ہوم << عشق جس نے بھی کیا - الطاف جمیل شاہ

عشق جس نے بھی کیا - الطاف جمیل شاہ

وادی کشمیر میں ناول کے حوالے سے ماضی کی تاریخ تابناک رہی ہے. اس میں دورائے نہیں کہ کرشن چندر نےہی جموں کشمیر کو اپنے ناولوں کے ذریعے برصغیر میں متعارف کرایا، اس کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل ادیبوں نے بھی ناول کی زُلفیں سنوارنے میں اپنے قلم اور قرطاس کو آزمایا، جن میں حامدی کاشمیری، علی محمد لون، عمر مجید، شبنم قیوم، جان محمد آزاد ، نُورشاہ، مخمور بدخشی، دیپک بُدکی، دیپک کنول، عبدلغنی شیخ، عبدلرشید راہگیر، فاروق رینزو، سنتوش شاہ، وجے سُوری، ثاقب شاہین، کرن کاشمیری، ترنم ریاض اور رحیم رہبر شامل ہیں لیکن جوں جوں یہ قلم کار عمر کی سیڑھیاں چڑھ کر بزرگی کی دہلیز پر پہنچ گئےتوں توں ناول کی صنف سکڑتی گئی. اور اب یہ حالت ہے کہ کبھی کبھار ہی سُننے میں آتا ہے کہ کشمیر میں کوئی اردو ناول منظر عام پر آیا ہے. غالباً آٹھ برس قبل پرویز مانوس کا پہاڑی زبان میں ایک ضخیم ناول " تتی چھاں" منظر عام پر آیا تو ناول کا شوق رکھنے والوں کو ان سے امیدیں وابستہ ہو گئیں کہ مستقبل میں پرویز مانوس پہاڑی کےساتھ ساتھ اردو کے بھی مزید ناول منظرِ عام پر لائیں گے، اُن کی یہ مراد اس وقت بر آئی جب پرویز مانوس کا پہلا اردو ناول "برگشتگی" منظرِ عام پر آیا اور پھر دوسرا ضخیم ناول "سارے جہاں کا درد"، دیکھتے ہی دیکھتے ہی قارئین کے لبوں پر "سارے جہاں کا درد" کے چرچے تھے.

موجودہ دور میں کئی ایسے اہل ادب ہیں جو خواہ افسانہ نگار ہوں یا ناول نگار ، انہیں اپنے فن کے مختلف زاویوں پر مضبوط گرفت حاصل ہے. یہ اہل ادب اپنی تخلیقات خواہ وہ افسانے ہوں کہ ناول نگاری، ہر دو صنف کی معتبر شخصیات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں. جہاں ہند و پاک کے ادیب اس سلسلے میں نام کما رہے ہیں وہیں ہم سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ وادی کشمیر بھی اس ادبی شوق و ذوق کے سفر میں مسلسل عازم سفر ہے اور بڑی ہی خوش اسلوبی سے ادب کی دنیا میں اپنی دھاک بٹھا رہی ہے، ادبی حلقوں کو اپنی تخلیقات کے سحر میں مبتلا کرکے ادیب اور دانشوروں کو احساس دلا رہے ہیں کہ ہم گرچہ مختلف مشکل مراحل سے نبرد آزما ہیں، مگر ہم نے علم و ادب کی شمع کو مستقل روشن رکھنے کا عہد کیا ہے اوراس عہد کو نبھا بھی رہے ہیں. اسی قبیل کے قافلہ علم و ادب کے ایک سخت جاں مسافر جناب پرویز مانوس صاحب بھی ہیں اور ان کی کاوش منظم بھی ہے اور منفرد بھی. میں نے مذکورہ تخلیق میں محسوس کیا کہ وہ کوئی سڑک چھاپ ادیب نہیں کہ بس عشق و محبت کی وہ داستان لے کر بیٹھ جائیں جو صرف ہوس کے ارد گرد گھومتی ہے. نہیں ان کی تخلیقی صلاحیت جس قدر بلند ہے، اسی قدر اس میں پاکیزہ مزاجی کا عُنصربھی غالب ہے، اسی قدر اخلاقی اقدار و معاشرتی و سماجی رویوں کا پاس و لحاظ نظر آتا ہے, ان کا مذکورہ ناول " عشق جس نے بھی کیا"اس کا امین ہے کہ ہر ادیب و دانشور ضروری نہیں کہ ادب کے نام پر بدی و گمراہی کا تصور اپنی قوم و ملت میں پیدا کرنے کے لیے اپنی تخلیقات کو پیش کرتا رہے . مجھے خوشی ہے کہ میں ایک ایسی تخلیق پر اپنے تاثرات رقم کر رہا ہوں جو سماجی و معاشرتی مسائل کو بیان کرتے ہوئے انتہائی شائستہ اور پاکیزہ احساس کے ساتھ قاری کے جذبات و خیالات میں تلاطم پیدا کرنے کے لئے کافی و شافی ہے.

