یہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے ۔ ایسا ہی بادشاہ جیسے بادشاہ ہمارے ہاں ہوتے ہیں ۔ دنیا کے ہر خطے کا بادشاہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ یہ بادشاہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے غریب مزدوروں اور دہقانوں کا خون نچوڑ کر اپنے عشرت کردے تعمیر کرتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق میں ہزاروں ایسے بادشاہوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کی بنیادیں بھائی بھتیجوں بیٹوں اور باپ کی لاشوں پر استوار کی تھیں ۔ قبرستان ایسے بادشاہوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنی انا کی تسکین کے لئے کبھی تو انسانی کھو پڑیوں کے مینار تعمیر کرتے ہیں تو کبھی ہنستے بستے شہروں کو خاک کا ڈھیر بنا دیتے ہیں ۔ کبھی اپنی محبت سے محروم ہونے کے بعد تاج محل تعمیر کرتے ہیں تو کبھی اپنی فتوحات کی نشانی کے طور پر قلعے اور مینار بنواتے ہیں ۔
سب باشاہوں کی ایک جیسی کہانی ہوتی ہے ۔
یہ بھی سری لنکا کے ایک ایسے ہی بادشاہ کا قصہ ہے جس نےاقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے باپ کو زندہ دیوار میں چنوا دیا اور جنگل کے بیچوں بیچ دو سو میٹر اونچی چٹان پر اپنا جنت نما عشرت کدہ تعمیر کروایا تھا ۔
یہ کہانی کوئی لگ بھگ دو ہزار سال پرانی ہے ۔
سری لنکا کے موجودہ دارالسطنت
کولمبو سے دوسو کلومیٹر شمال کی طرف وسطی سری لنکا میں ایک شہر ہے جسے انورادھاپورہ کہتے ہیں ۔ انورادھا پورہ تاریخی اعتبار سے سری لنکا کا پہلا دارالحکومت ہے ۔
کولاوامسا Cūḷavaṃsa سری لنکا کی تاریخ پر مبنی دستاویز ہے جس میں سری لنکا کے بادشاہوں کی تاریخ رزمیہ شاعری میں بیان کی گئی ہے یہ پالی Pali زبان میں لکھی گئی تھی ۔ اور چوتھی صدی عیسوی سے 1815ء تک کے دور کا احاطہ کرتی ہے ۔ پالی زبان بدھوں کی مقدس زبان ہے جس میں ان کی سب پرانی مقدس کتابیں لکھی گئی ہیں ۔
اس کتاب کے مطابق انورادھاپورہ سلطنت سری لنکا کی دوسری مستند سلطنت تھی ۔ اس سلطنت کو 437 ء قبل مسیح میں ہندوستان کے وجے خاندان سے تعلق رکھنے والے پانڈوکبھایا نے قائم کیا تھا ۔ یہ سلطنت ڈیڑھ ہزار سال 1017ء تک قائم رہی -
پانچویں صدی کے آغاز میں سری لنکا چھوٹی چھوٹی چھ ریاستوں میں بٹ چکا تھا ۔ ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا انورادھا پورہ پر انڈیا کے تامل ناڈو کی طرف سے آنے والے دراوڑ حملہ آوروں کی حکومت تھی ۔
455 ء میں چندرگپت موریہ کی نسل سے تعلق رکھنے والے ایک راجا داھاتو سنہا Dhatusena نے آخری دراوڑ حکمران پتھیا کو شکست دے کر انورادھا پورہ پر قبضہ کر لیا اور چھبیس سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور پورے سری لنکا کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ۔ دھاتو سنہا ایک انصاف پرور ، بہت رحمدل اور اپنی رعایا سے محبت کرنے والا راجہ تھا۔
سری لنکا میں دو ہی موسم ہوتے ہیں بارش کا موسم اور
خشکی کا موسم
