ہوم << مخلص دوست ڈاکٹر تابش مہدی بھی چل بسے - محمد غزالی خان

مخلص دوست ڈاکٹر تابش مہدی بھی چل بسے - محمد غزالی خان

’ آپ مجھے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ آپ کے خاندان کے تمام ممبر مجھے یاد رہتے ہیں ، دعائیں خود بخود نکلتی ہیں۔‘ تابش مہدی صاحب کا یہ پرانا میسیج میرے ہی نہیں ہمارے پورے گھرانے سے ان کے تعلق کا ایک ثبوت ہے۔

سن 1983 میں جن دنوں میں علیگڑھ میں طالب علم تھا ، شمشاد مارکیٹ میں ایس آئی ایم (یا سیمی) کی بک شاپ میں ایک دلچسپ کتاب ، ’تبلیغی نصاب – ایک مطالعہ ‘ پر نظر پڑی۔ میں نے ایک دو دیگر کتابوں کے ساتھ یہ کتاب بھی خریدلی اور وی ایم ہال کے نصراللہ ہاسٹل میں اپنے کمرہ نمبر 25 میں آکر اسے پڑھنے لگا۔ مصنف کے بارے میں یہ دیکھ کرعجیب سی خوشی کا احساس ہوا کہ ان خیالات کے حامل کتاب کے مصنف کا تعلق ہمارے اپنے قصبے دیوبند سے تھا۔ تابش صاحب کا آبائی وطن تو پرتاپ گڑھ تھا مگر مولانا عامر عثمانیؒ کی ادارت میں نکلنے والے معروف رسالے ’تجلی‘ سے وابسطہ ہونے کے بعد وہ دیوبند کے ہی ہو کر رہ گئے تھے اور وہیں ان کی شادی بھی ہوئی۔ عامر عثمانی کے انتقال کے بعد بھی انھوں نے ’تجلی‘ کے کئی شمارے بھی ترتیب دئے تھے اور جنہیں ویسی ہی پذیرائی ملی تھی جیسی عامر عثمانی صاحب کے رسالے کو ملتی تھی۔

انھیں دنوں چھٹیوں میں جب میں دیوبند گیا توان سے ملاقات کا منصوبہ بنایا ، میرے نزدیکی دوست، روم پارٹنر، بی اے سے ایل ایل بی تک کلاس فیلو اور اب سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سید وسیم احمد قادری بھی ساتھ تھے۔ اگلے روز تابش صاحب کا پتہ معلوم کرکے ہم ان کی رہائش گاہ پرملاقات کے لئے پہنچ گئے۔ موبائل فون تو کیا اس وقت ٹیلی فون بھی صرف بڑے بڑے تاجروں کے یہاں ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا ہم بغیر اطلاع کئے ان کے گھر پر وارد ہوگئے۔ گھر کے باہر ہی ایک بچہ مل گیا جس نے اند رجا کر بتایا کہ کوئی تابش صاحب سے ملنے آیا ہے۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا اور انہیں کتاب کے لئے مبارکباد دی۔ تابش صاحب تو یوں بھی نہایت ملنسارشخص تھے فکری تعلق کی وجہ سے ان کی گرمجوشی میں اضافہ ہونا لازمی تھا۔ اس وقت وہ کسی کام میں مصروف تھے، شام کے کھانے کے لئے اصرار کرنے لگے تو میں نے کہا کہ ہم دونوں کچھ دن دیوبند میں ہی ہیں۔ تکلف کی کوئی بات نہیں۔ بہرحال ضد کرکے میں نے اسی دن شام میں اپنے یہاں آنے کی زحمت دے دی، جو انہوں نے منظور بھی کرلی۔

پہلی ہی ملاقات میں دل کھول کر باتیں ہوئیں اور وہ دن اور مرحوم کے آخری سانس تک ان کا مجھ سے اور ہمارے گھرانے سے، بالخصوص میرے چھوٹے بھائی جمالی خان سے خاص تعلق رہا۔ جس سال ، یعنی 1983 میں ہی میں لندن آگیا تھا۔ یہیں غالباً1984 میں ان سے دوسری ملاقات ہوئی جب وہ یو کے اسلامک مشن کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے تھے اور اپنے کلام اور مخصوص ترنم سے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔

پھر مجھ سے کافی عرصہ تک ان کا رابطہ نہ ہوسکا۔ اس کے بعد وہ ایک دو مرتبہ برطانیہ آئے مگر ملاقات نہ ہوسکی۔ یہ بھی عجیب اتفاق رہا کہ میرا جب بھی ہندوستان جانا ہوتا وہ ہر مرتبہ سفر میں ہوتے اور ملاقات نہ ہوپاتی۔ واٹس ایپ آنے کے بعد ان سے مستقل تعلق رہا مگرآخری ملاقات صرف تین سال قبل دہلی میں ہوپائی تھی۔