میرے ہاتھوں میں وادی کے معروف ناول نگار، شاعر، نقاد ، ڈرامہ نگار ، ترجمہ نگار اور اردو زبان کے ساتھ ساتھ پہاڑی زبان و ادب کے ادیب و دانشور، ہنس مکھ اور ملنسار جناب پرویز مانوس صاحب کا ناول "عشق جس نے بھی کیا " ہے. پرویز مانوس صاحب کی اس سے قبل بھی کئی کتب منظر عام پر آچکی ہیں، جنھوں نے ادبی ذوق نگاہ رکھنے والے احباب کے حلقوں میں کافی پذیرائی پائی ہے. پرویز مانوس ایک ایسا نام ہے کہ اسے اگر کشمیر کے ادیب و دانشوروں کی قبیل سے حذف کیا جائے تو یقین مانیں اک ایسا خلا وا ہوجائے گا جس کی بھرپائی ناممکن سی ہے. ان کی زبان دانی کا، خواہ وہ اردو ہو یا پہاڑی، ہر جگہ طوطی بول رہا ہے، ان کے لبوں پر سجی خوبصورت مسکراہٹ اور ان کی نگاہیں جیسے کسی جستجو میں ہوں، جیسے ان کا گول سا خوبصورت چہرہ ، مونچھیں ایسی کہ پیار ہوجائے، درمیانہ قد کے ساتھ کھڑے جب سامنے آجائیں تو جی انہیں ہر بار گلے لگانے کو چاہتا ہے. ان کی تحریریں اکثر ریاستی و قومی سطح کے مختلف اخبار و جرائد میں مسلسل نظر آتی رہتی ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ ان کی کتابیں بھی بڑی تیز رفتاری سے منظر عام پر آتی جارہی ہیں، اللہ کرے یہ سلسلہ جاری رہے.

ان کا ناول "عشق جس نے بھی کیا" اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے. یوں سمجھ لیجیے کہ ناول نگاری کے گلدستےمیں اک اور خوبصورت گلاب کا اضافہ ہونے جارہا ہے. میں نے اس ناول کا بغور مطالعہ کیا، جب اس کے آخری صفحے کو پڑھا تو میں نے وہ نمی چہرے پر محسوس کی جیسے آج سے کئی برس قبل رات کے اندھیرے میں "پیر کامل" پڑھتے ہوئے میری روح تک سرایت ہو رہی تھی، پاکیزگی کے اثرات سے چہرے پر وہ موتیوں جیسے قطرے چھن چھن بہتے رہے اور میں دُور بہت دُور خیالوں کے اُفق سے پرے عقیدت و محبت ادب و احترام کے جہاں میں پیر کامل ﷺ کے دربار میں ہدیہ خلوص پیش کر رہا تھا، اور نگاہوں سے بہتے وہ مقدس و مبارک قطرے در قطرے عقیدت و احترام پر اپنے مقدور کے مطابق دل کی کیفیت بیان کر رہے تھے. آج بھی ایسا ہی کچھ ہوا کہ ضد اور خام خیالی کے اک دلدادہ نوجوان کی اس کہانی کو پڑھتے ہوئے، پرویز صاحب نے میرے ہاتھوں میں روحانیت کا وہ پاکیزہ جام تھما دیا کہ دل ھل من مزید کے جذبے سے سرشار اس وادی کا طواف کرنے کو مچلنے لگا جہاں ایک روحانی شخصیت کا آخری منظر اس کی والدہ کو سکون پہنچا کر بہت اعلٰی ہوگیا تھا. مذکورہ ناول "عشق جس نے بھی کیا" ایک ناول ہے، ناول لفظ پڑھتے ہی آپ سمجھ گئے ہوں کہ اس کی منظر کشی کیا ہوگی، بس آپ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اس کے مُصنف نے اس سے پہلے بھی چند کتابیں تیار کیں جنہوں نے ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی .

