ہوم << اِ ک شہر ِ خموشاں بے رونق - ش م احمد

اِ ک شہر ِ خموشاں بے رونق - ش م احمد

امریکی ریاست کیلفورنیا رکا شہر لاس اینجلز ۷ ؍ جنوری سے عالمی سرخیوں میں سر فہرست ہے ۔ یہ شہر گزشتہ آٹھ روزسے مسلسل جلتا جا رہا ہےاور کرہ ٔارض پر دوزخ جیسا نظر آرہاہے ۔ افسوس صد افسوس کہ آگ بجھانے میں تما م انسانی کاوشیں فلک بوس شعلوں اور کالے دھوئیں کے ہمالیائی مرغولوں کے سامنے تاایں دم ہیچ ثابت ہورہی ہیں۔ دنیا کا وہ مجازی خدا جو کسی ملک ‘ قوم یا خطے میں کسی بھی نوع کی آگ لگانا چاہے توکسی قانونی رُکاوٹ یااخلاقی بندش کو نہیںمانتا ‘ مگر خود اپنے سر کا تاج کہلانےو الے شہر میں آگ کو بجھا نہیں پاتا۔ سوچئے امریکہ کون سا طاقت ور ملک ہے ۔ اس کا نومنتخبہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ قصر ِ ابیض میں دوسری بار قدم رکھنے سے پہلے ہی شان ِ بے نیازی سے کینیڈا‘ گرین لینڈ‘ اورپانامہ کو اپنے ملک میں ضم کرنے کا اعلان تک کر ڈالتےہیں‘ وہ ’’ماگا‘‘ یعنی میک امریکہ گریٹ اَگین ( امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ ) کی اپنی سیاسی فلاسفی کے فسوں میں بہک کر یہ دھمکی تک دے جاتے ہیں کہ میں مشرق وسطیٰ کو جہنم بنادوں گا مگر ا س اعلان کے ابھی چوبیس گھنٹے نہ گزرے تھے کہ منگل ۷ جنوری کو علی الصبح لا س اینجلز کے جنگلات میں جہنم جیسی آگ نمودا رہوئی ‘تیز رفتاری سے پھیلی اور ابھی تک بے قابو آگ کی لپیٹ میں آ کر نام نہاد سپر پاور اصل کائناتی سپریم پاور کے ہاتھوں ہزیمت اٹھائے جارہاہے۔ قدرت کی مشیت اور انتقام کے سامنے امریکہ یوںبے دست وپا دکھائی دے ‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہمیں خدائی قوت کے سامنے واشنگٹن کی پسپائی سے قطعی خوشی نہیں بلکہ ہماری نگاہ میں یہ انسانی دنیا کےلئے ایک ویک اَپ کال ہے کہ دنیا کے انسانو! سنبھل جاؤ ‘ سدھر جاؤ ‘ فطرتی میزانِ عدل سے ذرہ برابر چھیڑ چھاڑ نہ کرو ۔ شومیٔ قسمت کہ امریکہ ایک طرف برفانی طوفان امریکہ کی ناک میں دم کئے جارہاہے ‘ دوسری طرف لاس اینجلز( ہسپانوی زبان میں اس کا مطلب فرشتوں کا شہر ہے) میں برسوں طویل خشک موسم ‘بارش وباران کے مسلسل فقدان اور تیز ہواؤں سے بھڑک رہی آگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی ہے ۔ بظاہر اس دوزخ نما آگ کو کسی نے دیا سلائی دکھا کر نہیں اُکسایا مگر یہ ہے کہ اس کی غصیلی لپٹیں انسانی کوششوں کے سامنے ہار ماننے کو تیار ہی نہیں ۔