اور دونوں ہی موسم زراعت کے لئے تباہ کن ہوتے تھے بارش کے موسم میں اتنی بارش ہوتی کہ سیلاب ہر چیز بہا کر لے جاتے اور فصلیں تباہ ہو جاتیں اور خشکی کے موسم میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی اگانا ممکن نہ ہوتا ۔ دھاتو سنہا نے سری لنکاکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بند باندھ کر نشیبی علاقوں میں مصنوعی جھیلیں بنائیں جن میں بارش کا پانی اکٹھا کیا جاتا تھا اور پھر ان سے نہریں نکال کر ان سے آبپاشی کی جاتی تھی ۔ اس نے اٹھارہ بڑی اور اٹھارہ چھوٹی جھیلیں بنائیں یہ جھیلیں نہروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں ۔ ان میں کالا ویوا جھیل سب سے بڑی تھی جو سات ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرتی تھی ۔
آبپاشی کا یہ نظام دوہزار سال کے بعد آج بھی سری لنکا میں رائج اور موجود ہے اور سری لنکا کی زراعت اور معشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔
آج بھی اگر آپ کسی اونچی چوٹی پر کھڑے ہو کر نیچے وادی میں نظر دوڑائیں تو انو رادھاپورہ اور دمبھولا کے علاقے میں آپ کو دور دور تک ان جھیلوں کاایک جال سا بچھا ہوا نظر آتاہے ۔
اس کے ان اقدامات کی وجہ رعایا اتنی خوشحال ہو ئی کہ پورے ملک میں دولت کی ریل پیل ہو گئی ۔ سری لنکا میں کوئی غریب نہ رہا ۔
یوں ایک اچھے بادشاہ کی فہم و فراست سے بنی نوع انسان پچھلے دو ہزار سالوں سے مستفید ہو رہی ہے ۔
دھاتو سنہا کے دو ہی بیٹے تھے ۔
کیساپا Kashyapa کی ماں ایک لونڈی تھی جبکہ موگالانا Moggallāna ایک شہزادی کے بطن سے تھا جو ہندوستان کے ایک راجہ کی بیٹی تھی ۔ لہٰذا چھوٹا ہونے کے باوجود اسے ولی عہد بنا دیا گیا ۔
دھاتو سنہا کی ایک بیٹی بھی تھی جو اس کے بھانجے میگارا Migara سے بیاہی تھی ۔ میگارا فوج کا سپہ سالار بھی تھا ۔
473 ء میں میگارا اور اس بیوی کے درمیان ایک گھریلو ناچاقی پیدا ہوئی اور ایک جھگڑے کے بعد میگارا نے اپنی بیوی کو اتنا پیٹا کہ وہ لہولہان ہو گئی ۔ اس جھگڑے میں دھاتوسنہا کی بہن اور میگارا کی ماں نے اپنے بیٹے کا ساتھ دیا ۔
دھاتو سنہا اس پر اتنا غضب ناک ہوا کہ اس نے اپنی بہن اور میگارا کی ماں کو زندہ جلا دیا ۔ اور میگارا کو برطرف کر کے اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا ۔
میگارا جان بچانے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے خفیہ طور پر کیساپا سے ساز باز کر کے اسے باپ کے خلاف بغاوت پر اکسایا ۔ کیساپا پہلے ہی باپ کے خلاف بھرا بیٹھا تھا ۔ وہ بڑا ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو تخت کا حقدار سمجھتا تھا ۔چنانچہ اس نے میگارا کی مدد سے فوجی بغاوت کر دی اور باپ کو گرفتار کر کے تخت پر قبضہ کر لیا ۔
اس نے موگالاناکو بھی گرفتار کر کے قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ جان بچا کر جافنا فرار ہو گیا اور پھر وہاں سے ہندوستان اپنے ننھیال جانے میں کامیاب ہو گیا ۔
کیسا پا نے باپ کو جیل میں ڈال دیا اور حکومت کرنے لگا لیکن میگارا کے دل میں دھاتو سنہا کے خلاف نفرت کی بھڑکتی آگ سرد نہ ہوئی ۔ اس نے کیساپا کو ورغلایا کہ دھاتو سنہا نے مال و دولت کے انبار کہیں دفن کر رکھے ہیں ۔
کیساپا نے باپ پر سختی کی تو وہ اسے کالا ویوا جھیل کے بند پر لے گیا اور چلو میں پانی بھر کر بولا کہ یہی میری دولت ہے ۔
کیساپا کی آنکھوں پر نفرت اور لالچ کی پٹی بندھی تھی اس نے غضب ناک ہو کر باپ کو ڈیم کی دیوار میں زندہ چُنوا دیا ۔