ناول اردو ادب کی ایک بہت خوبصورت اور قدرے کافی قدیم صنف ہے۔یہ ایک فرضی نثری قصہ یا کہانی ہوتی ہے، جس میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ اگر اس میں فرد اور سماج انسان کے جذبات تسلسل اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کیے گئے ہوں۔ صنف ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیا ن کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہو گی ”ناول ایک نثر ی قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیا ن کی جاتی ہے۔ در اصل ناول وہ صنف ہے جس میں حقیقی زندگی کی گونا گوں جزئیات کوکبھی اسرار کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب میں کبھی رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا. ناول کے عناصر ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار ، مکالمے ، اسلوب اور موضوع و غیرہ شامل ہیں. ناول نگاری کے فن پر اہل ادب پہلے ہی کافی لکھ چکے ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں، اس لیے اس فن پر یہاں مزید لکھنا میرے خیال سے غیر مناسب ہے. ہم فی الحال اسی کتاب کا مختصر خلاصہ پیش قارئین کرتے ہیں کہ کتاب کی اصل سمجھ آسکے اور مغز سمجھ کر ہم اس کتاب سے لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف کردار اور مختلف سماجی مسائل جن کر مصنف نے کافی مضبوطی سے اظہار کیا ہے. بات کیا کی ہے، بلکہ کہانی کی وہ منظر کشی کی ہے کہ آدمی دنگ رہ جائے، اس میں سماج و معاشرے میں پنپ رہے، کئی ایسے امراض کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں ہم کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرسکتے. مصنف جب بھی اپنی کوئی تخلیق نظر قارئین کرتا ہے اس میں سب سے اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے قاری کو کہاں تک اپنے الفاظ کے سحر میں جکڑ کر اس کے دل کو مضطرب کرنے میں کامیاب ہورہا ہے اور کہاں تک قاری کے لیے اضطراب قلب برقرار رکھ کر آخری صفحات تک قاری کو پہنچا کر اس کے اضطراب قلب کو تسکین بخش احساس دلاتا ہے، اور اپنی تخلیق کا عکس اس کے دل و دماغ پر چھوڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، یہی خوبی ہوتی ہے بڑے مصنفین کی کہ وہ قاری کو مسلسل مصروف رکھتے ہوئے اسے اپنی کاوش سے بھر پور استفادہ کراتے ہیں اور اپنی علمی ادبی تہذیبی ثقافتی اقدار سے بڑے ہی خوبصورت سلیقے سے روشناس کرا دیتے ہیں.