دیر سویر آگ بجھ جائے گی مگر ذرا تصور میں لایئے کہ یہ انوکھی آگ لاس اینجلز میںاپنے پیچھے جو ڈراؤنی کہانی چھوڑ کر جائے گی وہ کتنی دہشت انگیز ہوگی۔ کہرام مچانے والی آگ نے یہاں خاص الخاص سلبریٹیز کو خاک پر بٹھاکر بے آرام کئے ہواہے۔ کیا یہ لوگ پھر سے وہ دھن دولت واپس پاسکیں گے جو آگ میں خاک ہوئی؟ غور طلب ہے کہ اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے آگ کے شعلوں نے کس شاندار شہر کے جاہ وحشمت والوں کوخاکستری کے لئے منتخب کیا‘ یہ وہ لوگ جن کے یہاںکہنے کو پرندہ بھی مار نہیں سکتا ‘ جنہیں کبھی سوئی بھی نہیں چبھتی ۔ شایدہی ہم میں سے کوئی جانتا ہو کہ لاس اینجلز میں ایک عام گھر کی قیمت تین سے دس ملین ڈالر کے بیچ ہوتی ہے ۔ یہاں چیدہ چیدہ فلمی ستاروں کے مسکن واقع ہیں جو دنیا بھر میں روزانہ رنگ برنگے سنیمائی خواب بیچ کر کھربوں ڈالر جیب میںٹھونستے ہیں ۔یہی وہ قریہ ہے جہاں عریانیت کا سب سے زیادہ چلن ہے ‘ جہاں عمل ِقوم ِ لوط کے دلدادے اکثریت میں پائے جاتے ہیں ‘ جہاں ہم جنس پرستی یعنی عورت اورعورت کے درمیان’’ شادی‘‘ اور مرداور مرد کے مابین ’’بیاہ ‘‘کا رواج عام ہے ‘ جہاں’’ لیو اِن ریلیشن شپ‘‘والوں کی بہتات ہے‘ جہاں کی زرخیز زمین سے امریکہ میں پیدا کی جارہی کل شراب کا اکیاون فی صدپیدا ہوتی ہے۔ آج یہ اپنی بدنصیبی کا ماتم کررہی ہے ۔ یہاں آگ سے اَربوں ڈالر مالیت کے مالی نقصانات کی تلافی کیسے ہو‘یہ سوچ کر انشورنس کمپنیاں نیم پاگل ہورہی ہیں ‘ کہاں سے لائیں گی بیمہ کمپنیاں اتنا سارامال وزرکہ نقصانات کی بھرپائی کر سکیں؟ اس علاقے میں ایسے کئی دھنوان ہیں جنہوںنے اپنی لامثال کوٹھیوں کو شعلوں سے بچانے کے لئے بھاری اُجرت پر پرائیوٹ فائر فائٹنگ کمپنیوں کو ہائر کیا ہوا ہے۔ اور اسی شہر میں آج بھی پیسوں کے لالچ میں کچھ امیر لوگ اس قدر اندھے بہرے ہورہےہیں کہ شائیلاک بن کر بے گھر ہوئےلوگوں کوبھاری کرائے پر سر چھپانے کی جگہ دے رہے ہیں ۔ ہاں صدقے جایئے اُن ہوٹل مالکان کی انسانی ہمدردی کے جنہوں نے اپنے دروازے بغیر کرایہ کبھی رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ سےرہنے والے آج کے لٹے پٹے بے گھر متاثرین کے لئے کھول دئے ہیں ۔ تھوڑی سی داد بھی دیجئے بائیڈن انتظامیہ کی ’’فراخدلی ‘‘پر کہ اس نے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق آگ متاثرین کے لئے ماہانہ سات سو پچاس ڈالر فی کس مالی امداد کا مضحکہ خیز اعلان کیا ۔ اندازہ کیجئے کہ ۷۵۰ ڈالر کی خیراتی پیش کش اُن بے سہارا لوگوں کے لئےجو کل تک چائے کوفی کی ایک پیالی کے لئے ہزار ڈالر خرچ کرنے کے عادی تھے۔ بہرحال زیادہ تر بے گھر لوگ اپنے یاردوستوں اور رشتہ داروں کے گھروں میں منتقل ہوکر مجبورانہ پناہ گزینی کی زندگی جینے لگے ہیں۔

