حمیرا رحمٰن کا پہلا شعری مجموعہ "اندمال " ٹھیک چالیس برس پہلے آیا تھا ۔ اس مجموعے کی ایک غزل کا شعر ہے:
سوچ کا کیسا کھیل تھا وہ بھی
جو میں اپنے آپ سے کھیلی
"اندمال "کے تیرہ برس بعد اُن کا مجموعہ"انتساب" آیا جبکہ زیر نظر تیسرے مجموعے"بہت سے کام کرنے ہیں" اور دوسرے مجموعے کے درمیان ستائیس برس پڑتے ہیں۔ میرا دھیان ان کے پہلے مجموعے کے مذکورہ شعر کی جانب یوں گیا ہے کہ شعر کہتے ہوئے سوچ کا کھیل جو چالیس پینتالیس سال پہلے ان کے جذبوں کو ایک خاص آہنگ عطا کرکے اور ان کی ایک نہج پر تہذیب کرنے کو موجود تھا اس کا سلسلہ ابھی تک چلا آتا ہے۔ خیال اور احساس کو وہ یوں بہم کرکے غزل کے مصرعے میں ڈھالتی ہیں جیسے کوئی مصور مختلف رنگوں کے آمیزے سے ایک نیا رنگ تیار کرکے کینوس کی نذر کرتا ہے ؛ یوں کہ زندگی بولنے لگتی ہے۔ "اندمال "کا ایک شعر ہے:
میں پھنس گئی ہوں اُنہی خواہشوں کے جنگل میں
جہاں سے روز نیا تعزیہ گزرتا ہے
اور "انتساب"کی ایک غزل کا مطلع ہے:
کٹھ پتلی کا ایک تماشا مجھ میں رہتا ہے
نیند میں بھی اک جاگنے والا مجھ میں رہتا ہے
اور تازہ مجموعے کا ایک شعر ہے:
ثبات ایسا کہ ٹھہری ہوئی ہیں آوازیں
سکوت ایسا کہ خالی مکان بولتا ہے
حمیرا رحمن کی غزل کو جو قرینے مختلف بناتے ہیں وہ ان کے مزاج کا یہی پہلو ہے جس میں فکر وخیال اور جذبہ و احساس کی شدت ایک خاص تناسب میں ڈھل کر متن ہوتی ہے ؛ یوں کہ آنکھوں کے سامنے ایک تصویر سی بنتی چلی جاتی ہے۔ یہ تصویریں محض اور صرف حسی نہیں ہیں خیال کو بھی تحریک دیتی ہیں اور رواں زندگی کے بارے میں ہمیں سوچنے کی جانب مائل بھی کرتی ہیں۔
یہیں یہ بھی کہتا چلوں کہ بالعموم فکری تحریروں کا مقسوم یہی ہوتا ہے کہ معنی رہ جاتے ہیں اور متن میں لفظوں کی ترتیب عنقا ہو جاتی ہے؛ حمیرا رحمن کے شعر میں ایسا نہیں ہوتا ۔ یہاں سوچ متحرک ہوتی ہے مگر قاری کے ذہن میں ہر مصرعے کی اپنی ساخت بھی قائم رہتی ہے ؛ ذرا یہ شعر دیکھیے جو چالیس برس پہلے کا ہے، ان کے پہلے مجموعے کی پہلی غزل کا مطلع اور ابھی تک دھیان میں گونجتا ہے اور خیال کو مختلف تصویروں میں ڈھالتا رہتا ہے:
میری انگلی کی انگوٹھی میں لگی پتھر کی آنکھ
اور دریچوں میں سمٹ آئی محلے بھر کی آنکھ
اسی غزل کا مقطع بھی عرض کیے دیتا ہوں :
سادگی میں ہم حمیرا جانے کیا کیا کہہ گئے
کس قدر آہستگی سے ہنس پڑی پتھر کی آنکھ
حمیرا نے جسے اپنی سادگی سے تعبیر دیا ہے دراصل یہ ان کا غزل کی تہذیب میں ڈھلا ہوا مزاج ہے جو اپنی روایت سے آگاہ ہے تاہم انہوں نے اس میں اپنے لیے یہ راہ نکالی ہے کہ اس میں اپنے لہجے کی متانت بھی گوندھ دی ہے۔ یہ متانت نامساعد حالات کے باوصف ان کے ہاں خوش اُمید ہونے اور خوش اُمید رہنے کے سبب مزاج کا حصہ ہوئی ہے :
یہ خوش امکانیوں کے استعارے
مرے ہی گرد کے چہرے ہیں سارے
میں خوش امید رہنا چاہتی ہوں
کہ میری ناؤ ہے دریا کنارے
حمیرا رحمن کی عمر وطن سے دور کٹ رہی ہے مگر وطن میں جو کچھ ہو رہا ہے یا ہوتا رہا ہے وہ بھی ان کی شاعر ی میں کسی نہ کسی صورت جگہ پاتا رہا ہے ۔صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس خوش امکان شاعرہ کے دل میں جو ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور درد کا مسلسل احساس شروع سے آخر تک کلام کا حصہ ہوتا رہا ہے وہ اسی عصری سیاسی سماجی شعور اور وابستگی کا زائیدہ ہے:
شہر میں فیصلے کئی آج سنا دیے گئے
حبس بڑھا دیا گیا، خواب گھٹا دیے گئے
۔۔
سانحہ روز گزرتا ہے مرے شہروں سے
لیکن اخبار میں تصویر ہے تردید کے ساتھ
۔۔
چراغ جلتے ہوئے باربار بجھتا ہے
ہوا میں زہر کی سرگوشیاں بہت سی ہیں
مجموعی طور پر دیکھیں تو حمیرا رحمن؛ نہ تو نامانوس لغت سے چونکاتی ہیں نہ موضوعات کے عجب سے ؛ وہ اپنی غزل کا مواد اپنی ہجرت کے موسموں سے ،اپنے سماجی تعلقات میں بندھی عورت ، بطور خاص ماں ہونے سے، اپنی یادوں کی یلغار سے ، اپنی سیاسی اخلاقی وابستگیوں سے ، سماجی ناانصافیوں پر اپنے دھیمے دھیمے احتجاج سے، اپنی خوش امکانیوں اور اندیشوں سے اور پل پل بدلتے اور کہیں کہیں گدلاتے موسموں سے اٹھاتی ہیں ۔ وہ اس شعری مواد کو مانوس اور موزوں لفظیات کے ساتھ اپنے ذاتی احساس کے پانیوں سے گوندھ کر تہہ دار امصار میں یوں ڈھالتی ہیں کہ انہیں پڑھتے ہوئے تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہی وہ قرینہ ہے جو انہیں مختلف کرتا ہے اور ان کی غزل کوایک الگ ساتخلیقی وقار بھی عطا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔
(زاویہ کے زیر اہتمام حمیرا رحمن کے تیسرے مجموعے"بہت سے کام باقی ہیں" کی تقریب میں پڑھی گئی تحریر)
تبصرہ لکھیے