ناول کے ایک اقتباس سے میرے الفاظ کی تصدیق ہوجائے گی، ایسا میرا دعویٰ ہے. ملالحخط کیجیے:
"خلیل صاحب ! لگتا ہے آپ نے ہمیں معاف نہیں کیا. ہم بڑی اُمید لے کر آپ کے پاس آئے تھے، صوفی صاحب نے ملتجیانہ انداز میں کہا _،،صوفی صاحب. ! آپ نہایت ہی سمجھدار اور سنجیدہ انسان ہیں _ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ شیشے میں پڑا بال اور کردار پر لگا دھبہ کبھی مٹ نہیں سکتا_ اس سے قبل کہ آپ یہاں سے تشریف لے جائیں میری چند گزارشات پر ضرور توجہ دیں _ آپ اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر صرف ڈاکٹر، انجنئیر، آئی _ اے _ ایس اور کے_ اے_ ایس نہ بنائیں، اُنہیں دینی تعلیم سے بھی آراستہ کریں _ آج کے دور میں آپ شہر میں بسنے والے لوگوں نے مسجدیں تو بے شمار بناڈالیں لیکن امامت کے محتاج ہیں، کل آپ لوگ گورکن کے محتاج ہو جائیں گے، پرسوں غُسال کے_ وہ وقت دُور نہیں جب آپ غیر ریاستی اماموں کے تابع ہونگے_ اس لئے اپنے عالموں کی قدر کریں ورنہ کل کو پچھتانہ پڑے گا _ ایک بات اور اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ مولوی کی ڈگری کوئی فالتوں کی چیز نہیں بلکہ مولوی دینی علم کے سمندر کا وہ خواص ہے جس کا دامن ایسے انمول موتیوں سے بھرا ہوتا ہے جن سے ایک انسان کا ظاہر ہی نہیں باطن بھی چمک اُٹھتا ہے، ڈاکٹر اگر جسم کا علاج کرتا ہے تو مولوی روح کو پاک کرنے کے طریقے سکھاتا ہے _ اگر انجنئر سماج میں بُلند و بالا عمارتیں تعمیر کرواتا ہے تو مولوی انسان کے ایمان کی اساس مستحکم کرتا ہے _ اس لئے کسی خان سوٹ پہنے داڑھی والے کو کمتر نہ سمجھیں _ یاد رکھئیے ! انسان تبھی تک سینہ تان کر کھڑا رہ سکتا ہے جب تک اُس کی ریڈ کی ہڈی مضبوط ہے_ مولوی بھی اس سماج کی ریڈ کی ہڈی کی مانبد ہے __،،

عشق چھلکا صبر بن کر شکل میں ایوبؑ کی
عشق بن کر اشک ٹپکا آنکھ سے یعقوبؑ کی

مذکورہ شعر میں دینی عشق کا ایک وسیع جہاں آباد ہے. اگر اس موضوع کو کُریدنے کی کوشش کی جائے تو بیان کرنے کے لئے ایک عمر درکار ہے. "عشق جس نے بھی کیا"کو داستان کہیں یا کہانی ، یہ کہانی ایک ایسی ماں کی ہے جس کا شوہر اس کہانی کا ایک بڑا کردار ہے، دونوں میاں بیوی کے پاس زندگی کا ہر آرام و آسائش میسر ہے. لیکن کمی ہے تو فقط ایک اولاد کی،گلنار بیگم اپنے عورت کے جس کردار میں نظر آرہی ہے، وہ کوئی افسانوی کردار نہیں، بلکہ سماج کی ہر عورت کے مزاج میں رچا بسا وہ کردار ہے جس کے سبب عورت ذات کی قدر و منزلت کو ہر مذہب و معاشرے میں سراہا گیا ہے ،خواہ دنیا کی کوئی بھی عورت ہو ، نکاح کے بعد اس کی ایک خوبصورت تمنا جو اس کے دل میں مچلتی رہتی ہے، وہ ہے ماں کے درجہ پر فائز ہونا ، جس کے لئے وہ خود کو اس درجہ بکھیر کر رکھ دیتی ہے کہ ولادت کے وقت وہ موت کے منہ سے بھی بڑی بہادری سے اپنے نور نظر کے لئے نکل کر اپنے مرتبہ و منزلت کا احساس دلاتی ہے. "ماں" اس لفظ کو سُننے کے لئے گلنار بیگم بھی ترس رہی تھی , وہ اپنے دل کی تسکین کے لئے ہر جتن کرتی رہی کہ اک روز وہ بازار سے اپنے شوہر کی معیت میں گھر کو آرہی تھی کہ دیکھا محلے کے بچے کسی فقیر پر پتھر برسا رہے ہیں، اس سے دیکھا نہ گیا تو بچوں کو ڈانٹ دیا, فقیر کو سر پر چوٹ لگی تھی سو گلنار بیگم نے اسے گھر لاکر اس کی مرہم پٹی کی،مرہم پٹی سے فارغ ہوکر گلنار بیگم نے اسے ایک نئی قمیض لاکر دی، تو وہ فقیر کہتا ہے اللہ اکبر اور گلنار بیگم سے مخاطب ہوکر کہا

ایک کھلونا مل جائے گا تجھ کو دل بہلانے والا
تیرے گھر کے دروازے پر اک مہمان آنے والا

