ہوم << ہلکا پھلکا کریلا حلیم - ڈاکٹر میمونہ حمزہ

ہلکا پھلکا کریلا حلیم - ڈاکٹر میمونہ حمزہ

ہماری شادی کو تقریباً پانچ برس ہو چکے تھے، ہم نئے نئے مظفر آباد سے راولپنڈی شفٹ ہوئے تھے۔ ہمارا گھر میکے سے چند گلیاں دور تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، اور ہمارے پھوپھی زاد بھائی بھی چھٹیاں گزارنے چلاس سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ اتنے عرصے بعد چند گھر اتنے قریب آ گئے تھے۔ دستر خوان پر کسی کو اپنے گھر کا کھانا پسند نہ آتا تو چپکے سے یا ہلکے اعلان کے ساتھ ہمارے ہاں آ جاتا کیونکہ ہمارے میاں صاحب خوش خوراک بھی تھے اور مہمان نواز بھی! جب عین کھانے کے وقت دروازے کی گھنٹی بجتی تو صاف ظاہر ہوتا کہ ودود بھائی ہوں گے، کبھی ان کے ہمراہ ٹیپو بھی ہوتا، اور کبھی اس کے پیچھے سے باسط بھی نمودار ہوتا۔
ایک روز ہم ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ پھوپھی زاد بھائی سعید بھائی آگئے، وہ بازار جا ررہے تھے۔ ہمارے میا ں بھی ساتھ چل پڑے۔ جاتے ہوئے اتنا ہی کہا کہ ’’باسط کے ہاتھ کھانا پکانے کا سامان بھجوا دوں گا‘‘۔
کچھ ہی دیر بعد باسط آ گیا، اس کے ہاتھ میں ایک شاپر میں قیمہ تھا، اور دوسرے میں کریلے اور ٹماٹر، ہرا دھنیا اور مرچ وغیرہ۔ اس نے سارا سامان دیتے ہوئے میاں صاحب کا پیغام دیا:
۔ ’’خالو جان کہہ رہے ہیں ، قیمہ میں کریلے اور دال چنا، دال ماش،دال مونگ، دال مسور اور ۔۔ اور سرخ لوبیا وغیرہ ڈال کر سالن بنا لیں‘‘۔
ہم جو اتنی لمبی تفصیل میں کھوئے ہوئے تھے، سرخ لوبیا کا نام سن کر پریشان ہو گئے ۔ کیا کہا انہوں نے؟ سرخ لوبیا بھی ڈالوں؟
۔ اچھا سرخ لوبیا نہ ڈالیں۔۔ وہ شاید میرے منہ سے پھسل گیا ہے۔باسط نے تصحیح کی۔
۔ اور چنا یا چنا کی دال؟ یہ دونوں ڈالنے ہیں یا ایک؟
۔ وہ بھی مجھے یاد نہیں ۔۔ بس چنے کی دال ہی ڈال دیں۔ اس نے اپنے طور پر مسئلہ حل کیا۔
اور قبل اس کے کہ ہم اس ترکیب کے اندراجات پر مزید غور کرتے، ہمارا ٹین ایجر بھتیجا سلام کر کے ہوا کے گھوڑے پر سوار نکل چکا تھا۔
اب ہم سر پکڑے بیٹھے تھے۔ صاحب نے دوسری مرتبہ ہمیں کریلوں ہی سے آزمایا تھا۔ شادی کے بعد پہلی مرتبہ جب انہوں نے بازار جاتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ پکانے کو بھجوا دیتا ہوں۔ آج آپ کھانا بنا لیں، تو اس روز بھی قیمہ کریلے ہی آئے تھے، جو ہمیں پکانے بھی نہ آتے تھے، مگر اپنی عقل لڑا کر (اس زمانے میں نہ یو ٹیوب اور انٹرنیٹ سہولت تھی نہ اماں کو فون کر کے پوچھنے کی ہمت)جو کھانا بنایا تھا وہ بڑے اچھے نمبروں میں پاس ہو گیا تھا۔ اور آج پانچ برس بعد پھر قیمہ کریلے ہی میرے سامنے رکھے تھے، مگر ان قیمہ کریلوں میں پکانے کے لیے دالوں کی ایک فہرست بھی قطار میں کھڑی تھی۔
ہم نے چند لمحے سوچا، اس لیے کہ اس سے زیادہ سوچنے کے نتیجے میں کھانا لیٹ ہو سکتا تھا۔
ہم نے آدھ آدھ گلاس ساری دالیں مختلف برتنوں میں چن کر بھگو دیں، پھر پیاز ،لہسن اور ٹماٹرتیار کئے اور قیمہ چڑھا دیا۔ دوسری جانب کریلے کاٹ کر انہیں نمک لگا کر نچوڑا اور کڑھائی میں ڈال کر فرائی کر لیا۔ قیمہ بھون کر ساری دالیں اور ڈھیر سارا پانی ڈال کر ککر بند کر دیا، دس منٹ ویٹ دینے کے بعد اتارا، اور فرائی کئے ہوئے کریلے ڈال کر پانی خشک کرنے رکھ دیا۔ کھانے کی مقدار اس قدر زیادہ تھی کہ ہمیں اس میں نمک مرچ دوبارہ بھی ڈالنا پڑا۔