اس مرتبہ دسمبر 2024 میں جب دیوبند جانا ہوا تو یہ ارادہ کرکے گیا تھا کہ ان سے ملاقات ضرور کروں گا مگر دیوبند پہنچتے ہی ان کی خرابی طبیعت کی اطلاع مل گئی ۔ 24 دسمبر کو لندن واپسی کے لئے دہلی آیا تو اسی رات چچاجان حافظ محمد یوسف خان (سابق پروفیسر شعبہ عربی) کا انتقال ہوگیا جس کے باعث مجھے پھر دیوبند لوٹنا پڑا۔29 دسمبر کو دہلی پہنچا تو نزلے اور کھانسی نے پکڑ لیا۔ اس خیال سے کہ نزلہ کسی اور کو نہ لگ جائے میں نزلے میں کسی سے بھی ملنے سے خود ہی سخت پرہیز کرتا ہوں، اس حالت میں انتہائی نگہداشت میں زیر علاج ایک مریض سے ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا انتہائی مخلص دوست سے آخری ملاقات سے بھی محروم رہا۔ ان کی طبیعت سے متعلق جو خبریں مل رہی تھیں ان سے کسی بھی خبر کا اندیشہ تومستقل لگا ہوا تھا پھر بھی آج جب معصوم مرادآبادی صاحب کی پوسٹ پر نظر پڑی تو مجھے سخت جھٹکا سا لگا۔

تابش صاحب نے بڑے بڑے اداروں میں بہت بڑے بڑے مصنفوں اور عالموں کی کتابوں کو ایڈٹ کیا۔مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی اور مجلس نشریات اسلام، لکھنؤ کی سیکڑوں کی نظرثانی کی اور انھیں سجایا ، سنوارا ۔ شاعر تو وہ اچھے تھے ہی نثر نگاری میں بھی اپنا جواب نہیں رکھے تھے اور ان کی اسی صلاحیت کے باعث ان سے بڑے بڑے علماء اور پروفیسر حضرات اپنی کتابیں ایڈٹ کرواتے اور ان پر اعتماد کرتے تھے۔ ’ تبلیغی نصاب – ایک مطالعہ‘ کے پہلے ایڈیشن میں ان کی زبان میں نوجوانی کا اثر صاف جھلکتا ہے مگر بعد میں ان کا انداز یکسر بدل گیا تھا۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے کتاب کے پہلے ایڈیشن کا نام بھی ’تبلیغی نصاب کا ایکسرے‘ تھا جسے انہوں نے بعد میں تبدیل کردیا تھا۔

میرے ذہن میں ایک عرصے سے ایک دو کتابیں ہیں جن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہوں اور سوچتا تھا کہ انہیں تابش صاحب سے ہی ایڈٹ کرواؤں گا مگر میری کاہلی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ بہر حال میری خوش قسمتی تھی کہ مرحوم میری تحریریں پسند کرتے تھے۔ میرے بلاگ پر نواز دیوبندی کے انٹررویو اور پروفائل پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا: ’آج میں نے اپنے مخلص ڈاکٹر نواز دیوبندی کے ساتھ پوری گفتگو پڑھی -بہت جی خوش ہوا-آپ کے حسن انتخاب اور نوازبھائی کے موثر جواب نے متاثر کیا۔ آپ انڈیا کب تک تشریف لائیں گے؟گھر میں بھابھی کوسلام اور بچوں کو دعا۔‘

عجیب بات ہے کہ مرحوم سے اتنا گہرا تعلق ہونے کے باوجود ان سے ذاتی ملاقاتیں صرف تین یا چار مرتبہ ہی ہوپائیں۔ اتنے گہرے تعلق مگر زندگی میں محض چند ملاقاتوں کی فلم دماغ میں چل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ مرحوم نے ایک عید پر مجھے یہ نظم بھیجی تھی:

عید تو آئی ہے لیکن کس قدر بےعید ہے
ایسا لگتا ہے کہ سارا گھر کا گھر بےعید ہے

بات تو یہ ہے کہ ایساحال ہے اب کے برس
پوری دنیا کا ہر اک فرد بشر بےعید ہے

ہے عید آئی مگر عید کوئی عید نہیں
اسے نہ عید کہو جس میں ان کی دید نہیں

مسرتوں کی گھڑی آئے عید ہو جاۓ
خدا ! یہ تیرے کرم سے کوئی بعید نہیں

زہے نصیب ہماری بھی عید ہو جاۓ
جو دور دور ہیں ان کی بھی دید ہو جاۓ

ہمارے بچھڑے ہووں کا جو ہو ہمیں دیدار
ہماری عید یہ عید سعید ہو جاۓ

محل میں صرف رہایش کا نام عید نہیں
کسی کی بےجا ستایش کا نام عید نہیں

ہے عید یہ کہ غریبوں کی ہم کو فکر رہے
تونگری کی نمایش کا نام عید نہیں