گلنار بیگم جس کی امید بُجھ چُکی تھی اور یقین میں بھی اب ہلکا ہلکا سا اضطراب غالب تھا، نے سن کر اس فقیر کی باتیں اپنے شوہر سے بیان کیں، شوہر نے ڈانٹ پلائی کہ انجان لوگوں پر اعتبار کر کے انہیں گھر تک نہ لایا کریں، پر امید و یقین کے جہاں میں جو خالق کائنات دنیا کو چلا رہا ہے، اس نے ایسا معجزہ کیا کہ دوسرے دن گلفام اپنے مالک کے سامنے آنسو بہاتے ہوئے شکریہ کر رہا تھا. گلفام اپنے والد مرحوم کی تصویر کے سامنے کہہ رہا تھا، بابا آج آپ زندہ ہوتے تو خوش ہوجاتے کہ گلفام کی ویران صحرا میں اُمید کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا ہے. پھر ایک بچہ پیدا ہوا ، شہریار نام رکھ کر اسے پڑھایا گیا، اس کی خوب تربیت کی گئی، اس کی شرارتیں، اس کی ضد کو سہا گیا . گلنار بیگم نے اس کی اسلامی اخلاقی تربیت کو بہتر اور سنوارنے کے لئے اپنی بستی کے امام محترم سے مدد لی کہ شہریار کو قرآنی تعلیم سے روشناس کریں. امام مکرم نے اپنی حد تک خوب سکھایا ، پھر اپنی لخت جگر جو عالمہ تھی کے ذمہ شہریار کی تعلیم و تربیت لگا دی، اب ان کی بیٹی " نُور صبا" نے شہریار کی تعلیم و تربیت شروع کی، شہریار کئی ماہ تک مختلف موضوعات کے حوالے سے نُورصبا سے سوالات کرتا رہا اور علم کے جہاں میں مُسلسل عازم سفر رہتے ہوئے بس وہ اپنا دل نور صبا کی بارگاہ میں ہار بیٹھا.

یہاں اس ناول سے ایک اور اقتباس پیش ہے جس میں پاکیز عشق کا عکس قاری کو اپنی جانب متوجہ کرے گا ملالحظہ کریں :
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی. آسمان کے وسیع و عریض دامن پر خالق کائنات نے لاکھوں ستارے ٹانک دیے تھے جو بدرِ کامل کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے تھے، ویسے تو دن کی گرمی کے بعد آسمان پوری طرح صاف تھا لیکن کبھی کبھار ابر کا کوئی ٹکڑا شرارتی انداز میں چاند کو چُوم کر ماحول میں تاریکی بھر دیتا لیکن جلد ہی ہوا کے جھونکے ابر کو دُور دھکیل دیتے اور پھر ساری کائنات پر دودھیا چاندنی کا قبضہ ہو جاتا _ ،،
شہریار ابھی تک اپنے قیمتی بلنگ پر کروٹیں بدل رہا تھا اُس کی نظر دائیں جانب کی کھڑکی سے سیدھا چاند پر پڑ رہی تھی، وہ ٹکٹکی باندھے چاند کو کافی دیر سے تک رہا تھا. دفعتا چاند سے مرمر کے بہت سارے زینے زمین تک بچھ گئے ، پھر چاند سے ایک پری چہرہ خراماں خراماں زینے طے کرتی ہوئی شہریار کی خواب گاہ میں داخل ہو گئی. یہ منظر دیکھ کر شہر یار کا دل بُلیوں اچھلنے لگا،دھڑکن اتنی تیز ہو گئی ایسا لگتا تھا کہ سینے سے نکل کر دل باہر آ جائے گا .
سفید رنگ کے قیمتی لباس میں ملبوس پری کے چہرے سے آہستہ آہستہ نقاب سرکنے لگی تو شہر یار دیدار کے لئے مچل اُٹھا. چہرہ دیکھ کر شہر یار کو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ سچ مچ نُور صبا اس کے سامنے کھڑی ہے.
نور۔۔۔۔۔! میں ابھی ابھی تمہارے ہی بارے میں سوچ رہا تھا _نیند کی دیوی مجھ سے روٹھ چکی تھی اور میں تمہارےہی تصور میں کھویا ہوا تھا. ،،
میرے شہر یار ! دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، تمہارے دل کی صدانے میرے دل کے دروازے پر ایسی دستک دی کہ میں فوراً تمہارے پاس چلی آئی کیونکہ میں بھی تم سے ملنے کو بے قرار تھی __ سچ نُور صبا ؟ شکر ہے تم نے میرے دل میں چھپی ہوئی محبت کو محسوس کر لیا_ مجھے لگا میں اپنے لبوّں سے کبھی بھی اپنے دل کی بات نہ کہہ سکوں گا _ ،،
خاموشی ہی تو محبت کی سب سے بڑی زبان ہوتی ہے، جو تم اپنے لبّوں سے نہ کہہ سکے تمہاری آنکھوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا _ کیا میں تمہیں چُھو سکتا ہوں ؟ شہر یار کے ہاتھوں میں کُھجلی ہو رہی تھی_
نہیں _____! پاک محبت لمس کی محتاج نہیں ہوتی _ نُور صبا نے اپنا د امن سمیٹتے ہوئے کہا تو شہر یار بولا _ وعدہ کرو تم مجھے چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤ گی_
" روح جسم کو چھوڑ کر جا سکتی ہے لیکن میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی__!
نُور صبا __! تمہیں دیکھ کر مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے _ تم میرے ذہن و دماغ پر چھا سی گئی ہو__دراصل مجھے تم سے م م م محبت ہو گئی ہے! شہریار نے تھر تھراتے ہونٹوں نے کہا تو نُور صبا نے شرما کر منہ دوسری جانب پھیر لیا ۔_ نُور __! نُور__! کیا تم بھی مجھ سے....... ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک ! دروازے پر ہونے والی دستک نے شہر یار کے تصور کو چُور چُور کر دیا .