ہمارا دل ابھی تک گھبرا رہا تھا کہ نجانے آج کی ڈش پزیرائی کا کونسا درجہ پائے گی۔اتنی دیر میں باہر دروازے پر گھنٹی بجی، دروازہ کھول کر ہم اندر آئے ، اور کچن میں پہنچے ہی تھے کہ صاحب بھی ہمارے پیچھے وہاں آ گئے۔ اور پوچھنے لگے:
۔ کیا پکایا آپ نے؟
۔ وہی جو آپ نے بھیجا تھا۔باسط کہہ رہا تھا کہ ۔۔
انہوں نے آگے بڑھ کرپریشر ککر کا ڈھکن کھولا، اور حیرت سے بولے:
۔ یہ کیا کیا آپ نے؟
۔ کیا کیا؟ وہی جو آپ نے پیغام بھیجا تھا۔
انہوں نے سر پر ہاتھ مارا:
۔ میں کہہ رہا تھا سعید بھائی جان سے ۔۔ ایسا پیغام مت بھیجیں ۔۔ انہوں نے واقعی پکا لینا ہے۔
اور پھر میری جانب متوجہ ہو کر بولے:
۔ آپ کو ایک بار بھی خیال نہیں آیا کہ میں ایسا پیغام بھیج سکتا ہوں کیا؟
اور جواباً ہم خاموش ۔۔ ان کا صدمہ کم کرنے کے لئے اپنی مسکراہٹ بھی چھپانی پڑی، اور ہولے سے کہا:
۔ عجیب تو لگا مجھے بھی ۔۔ لیکن شک نہیں ہوا ۔۔ ایسے ایسے کمبینیشن آپ پکا چکے ہیں کہ میں نے سوچا کہ یہ بھی کوئی نیا خیال آیا ہے آپ کے ذہن میں۔
میاں صاحب کو شدید دھچکا لگا، میں ایسا کمبینیشن پکانے کا کہہ سکتا ہوں؟ کیا جوڑ ہے قیمہ کریلے کا ان دالوں کے ساتھ؟ ہمارا دل چاہا کہ انہیں سابقہ کچھ بے جوڑ کمبینیشنز یاد کروائیں، مگر برا ہو ہماری یاداشت کا ۔۔ دماغ کی سکرین پر جگمگانے والے سارے ہی جوڑ بڑے زبردست تھے بالکل چاند سورج کی جوڑی کی مانند! اور یہ کمبینیشن کہیں بھی جگہ نہ پا رہا تھا۔مگر ہمیں کیا؟ یہ تو حکم صادر کرنے والوں کو سوچنا چاہیے تھا، ہم نے تو اطاعت کی تھی ۔۔ شوہر کے حکم کی اطاعت ۔۔ بلا چون و چراں!!
میاں صاحب نے دو ڈونگوں میں یہ ملغوبہ ۔۔ یعنی کریلہ حلیم نکالا اور ہرا دھنیا چھڑک کر ایک سعید بھائی جان کے گھر بھجوا دیا اور ایک ہماری امی جان کے ہاں۔
ہم نے دسترخوان بچھایا اور کھسیانے کھسیانے انداز میں کھانا شروع کیا۔ میاں صاحب نے آخرمیں ایک ہی تبصرہ کیا:
۔ برا نہیں ہے ۔
شام کو ہم بچوں کے ہمراہ اپنے میکے پہنچے تو ہر طرف ہماری ’’کریلہ حلیم ‘‘ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ جس کا کریڈٹ نہ جانے سعید بھائی جان کو جاتا تھا یا ہمارے میاں صاحب کو ؟!
امی جان نے تو محض مسکرا کر استقبال کیا مگر ہماری بھابھی صاحبہ (سعید بھائی جان کی بیگم) نے زور دار قہقہے سے ہمارا سواگت کیا:
۔ بہت زبردست ۔۔
ہم نے مصنوعی تاثر سے پوچھا:
۔ کیا زبردست؟؟
ہمیں یقین تھا کہ وہ ہماری اطاعت شعاری کی مداح بن چکی ہوں گی، مگر وہ اپنے ہی ترنگ میں بولیں:
۔ زبردست کریلہ حلیم ۔۔ اس نے تو آج ہمارے مرغ قورمے کو بھی مات دے دی۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر میمونہ حمزہ

ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے عربی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز 2005ء سے کیا۔ عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِنبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘، ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘، شامی طالبہ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اور مصری ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا۔ افسانے، انشائیے، خاکے، مقالہ جات اور متعدد سفرنامے بھی تحریر کیے ہیں۔ سفرناموں کا مجموعہ زیرِطبع ہے۔

Click here to post a comment