرتے۔ لیکن اصولوں کے معاملے میں سخت گیر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں ادب اسلانی کے تحت ایک طرحی مشاعرہ ہو رہا تھا۔ بحیثیت شاعر میں بھی شریک تھا اور تابش صاحب صدارت فرما رہے تھے۔ بزرگ شاعر عبد الباری شبنم سبحانی نے اپنی غیر طرحی غزل سنانے کی کوشش کی تو تابش صاحب نے سختی سے کہا، "یہ طرحی نشست ہے، اس میں صرف طرحی غزل ہی پیش کی جا سکتی ہے۔مجبورا شبنم سبحانی صاحب کو بغیر کچھ پیش کیے واپس اپنی جگہ پر بیٹھنا پڑا" یہ ان کے اصولوں کی پاسداری کا بہترین مظاہرہ تھا۔ بعد میں میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب، کیا حرج تھا؟ بزرگ تھے، پیش کرنے دیتے، تو کہنے لگے، "پھر ان نوجوانوں کا کیا جو اتنی محنت سے غزل کہہ کر لائے تھے۔"

وہ اصولوں کے اتنے پابند تھے کہ غیر موزو ں اشعار کو اسٹیج پر بھی ٹوکنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح انھیں نبی اکرم ﷺ سے خصوصی محبت تھی۔ بغیر وضو اور سرڈھکے بغیر نعت پڑھنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ کئی لوگ ان کے اس رویے کو نا پسند کرتے تھے، لیکن ان کا یہ اپنا ایک انداز تھا اور خوب تھا۔ تابش مہدی صاحب ادارت کا کام بہت اچھا کام کرتے تھے، ان کے کچھ نمونے میں نے فاروس میڈیا ہاؤس میں دیکھے۔ ایک کتاب "قیدی نمبر سو" انھوں نے بڑی محنت سے ایڈٹ کی تھی، اور مصنف کے تُک بندی اور انتہائی گھٹیا اشعار کو بھی انھوں نے بڑی محنت سے وزن میں لایا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب ان کے انداز کو بہت پسند کرتے تھے، مگر انہیں صرف ان کے جدید املا سے چڑ تھی۔ ڈاکٹر ظفر صاحب روایت پسند ہیں اور پرانے املاء کو بدلنا بالکل پسند نہیں کرتے، جب کہ تابش مہدی صاحب پوری دلیری سے وہ بدل دیتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے بعد کے دنوں میں انھوں نے ان سے خدمات لینا بند کر دیا تھا۔ مہدی صاحب جب بھی ملتے، ڈاکٹر صاحب کا ذکر خیر کرتے اور کہتے، "آپ اچھی جگہ چلے گئے ہیں، بیٹے۔" ۔

تابش مہدی صاحب کا رویہ ہمیشہ محبت اور شفقت سے لبریز ہوتا۔ اکثر مشاعروں میں نوآموز شاعروں کو اپنی غزلوں پر اصلاح دیتے اور انہیں بہتر بنانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے۔ وہ نہ صرف ایک عمدہ قاری تھے بلکہ ہمیشہ اپنی رائے کا اظہار بڑی محبت سے کرتے۔ جماعت اسلامی ہند کے تحت چلنے والے اسلامی اکیڈمی میں وہ قرات کی کلاس لینے آتے تو اکثڑ ملاقات ہو جاتی، بڑی ہی محبت سے ملتے اور شفقت کا اظہار فرماتے۔ اگر میں کچھ دنوں تک ان کو اپنی تحریریں نہ بھیجتا تو واٹس ایپ پر میسیج کرتے، "بیٹے، آج کل آپ کچھ لکھ نہیں رہے کیا؟" ان کی باتوں میں شفقت اور خیر خواہی ہمیشہ جھلکتی تھی۔

ایک مرتبہ ماہنامہ "پیش رفت" میں میری ایک غزل چھپی، مجھے معلوم تھا کہ غزل ان کی نظر سے گذری تھی اور چند اشعار انھوں نے تبدیل کیے تھے۔ جب رسالہ شائع ہو گیا تو بالکل انجان بنتے ہوئے انھوں نے مجھے ایک میسیج واٹس ایپ پر کیا اور لکھا، "بیٹے، آپ کی غزل 'پیش رفت' پر نظر نواز ہوئی، بڑی خوشی ہوئی، لکھتے رہیے، آپ سے بڑی امیدیں ہیں۔" میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ، لیکن انجان بنتے ہوئے کہا، "آپ دیکھ لیتے تو اچھا رہتا۔" تو کہنے لگے، "نہیں بیٹے، آپ اچھا کہتے ہیں، بس کہتے رہیے۔"

تابش مہدی صاحب کہا کرتے تھے، "کوئی بھی لکھنے والا اس وقت تک اچھا قلم کار نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کے اندر شاعری کا ذوق نہ ہو۔" وہ نوجوانوں کو حوصلہ دلانے کے لیے مولانا آزاد، مولانا مودودی، شورش کاشمیری، اور ماہر القادری جیسے عظیم قلم کاروں کی مثالیں دیا کرتے اور کہتے تھے، "ان سب نے شاعری سے ہی لکھنے کی ابتدا کی تھی۔" ان کی باتوں سے ہمیشہ حوصلہ اور تحریک ملتی۔ جب میں برطانیہ آیا تو انہوں نے مجھے ایک خط لکھا اور مبارکباد دی۔ یہ ان کی محبت اور شفقت کا ایک اور خوبصورت پہلو تھا۔

غرور و تمکنت میں ڈوبے ہوئے ان لوگوں کو تابش مہدی صاحب جیسے لوگوں کی زندگی سے سبق لینا چاہیے جنھوں نے ہزاروں لوگوں کی تربیت کی۔ ابھی ہمارے گاؤں کی مسجد کا امام فون کرکے کہنے لگا، علم اللہ بھائی میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے مجھے تابش مہدی صاحب کا پتہ دیا تھا جب میں اپنی نعت کسی کو دکھانا چاہتا تھا۔ ہمارے یہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو جونئر کے کام کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور کئی مرتبہ ان کی ہمت شکنی کرتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہاں جھارکھنڈ کا دور دراز نواحی علاقہ اور کہاں دہلی۔ کہاں ایک کٹر قاسمی اور کہاں تحریک اسلامی کا پروردہ تابش مہدی، لیکن آج ان کے مرنے وہ بھی غمزدہ ہے۔ تابش مہدی صاحب کی زندگی کا ہر پہلو مثالی تھا۔ وہ خردنواز، اصول پسند، اور ادب کے سچے عاشق تھے۔ ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انسان تو فانی ہے، لیکن اس کی خوبیاں اور خدمات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