ہوم << انسان، ریاست اور نظریاتی سرحدیں - ادریس آزاد

انسان، ریاست اور نظریاتی سرحدیں - ادریس آزاد

شاید ہم انسان اب مزید اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدوں کے پجاری بن کر نہیں رہناچاہتے۔ اِن مسجدوں کے امام، متولی،مؤذن، اِن سب سے ہم عاجزآچکےہیں۔ ہم اب ہرمسجدمیں جاکرنمازپڑھناچاہتے ہیں کیونکہ خدا نے ساری زمین ہی ہمارے لیے مسجد بنادی ہے۔ ہم جان چکے ہیں کہ مسجدکی عمارت اہم نہیں، نہ ہی اس کے نام نہاد امام یا متولی اہم ہیں بلکہ مسجد کے نمازی اہم ہیں، اور نماز اہم ہے۔
جب ریل گاڑی ایجاد ہوئی تو اُس نے انسانی آبادیوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کردیا۔ حتیٰ کہ اگر کسی ویرانے میں بھی ریلوے اسٹیشن بنادیاجاتا تو کچھ ہی عرصے میں وہاں آبادی پیدا ہوجاتی ، کیونکہ ریل گاڑی خود ایک چلتی پھرتی آبادی ہوا کرتی تھی۔ لیکن جب کار ایجاد ہوئی تو انسانوں کےلیے، خود اکیلے یا اپنی فیملی کے ساتھ، اپنی آبادیوں سے دورجاکررہنامشکل نہ رہا۔ کار کی ایجاد سے پہلےبستیوں میں مکانات ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر بنائے جاتے تھے۔ آبادیاں بڑھتیں تو مکانات ایک دوسرے میں دھنس کراُوپرکواٹھناشروع ہوجاتےتھے۔ اس عہدکا، جنگل کی وحشت سے ڈرا ہوا انسان بستیوں کوشترِ بے مُہارکی طرح آوارہ نہ ہونے دیتا تھا۔ اورجب جہازایجاد ہوا تو شہروں کے گردفصیلوں کا تصوربھی یکایک قصۂ ماضی بن گیا۔ آج کتنے ہی قلعوں اورشہروں کی پرانی دیواریں ہیں جو سیّاحوں کے لیے فقط تفریح اورمطالعےکاموادبن کر رہ گئی ہیں۔
فصیل اچھی مثال ہے۔اِسے علامت بنالیناچاہیے۔ چلیے فصیل اب سے ایک علامت ہے جسےہم کسی ریاست کے گردموجودہراُس محفوظ حصارکی نشاندہی کے لیے استعمال کرینگےجواپنے مقاصداورخصوصیات کے اعتبارسےریاست کی حفاظت کے لیے موجود ہوگا۔ تو جب جہازکی ایجادنے مٹی اور پتھروں سے بنی فصیل کے وجود کا جواز ہی ختم کردیاتوریاستوں نے مٹی کی فصیلیں بناناہی ترک کردیا۔چنانچہ ضرورت تھی کچھ اورقسم کی فصیلوں کی۔ تاکہ انسانوں کو بستیوں میں آباد رہنے پر مائل رکھاجاسکے۔سائنس آچکی تھی، انسان کے دل سے تمام جنات اوربلاؤں کا خوف نکل چکاتھا۔وہ ہرجگہ رہنا چاہتاتھا، لیکن ریاست اُسے ابھی ایسا کرنے کی اجازت دینے سے ہچکچارہی تھی۔اس نے آئیڈیالوجیاں تراشناشروع کردیں تاکہ ان سے فصیلوں کا کام لیاجاسکے۔ مثلاً ’’یہ ریاست اس لیے قائم رہنی چاہیے کیونکہ ’یہ والا جو نعرہ ہے‘…… تو یہ بڑا ہی ضروری ہے،…. اِس ریاست کے افراد کے لیے اور پوری دنیا کے لیے بھی‘‘۔ ایسی فصیلیں آج بھی کھڑی ہیں۔ اسرائیل امریکہ، برطانیہ، حتیٰ کہ پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ ترممالک اس کی واضح مثالیں ہیں۔
لیکن لوگ اپنی فصیلوں میں بندہوکررہناہی نہیں چاہتے۔انٹرنیٹ کی ایجادہرفصیل کے لیے جہاز کی ایجادثابت ہوئی ہے۔لوگ اُڑناچاہتے ہیں۔کوئی کہاں کوئی کہاں جاکر رہنا چاہتاہے۔ لوگ دنیا گھومناچاہتے ہیں۔ انسان بڑاہوگیاہے۔ وہ اب اپنی ماں کی گود سے نکل کر دنیا دیکھناچاہتاہے۔ ریاست ماں تھی تو اس وقت ماں تھی جب وہ ابھی بچہ تھا۔ جب وہ جنگل کی وحشت سے ڈرتاتھا۔ دن بھر جہاں بھی ہوتا سورج غروب ہونے سے پہلے اسے اپنی آبادیوں میں پہنچنا ہوتا تھا۔ ریاست اُس وقت ماں تھی۔ وہ ماں تھی کیونکہ وہ اسے شام ہوتے ہی اپنی محفوظ آغوش میں چھپالیا کرتی تھی۔
جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتاہے تو جب تک وہ شیرخوارہوتاہے، ماں کی گود ہی اس کا محفوظ ترین مقام ہے۔لیکن جونہی وہ تین چارسال کی عمر کو پہنچتاہے اب اس کی ماں کے علاوہ بھی ایک دو لوگ اس کا محفوظ مقام بن جاتے ہیں۔ کچھ اوربڑا ہوتاہے تو پوراگھر اسے ماں کی آغوش جیسا لگتاہے۔ ٹِین ایجربنتاہے تو اپنی گلی یا اپنا محلہ اُسے ماں کی آغوش جیسا لگتا ہے۔نو جوان ہوتاہے تو اپنا شہر اسے ماں کی آغوش جیسا لگتاہے۔ اورجب ایک بھرپورجوان بن جاتاہے تو اس کاشبابِ زورآوراُسے اپنےپورے دیس کی سرزمین کا بیٹابنادیتاہے۔
اقبال نے خوب سمجھ لیاتھا کہ اسلام نے انسان کو اِس عمر سے بھی بڑاہوجانےکی تلقین کی ہے۔ اس نے اسے کہا ہے، یہ زمین ہی اللہ نے تیرے لیے مسجد بنادی ہے۔ زمین کا ہرخطہ تیری ملکیت ہے اورتو ہی پوری زمین کا وارث اورمالک ہے۔’’ ہرمُلک مِلکِ ماست کہ مِلکِ خدائے ماست‘‘۔اب تُو اپنی ماں کی گود سے نکل، کہ اب تو ایک عاقل و دانا انسان ہے۔اب تُو قیدِ مقامی اورزمینی پیوستگی سے آزاد ہوجا۔اب ساری زمین تیرا گھر ہے اوراپنے گھرکی حفاظت تیری ذمہ داری ہے۔یہ تیرے لیے قرارمکین اورمستقرالیٰ حین ہے۔یہ تیرا باغ اورباغیچہ ہے جس کی پھول کلیاں تیری مدح کی منتظرہیں۔یہاں امن اورسلامتی سے رہ۔جہاں جی چاہے گھوم۔جوجی چاہے کھا، پی۔بس اتنا خیال رہے کہ تیرے ہاتھ اورزبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔اب کے بعد تجھے کسی ہادی کی بھی ضرورت نہیں رہی جو تجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھائے کیونکہ اب تُو شبابِ زور آورسے اگلی منزل میں ہے۔ اب تُو عاقل و دانا ہے۔اوراب تجھے اپنی مدد آپ کے تحت اِس کائنات کو تسخیر کرنا ہوگا۔
پوری دنیا میں ریاست کا موجودہ وجود کسی انسان کو قبول نہیں۔ انسان ریاست کے بندھنوں سے بھاگنا چاہتاہے۔اسے اب کسی قسم کا کوئی بھی اضافی بوجھ نہیں چاہیے۔اس کی پیٹھ پر لادے گئے جتنے بھی بوجھ تھے، وہ اُس وقت اس کی ضرورت تھے۔اسے باقی انسانوں کے ساتھ ایک جگہ اکھٹے رہناتھا۔کچھ اصول درکار تھے، کچھ قوانین مطلوب تھے۔ان اصولوں اورقوانین میں سے کچھ اس کے آباؤاجداد کی طرف سے آرہے تھےتوکچھ اس کی ریاست نے اس پر لاگوکیے تھے۔لیکن اب اسے ان اصولوں کی ضرورت نہیں رہی۔وہ اب اگر اپنی آبائی ثقافت کے ساتھ جُڑ کر نہ بھی رہے تو اس کی بستی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ وہ اب اگر اپنی خاندانی، قبائلی یا مذہبی اخلاقیات کا سہارا نہ بھی لے تو اسےکچھ نہیں ہوگا۔اب اُسے انسانی اخلاقیات آتی ہے۔وہ جانتاہے کہ عالمی معاشرے میں رہنے کی کیا شرائط ہیں۔وہ اپنی ریاست سے ناراض ہےکیونکہ ریاست اس کے پیروں میں زنجیریں ڈالتی ہے۔اسے پکڑکر اپنے پاس رکھناچاہتی ہے۔کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کے شہری ، اس کے فَرد نے اسے چھوڑدیا تو اس کا وجود بھی اپنا جواز کھودیگا۔وہ اپنے شہری کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ہتھکنڈے کام نہ آئیں تو طاقت کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتی۔اسے اندازہ نہیں ہورہا کہ وہ اپنی بنیادیں کھورہی ہے۔ اسے اندازہ نہیں ہورہا کہ اگر اِس دور میں باقی رہناہے تو اسے فقط ایک کارباری منڈی سے بڑھ کر کچھ اوربھی کرکے دکھاناہوگا۔
ہاں ، عہدِ حاضر کی ریاست صرف کاروباری منڈی کے طورپر باقی رہ گئی۔ ماضی میں جب ریاست وجود میں آرہی تھی تو کچھ ریاستیں صرف اس لیے قائم ہوئیں کیونکہ وہاں اوّل اوّل کاروباری منڈیاں قائم ہوئی تھیں جنہوں نے بعد میں ریاستوں کی شکل اختیارکرلی۔ آج ریاست کی واپسی کے زمانے میں صرف وہی کاروباری منڈی بطورتلچھٹ کے باقی رہ گئی ہے اور حقیقی ریاست کی تمام ترنظریاتی سرحدات دھندلاتی جارہی ہیں بطور خاص سوشل میڈیا اورمصنوعی ذہانت کے بعد ۔ماضی کی اینالوجی سے ایسا لگتاہے کہ یہ نظریاتی سرحدات بھی ایک دن ان قدیم فصیلوں کی طرح زائرین کے لیے تفریح اور معلومات کا سامان بن کر رہ جائیں گی۔