شہر یار کے لئے کئی دروازے وا تھے لیکن وہ اُسی دروازے پر دستک دے بیٹھا جس کے درمیان بڑی خلیج حسب نسب کی تھی، جسے پاٹ پانا نا ممکن تھا، سو وہی ہواجو محبت کی پاکیزہ نگری میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے . سماجی اقدار و معاشرتی نا برابری کو خوب صلواتیں سنائی گئیں . امام مسجد کے سر وہ مکروہ الزام لگایا گیا کہ انہیں بستی سے دور بہت دور اک خانہ بدوشوں کے کوٹھے میں پناہ لینی پڑی. گرچہ یہ کسی بڑی آفت سے کم نہ تھا کہ اک ایسے گناہ کی پاداش میں وہ سزا ملی کہ جو روا نہ تھی مگر منشائے الہی سمجھ کر امام محترم نے حوصلے نہ ہارتے ہوئے اپنی لخت جگر کے ساتھ وہ اذیت ناک مراحل سہتے ہوئے جینے کے نئے طریقے شروع کیے، اور اپنی لخت جگر اور خود کو بارگاہ الہی میں پیش کرکے اپنے لیے دستگیری کی التجا کرکے مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ۔۔ا ن کا بستی سے جانا اور شہریار کے غم و اندوہ کا اک ایسا دور شروع ہونا کہ کلیجہ پھٹ جائے. شہریار گھر سے نکلا اور اپنی فانی محبت کی تلاش کرتے ہوئے اس حقیقی محبت کے سحر میں جکڑا گیا جہاں سکوں ہے ، طمانیت کی بلندی ہے. وہ اب ایک مردِ درویش بن گیا تھا جو لوگوں کی محبتوں و عقیدتوں کا محور اک اللہ والا بنا ہوا بارگاہ الہی میں دست بہ دُعا رہتا تھا جس کا شہرہ ہر طرف چھایا ہوا تھا.