فی الوقت یہ سارا خوب صورت صحرائی علاقہ بھسم ہوکرکوئلے کی ایک ایسی وسیع وعریض کان لگ رہا ہے۔اس کی ہیبت ناک ویرانیاں‘ تبا ہیاں اور بربادیاں بزبان حال دنیا کی ناپائداری اور حادثاتِ دہر کے سامنے انسان کی شکست فاش کا پیغام سناتی ہیں ۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ انسانوں اور مشینوں کی جانب سے زمینی اور فضائی کاوشیں آگ کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں ابھی تک ثمر بار نہیں ہوئیں ۔ حالانکہ یہاں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تمام تر وسائل آگ بجھانے کے لئے بروئے کار لائے گئے ‘ مگر قدرتی قہر کے سامنے یہ سارے اہتمامات اُسی طرح دھرے کے دھرے لگتے ہیں جیسے سونامی کی پہاڑ ایسی لہروں اور کووڈ کی عالمی قہرمانیوں نے بنی نوع انسان کو ہرا کر ہی دم لیا ۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں لاس اینجلز سے میڈیائی اطلاعات آتی ہیں کہ شہر میں ہزاروں ایکڑ زمین پر پھیلی جنگلاتی آگ کا قہر متواتر جاری ہے‘ تیز ہوائیں اس بلائے ناگہانی کو دہکاکر نئی نئی شاد وآباد بستیوں کو بھسم کر نے کی گویا دعوت دے رہی ہیں۔ اب تک چوبیس انسانی جانیں قدرت کی قہر سامانی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ‘ کئی لوگ لاپتہ بتائے جارہے ہیں‘ درجنوں آگ متاثرین شفاخانوں میں ز خموں سے کراہ رہے ہیں ۔ قیامت خیزی کی ان گھڑیوں میں بھی کئی کم بخت لٹیرے اپنی انسان دشمنی کی وضع چھوڑنے کو تیار ہیں نہ قطع بدلنے پر آمادہ ۔ یہ چور اُچکے آگ متاثرہ علاقوں میں لوٹ پاٹھ میں مصروف ہیں ‘ ان میں سے کچھ ا یک کو پولیس گرفتار بھی کرچکی ہے ۔بے بسی کے عالم میں لوگ رنج وغم کا زخم سہلانےکے لئے آہ وبکا کر ر ہے ہیں‘ اشک باری ‘سینہ کوبی اور دردو غم کے سوا اور کیا بھی کیا جائے !!! کوئی بھی فردبشر دل دَہلانے والی آگ کا شکار بننا چاہتا ہے نہ اس کا عینی گواہ مگر دوزخ نما آگ ہے کہ کسی پر رحم کھانے کو تیار نہیں‘ ہر قریہ ہر بستی ہر بازار میں اپنی برق رفتار حا ضری ڈال کر اپنا وجود متاثرین سے منواتی جارہی ہے ‘ گویا ظالم آگ بے قرار ہے کہ اپنی بھوک ہر شئے کوراکھ میں بدل کر مٹا نے میں کامیاب رہے۔

اتنا تو طے ہے کہ پانچ ٹریلین اکانومی والا خوش حال لاس اینجلز آنے والے ماہ وسال میں تادیر بدحالی اور مصائب کے اندھے کنوئیں میںاوندھے منہ پڑا نظر آئے گا ۔ یہی وجہ ہےکہ اور تو اور ٹھاٹھ بھاٹھ والی شاہانہ زندگیاں جینے والے لوگ بھی اپنے حال اورمستقبل کی مشکلات پر واویلا کر رہے ہیںکہ اُن کے سامنے پسندیدہ آشیانے‘ عیش گاہیں‘ کارخانے ‘ کمرشل مراکز ‘ فارم ہاؤ سز‘ عبادت خانے ‘ پلازے‘ نجی املاک راکھ اور دھوئیں میںیک لخت غائب ہوئے ۔ بہر صورت یہ لوگ تین باتیں سمجھ نہیں پاتے کہ اول یہ آگ لگائی کس نے ‘ دوم کیا آگ اتفاقیہ ہے یا کوئی سوچی سمجھی ساز ش ہے‘ سوم سینکڑوں پیشہ ور فائرفائٹنگ امریکیوںاوراُن کی مدد کو آئے میکسیکو اور کینڈا کے سینکڑوںا مدادی کارکنوں ‘ سات طیاروں اور کئی ہیلی کواپٹروں کی جانب سےکیمیکل ملائے گلابی رنگ پانی کے چھڑکاؤ کے باوجود آگ بجھنے کانام کیوں نہیں لے رہی؟ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ امریکہ کو اتنا پانی بھی میسر نہیں جتنا آگ بجھانے کے لئے درکار ہے‘ ا س لئے ہمسایہ ملکوں سے منتیں کر کے پانی کا نذرانہ مانگاجارہاہے ۔ لا س اینجلس جومعاشی خوش حالی‘ دنیوی کروفر اورہالی وڈ کی مناسبت سے ثقافتی طور شہرہ ٔ آفاق مر کز کی اہمیت رکھتا ہے ‘اب اس وقت یہ زینتیںیادِ ماضی کا عذاب بنتی جارہی ہیں ‘ جب کہ ہالی وڈ ایک جھلستے ویرانے کا منظر پیش کررہاہے ۔ بلاشبہ انتظامیہ نے جنگی بنیادوں پر بچاؤ کارروائیاں رات دن جاری رکھیں مگر پرزیڈنٹ الیکٹ ٹرمپ ریسکیو آوپریشنز کو تسلی بخش نہیں مانتے۔ اُن کے عدم اطمینان کو شہر کے گورنر اور آگ بجھانےو الی مقامی ایجنسی نکارکر کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی طرف سے حتی الوسع جان توڑ کوششیں کیں مگر ناگہانی آفت قابو سے باہر ہے۔

لاس اینجلز کی آگ سے یہ بات پھر ایک بار پایہ ٔ ثبوت کو پہنچی کہ دنیا سرائے فانی ہے ‘ یہاں کسی شئے کو دوام حاصل نہیں ‘ ہر چیز ناپائدار ی کےحصار میں ہے ‘ عیش وراحت عارضی ہے ‘ دولتیں اور شہرتیں آنی جانی ہیں‘ حادثات ہر اعلیٰ وادنیٰ کے تعاقب میں ہمہ وقت لگے رہتے ہیں‘ کب کیا ہو کسی کو پتہ نہیں ‘ یہاں امراض کی بھرمار ہے ، تکلیفیں ہیں‘ نقصانات اور خسارے ہیں۔ لاس اینجلز کی آتش زدگی نے ان ابدی حقائق کو دنیا کے سامنے واضح اندازمیں اُجاگر کیا مگر ہم میںسے کتنے لوگ ہیں جو اس اندوہناک المیے سے عبرت لیں گے ؟ شاید بہت کم ۔ فانی دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ہر شاہ و گدا بے شک اپنی بنیادی ضروریات کے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے ۔ ایک بار بنیادی ضروریات کا پیٹ بھر جائے تو ہل من مزید کا مرض بالعموم انسان کو بیمار ذہن بنا کر چھوڑتا ہے ‘ وہ مادہ پرستی کے روگ میں خود اپنا خد ابن بیٹھتا ہے ‘اُسے یاد ہی نہیں رہتا کہ دنیا بے وفا ہے ‘ ایک دن سب چھوڑ چھاڑ کر وہ کہیں اور منتقل ہونے والا ہے ۔ اس لازمی نقل ِ مکانی کا اسے کوئی خیال رہتا ہے نہ کوئی فکر ستاتی جب تک اس کا بے رحم قاصد اس کے در پر دستک دینے نہ آئے۔ اس کی ایک مثال خود لاس اینجلز کے گلوب ایوارڈ ایونٹ میں آگ بھڑکنے سے صرف ایک دو دن پہلے دیکھی گئی۔یہاں فلمی تقریب میں قد آور سلبرٹریز کی ایک کہکشاں موجود تھی جواپنی غیرمعمولی فلمی کارکردگی کے عوض منتظمین سے فخریہ انداز میں انعامات پارہی تھی۔ برسر موقع میزبان نے اسٹیج پر بآواز بلند کہا کہ تقریب میں ایوارڈ پانے والوں میں سے ہرا یک نے کامیابی کا سہرا اپنےٹیلنٹ کے سر باندھا ‘خود کوسراہا ‘ اپنی فنی صلاحیتوں کے قصیدے سنائے ‘ فلم کے کاسٹ اور کرئیو کی تعریفیں کیں ‘ اپنے ماں باپ کانام بھی لیا مگر تمغہ پانے والے کسی ایک بھی فن کار نے اس Godless شہرمیں ایک باربھی God کا نام نہ لیا۔میزبان کی نظر میںیہ فن کاروں کی قابلِ صد ستائش بات ہے ۔ دودن بعد آگ کی شعلہ زنیاں جب زمین وآسمان کا دل دَہلانے لگیں تو یہی بے خدا لوگ گھروں‘ ہوٹلوں ‘ دفتروں ‘ دوکانوں‘ فلم اسٹوڈیوز ‘ ریستورانوں‘ عیش کدوں کو تیز قدموں چھوڑ کر باؤلوں کی طرح بچاؤبچاؤ کی فریادیں کرکے بھاگم بھاگ کر نے لگے‘ کئی موبائل آن تھے جنہوں نے ان کے وردِ زبان کلمات کو ریکارڈ کیا : oh my God < God save me < God protect us تھے۔ یہ اس بات کا کھلا مظاہرہ تھا کہ انسان تھڑ دلا ہے اور آفات وبلیات کو اپنی طرف لپکتا دیکھ کر ہی چاروناچار کسی ماورائی ذات کو بہ حالت ِ مجبوری یاد کر تا ہے یا خود کو اس کی پناہ میں دے کر روحانی تسلی پاتا ہے ۔ بہر کیف لاس اینجلز کی آگ کےحوالے سے امریکہ کے اندر اور باہر ا س کے اسباب ومحرکات پر بحث وتکرار ہورہی ہے ۔ مختلف لوگ اس ناگہانی آفت کے ڈانڈے سائنسی اصولوں کی تقلید میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ملاتے ہیں اور ا س کی توجیہہ وتشریح میں کہتے ہیں کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب بے قابو آگ نے یہاں شدید نقصانات پہنچائے ہوں ۔ یہاں منفردموسمی حالات کے چلتے ایسی آگیں شعلہ فشاں ہوتی رہی ہیں۔بارش وباراں نہ ہونے سے خشک سالی ہونا اور پھر اگست تا اکتوبر کے بیچ تیز ہواؤں کی رگڑ سے خود رو صحرائی گھاس پھوس میں آگ بھڑکنا ‘ آس پاس کے پیڑپودوں اور گھروں یاعمارات کو آگ کی لپیٹ میں آنا یہاں کا معمول رہاہے ۔ ان لوگوں کا اندز ِ فکر سائنس کے گرد گھومتا ہے جو صرف آدھے سچ کو سامنے لاسکتا ہے ۔ موسمیاتی زاؤیہ نگاہ سے دیکھئے تو ان کاتجزیہ منطقی لگتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ توجیہہ اس ساری صورت حال کا احاطہ کرتی ہے جس سے لاس اینجلز کا پالا پڑا ؟ دوسرا طبقہ مذہبی لوگوں پر مشتمل ہے جو کہتا ہے کہ اس شہر میں زیادہ تر لوگ الحاد ا ورانکارِ خدا کے رسیا ہیں ‘ یہ لوگ اپنے مال و زَر کو محض اپنی محنتوں ‘ صلاحیتوںاور کاوشوں کی دین سمجھ کر کسی خدا کو اپنی کامیابی میں دخیل نہیںسمجھتے۔ خداکی ناشکری ان کی فطرت ِ ثانی ہے ۔ اس آگ نے اُنہیں یاد دلایا کہ ایک غیر مرئی ہستی ہے جو بشمول تم لوگوںکے کائنات پر اپنی حاکمیت کا سکہ چلاتی ہے ‘ وہ کسی کو بھی اپنی ناشکری کی پاداش میں دُھول چٹانے پر قادرہے۔ ان کا عندیہ ہے کہ آتش زدہ شہرکے ناشکرے باسی ہمہ وقت مال ومتاع کی عبادت میں گھل کر اپنے محلات اور عیاشیوں کی خدائیت تسلیم کرتے ‘ بالخصوص دنیا جہاں میں یہ لوگ اپنی وسیع الاثر فلموں کے ذریعے کوئی انسانیت نواز تعمیری کام سرانجام دینے کے بجائے فحاشی ‘ برہنگی‘ ماردھاڑ اور صنفی جذبات کو اشتہا دیتےہیں۔ الغرض یہ لوگ دنیا کو امن شانتی کے بجائے منشیات ‘ ریپ اور برے کاموں کا اڈہ بنانے میں ہراول دَستے کا رول نبھاتے جاتے ہیں‘ ا س لئے خالق ِکائنات نے آگ کی تباہی وبربادی سے اُن کی سرزنش کی ہے ۔ تیسراطبقہ شہر کی خاکستری سے یہ مطلب نچوڑتاہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں جنگی جرائم اور پچاس ہزار انسانی جانیں لینے کےباجود لااینجلس کے سپر سٹارز کی رگ ِ حمیت پھڑکنا تو دور کی بات اُن میں بعضوں نے تل ابیب کو علانیہ صلاح دی کہ غزہ کی پوری آبادی کو فنا کے گھاٹ کے اُتار دو اور کسی ایک کو بھی فرش ِ زمین پرزندہ نہ چھوڑو۔ ایک فلمی ہستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے غزہ کی تباہ حالی کی خوشی میں اپنے دوست احباب کو گرینڈپارٹی دی ۔ اس طبقے کے خیال میں قدرت نے ایسے سنگ دل لوگوںسےغزہ کا بدلہ لیا ۔ ایک چوتھا طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اس بھیانک واردات کے پیچھے ضرورکوئی سوچی سمجھی چال اور ساز ش کارفرما ہوگی ۔یہ خیال آرائی بھی کی جاتی ہے کہ ہونہ ہو لاس اینجلز کی سوختگی کے پیچھے ۲۰۲۰ میں اقوام متحدہ کا دنیا میں سمارٹ سٹیاں بنانے کا عالمی پلان ہے ۔ یہ کیسی انوکھی بات ہے کہ کسی علاقے میں سمارٹ سٹی بنانے کے لئے پہلے ہنستی مسکراتی بستی میں شعلے بھڑکاکر اسےزمین بوس کیا جائے۔ بہر حال لاس اینجلز کے بدترین المیے کے پیچھے جو بھی چیزیں دخیل ہوں وہ اپنی جگہ‘ مگر یہ حادثہ پوری انسانی برادری کے لئے گہری نیند سے جاگ اُٹھنے کی گھنٹی بجاگیا جو یہ سجھاتی ہے کہ ہمیشہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچتے رہو۔ ہمیں کیلی فورنیا شہر کےتمام آگ متاثرین سے گہری ہمدردی ہے اور ہم دعا گو ہیں کہ وہ سب اس مصیبت و آفت اوربلائے جان سے گلوخلاصی پاکر دوبارہ اچھی بھلی شہری زندگی کے دھارے سے جڑ جائیں ۔