میری گذارشات کا اصل پیغام یہ ہے کہ انسانی نفسیاتی و اخلاقی مسائل بلکہ روحانی مسائل ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ انسانی روح، جسم اور نفس میں سے ایک حصہ مسئلے میں مبتلا ہو تو دوسرے حصوں پر اس کے اثرات ہوتے ہیں۔
تو جب مسئلہ کثیر الجہتی ہو تو اس پر کام بھی مختلف سمتوں سے کرنا چاہیے۔ اگر اصل مسئلہ ڈیپریشن ، اینزائٹی سے شروع ہوا۔ اچھا بھلا خدا رسول ص پر ایمان رکھنے والا شخص، اداس مایوس، چڑچڑا، بے زار، زندگی سے نالاں سب سے کٹ کر پڑا ہے۔ زندگی اجیرن ہے۔ خدا سے مایوس ہے۔ عبادات میں دل نہیں لگتا ہے۔ ہر وقت فکریں تنگ کرتی ہیں ۔۔ بچے گھر رشتے متاثر ہونے لگے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ تو ظاہر ہے دوا اور تھیراپی سے ابتدا کریں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ایسا ایمان میں کمزوری کی وجہ سے ہوا۔ اچھے خاصے حفاظ، عالمات، علماء اورنیک پیارے لوگوں کو ایسے مسائل ہوتے ہیں۔ خدارا علاج کروائیے۔
جسمانی امراض ہیں تو جب تک جسم مسلسل اذیت میں مبتلا رہے تو نہ تھیراپسٹ کی بات سمجھ میں آتی ہے اور نہ مذہبی ناصح کی بات سے دل بہلتا ہے۔ جسمانی تکالیف کچھ کم ہوں تو لوگ بہتر انداز میں تھیراپی میں انگیج ہوتے ہیں۔
اسی طرح جب اخلاقی مسائل ہیں۔ گندی چیزیں دیکھنے سننے اور کرنے کا خود کو عادی بنایا ہوا ہے۔ لوگوں کو مستقل اذیت دینا، چیخنا، بے عزت کرنا، مارنا، گھر والوں کی پرواہ نہ کرنا۔ بخیلی یا فضول خرچی۔ چوری چکاری۔ رشوت ستانی۔ یہ سب قلبی امراض ہیں۔ کیا ان کے علاج کی ضرورت نہیں؟
جو لوگ اسلامی سائکولوجیکل اپروچ سے تھیراپی کروانے کو تیار ہوں ، میں کیسے مان لوں کہ وہ شدید قسم کے کرائسس آف فیتھ کا شکار ہیں؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ زندگی میں دین کی معنویت اور
Relevance
سے آگاہ بھی ہیں اور اس کو قبول کرکے اس پر کام کرنے کو تیار ہیں۔
میرا مخاطب وہ ہوتے ہیں ۔۔ جو اپنے ایموشنل اور سائکولوجیکل کرائسس میں اس کو تسلیم نہیں کررہے۔ جو محض مینٹل ہیلتھ ڈایگنوسس کو اپنے تمام مسائل کی وضاحت سمجھ رہے ہیں۔
ان کے لئے پیغام دیتی ہوں کہ میرے عزیز اگر زندگی بالکل بے معنی لگنے لگی ہے میری عزیز اور سارا غصہ ، مایوسی ، بے حسی اس کی وجہ سے ہے۔ رشتے ناتے سب بے کار لگتے ہیں ، قدروں پر سے ایمان اٹھ رہا ہے ۔ تو انکار خدا کے بجائے ، خدا کو کھوجیے۔ وہ ملے گا تو مقصد زندگی بھی مل جائے گا۔
آپ صرف مغربی سائکولوجیکل اپروچ پر ایمان رکھتے ہیں تو مختصر اور طول طویل تھیراپی کے سیشنز انسانوں میں سے جرائم ، بد اخلاقی ، بے راہ روی، مادہ پرستانہ بے حسی کم نہیں کرواسکتے۔ بلکہ سیلف ہارم بھی کم نہیں ہوتا۔ لوگ بس سیلف اویر ہوجاتے ہیں۔ کچھ اصطلاحات سیکھ لیتے ہیں۔
لیکن جو لوگ امام غزالی ، بلخی، اور ابن قیم کا حوالہ دے رہے ہیں ۔ تو علم النفس پر ان کی تعلیمات کیا کہتی ہیں؟کیا وہ ہر شخص کو سائکو تھیراپی کا ہی مشورہ دیتے ہیں؟
ان کے یہاں حصول علم کی بھی نصیحت ہے، اذکار و عبادات پر کام کرنے کی بھی، اپنی معمولات میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی اہمیت کا بیان ہے۔
اور امام غزالی کا تو اصل کام ہی معرفت نفس کے ذریعے معرفت خدا ہے۔ گویا جو لوگ زندگی کے بے معنی پن، بے مقصدیت، خدا سے خفگی، شکووں ، مذہب کے جبر پر ناراض ہیں ۔ اور جن کو تشکیک
Existential crisis
کی طرف لے گئی ہے۔ جن کو عام دینی وعظ و نصیحتیں اپیل نہیں کرتیں ۔ ان کے لئے غزالی کا کام خدا کی کھوج ہی تو ہے۔
جو لوگ ریشنیلیٹی مین خدا کا انکار کررہے ہیں ، ان سے اسی ریشنل اپروچ کے ساتھ کام کرنا ۔
ایسے پیارے کرب میں جلتے لوگوں سے میری ایک گذارش ہے۔
Trust the process !!
جس طرح دوا، علاج اور تھیراپی کے معاملے میں معالج پر اعتماد کیا تھا نا ، اسی طرح روح کے خالی پن کے علاج کے لئے عبادات ، حصول علم اور اذکار اور نیکیوں پر اعتبار کیجیے۔یہ آپ کے دل کو یقین اور سکینت بھی عطا کرے گا ان شاء ا للّٰہ
اللہ کریم آپ کو یونہی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ بہت سارے لوگوں کو راستہ ملتا ہے۔ آپ کو بھی ملے گا ان شا ء ا للّٰہ
تبصرہ لکھیے