پھر اک روز سسکتی بلکتی گلنار بیگم کے کانوں تک یہ شہرت دستک دینے پہنچی تو گلنار بیگم نے اپنے شوہر گلفام صاحب سے التجا کی کہ کوئی نورانی بابا ہیں جو دکھوں اور غموں کا مداوا کرتے ہیں، کیوں نہ ہم ان سے ملنے چلے جائی۔ شاید میرےلخت جگر کا پتہ مل جائے اور میرے کانوں میں پھر وہ آواز گونجے ۔۔ "اماں "۔ ۔۔۔ جس کو سُننے کے لیے میں دن رات اب تک تڑپ رہی ہوں، پندرہ برس سے میں کس عذاب میں جی رہی ہوں وہ میں ہی جانتی ہوں، سو گلفام صاحب نے اپنی اہلیہ کی ضد کے سامنے خود کو عاجز پایا اور اس پہاڑ کا رخ کیا جہاں نورانی بابا کا قیام تھا ۔۔ نورانی بابا نے گلنار بیگم کو بنا احساس دلائے جب انہیں "اماں " کہہ کر پکارا تو گلنار بیگم نے یہ لفظ سنتے ہی فرط جذبات سے کہا کہ بس ایک بار اور ۔ایک ایسی تمنا، ایک ایسی خواہش، ایک ایسی التجا جس پر ایک ماں قربان کرنے کو تیار ہو جائے .

یہ ایک ماں باپ بیٹے کی ایک ایسی داستان ہے جسے پڑھ کر قاری عجب اپنائیت کا احساس محسوس کرتا ہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عزت و تکریم کے ساتھ جینے کے بجائے ضد و انانیت کے مریض بن کر پورے معاشرے کو تعفن زدہ کرنے کے در پے ہوتے ہیں. وہ بھی جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر داؤ کھیل کر اپنی انا کو تسکین دینے کے لئے کوشاں و سرگرداں رہتے ہیں پر حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا سوائے یاس و حسرت کے. انسانی چیخیں آسمانوں کو چھونے لگیں تب بھی وہ اپنے مقاصد کی آبیاری کے لیے ہر داؤ کھیلتے ہیں، پر جب اللہ کی مار برستی ہے تو ان گدھ قسم کے انسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہتا. ناول میں ایسا ہی ایک کردار قادر کا ہے جس کو پروردگار نے اُس کے اعمال کی سزا کس طرح دی ،بعد از مطالعہ آپ کو معلوم ہوجائے گا. ناول کی کہانی بے حد پُرکشش اور دلچسپ ہے کہ انسان ناول ہاتھ میں لیتے ہی ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے۔ کرداروں کا انتخاب اسی معاشرے سے کیا گیا ہے جو آئے روز ہمارے آگے پیچھے گھومتے رہتے ہیں. اس پر مکالموں کی بھر پور چابک دستی نے اس ناول کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے.

میرے خیال سے پرویز مانوس صاحب قابل مبارک ہیں کہ جنہوں نے سماجی رویے اور معاشرتی بگاڑ کو محسوس کیا اور اپنے ہم وطن انسانوں تک وہ سب پہنچایا جو ان کے معاشرے اور سماج میں ناسور بن کر زندگی کو کھا رہا ہے ، اور کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایسے تعفن زدہ ماحول کے ہوتے ہوئے بھی کمال کے دانا اور صاحب دل ہوتے ہیں. ویسےا گر آخری تصور کو چھیڑا جائے جہاں شہریار نورانی بابا بن گیا تو ہزار صفحات بھی تکمیل کو تشنہ ہی رکھیں گے، سو نورانی بابا ہو کہ شہر یار ، وہ آپ کی محبت و احترام کا مستحق ہے اور آپ کا فرض ہے آس پاس محسوس کریں کہ کوئی ماں بلکتی ہوئی تو نہیں کہ میرا شہر یار کہاں کھو گیا ، یا کوئی ایسا پاکیزہ صفات سے متصف کوئی نورانی بابا تو نہیں جن کی چوکھٹ پر آپ کو جاکر اپنے لیے کچھ پانا چاہیے. گر کچھ بھی نہیں تو یہ کیا کم ہے کہ اصلاح احول ہی ہوجائے اور آپ بھی کوئی نیک راستہ انتخاب کر کے سفر جہاں شروع کریں. دُعا گو ہوں کہ سابقہ کُتب کی طرح پرویز مانوس کا یہ ناول بھی اردو کے ادبی حلقوں میں پذیرائی سے ہمکنار ہو.