کیساپا کے اس اقدام نے اسے عوام سے دور کر دیا اور وہ پِتھرو گاتھاکا کیساپا ( باپ کو قتل کرنے والا کیساپا ) کے نام سے مشہور ہوگیا عوام میں اس کے خلاف نفرت اتنی بڑھ گئی ۔ کہ اسے ایک طرف تو اپنی جان ہر وقت خطرے میں نظر آنے لگی ۔ اور دوسری طرف باپ سے نجات حاصل کرنے کے بعد اب اسے دن رات موگالانا کی فکر بھی کھائے جا رہی تھی ۔
اسے یقین تھا کہ موگالانا ایک دن اپنا تخت و تاج لینے کے لئے واپس آئے گا ۔
وہ اسی فکر میں گُھلا جا رہاتھا ۔
اور دن رات اسی سوچ میں مگن رہتا تھا کہ اگر موگالانا واپس آیاتو وہ اس کا مقابلہ کیسے کرے گا ۔
پھر ایک دن شکار کھیلتے ہوئے وہ دمبولا کے نواح میں موجود جنگلات کے بیچوں بیچ کھڑی شیر کی جسامت اور شکل جیسی اس دو سو میٹر اونچی چٹان کی طرف آ نکلا جو بے شمار دوسری چھوٹی بڑی مختلف قسم کی ساخت اور جسامت کی چٹانوں میں گھری ہوئی تھی ۔ ان چٹانوں کی ساخت اور ترتیب نے اس جگہ میں عجیب و غریب پراسرار قسم کی بھول بھلیاں تشکیل دے دی تھیں ۔
ان چٹانوں میں کئی قدرتی گھپائیں بنی تھیں جہاں صدیوں سے نروان اور گیان کی تلاش کرنے والے بدھ بھکشو رہتے چلے آئے تھے ۔
اس جگہ کو دیکھ کر اس کے ذہن رسا میں وہ منصوبہ آیا جس نے اسے رہتی دنیا تک کے لئے زندہ کر دیا ۔ اس نے یہ جگہ بھکشوؤں سے زبردستی خالی کروائی اور وہاں اپنی نئی راجدھانی کی تعمیر شروع کروا دی ۔ ہزاروں مزدور اٹھارہ سال تک دن رات اس کے خواب کو تعبیر دینے کے لئے کام کرتے رہے ۔ کروڑوں روپے اس پر خرچ ہوئے ۔ وہ انورادھا پورہ چھوڑ کر اس جگہ منتقل ہو گیا اب اس کی ساری توجہ عوام سے ہٹ کر اپنی اس جنت کی تعمیر پر مرکوز ہو چکی تھی۔ ریاست کا خزانہ ، اس کے سارے وسائل اور طاقت اب عوام کی فلاح وبہبود کی بجائے ان چٹانوں میں اس کے خوابوں کا شہر تعمیر کرنے میں استعمال ہو رہی تھی ۔
جس میں اسے اٹھارہ سال لگ گئے ۔
اور پھر ایکدن وہ بدھ بھکشوؤں کی اس عبادت گاہ کو ایک مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس نے دو سو میٹر اونچی اس مستطیل چٹان کو ایک بیٹھے ہوئے شیر کے مجسمے میں بدل دیا ۔
چٹان پر اوپر جانے کا رستہ اس شیر کے منہ سے ہو کر گزرتا تھا۔
جس کی وجہ سے لوگ اس جگہ کو سریگئی کہنے لگے ۔
سریگئی اصل میں دو سنہالی الفاظ سنہا اور گئیری Siṃhagiri کا مجموعہ ہے ۔ جس کا مطلب ہے شیر جیسی چٹان ۔ وقت کے ساتھ سنہاگئیری مختصر ہو کر سریگئی بن گیا ۔
اس نے چٹان کے اوپر موجود اڑھائی ایکٹر مسطح جگہ پر قلعہ تعمیر کروایا اور اس قلعے کے اندر اپنا دو منزلہ محل بنوایا ۔ جہاں سے میلوں دور تک کا علاقہ صاف نظر آتاتھا ۔
نیچے زمین پر اس نے اس چٹان کے اردگرد آٹھ باغ بنوائے اور ان باغات کے اندر بھی دو محل تعمیر کروائے بیابان جنگل میں اٹھارہ ہزار ایکڑ پر اپنے خوابوں کی جنت تشکیل دے دی اور پھر اپنی اس جنت کو اپنے بھائی کے متوقع حملے سے محفوظ کرنے کے لئے اس کے گرد تین فصیلیں اور دو خندقیں کھدوائیں جن میں آدم خور اور خونخوار مگر مچھ گھومتے پھرتے تھے ۔ دنیا جہان سے ہزاروں خوبصورت اور حسین ترین عورتیں اور کنیزیں اکٹھی کیں ۔ اس جنت میں باغات تالابوں فواروں اور دو سو میٹر اونچی چٹان پر موجود محل تک پانی پہنچانے کے لئے سرنگوں اور پائپوں کا ایک زیر زمین سسٹم بنوایا ۔ اس بڑی چٹان کے عین درمیان میں بنی ایک غار میں مصوری کے ایسے شاندار شاہکار بنوائے جو آج بھی آنکھوں کو چندیا دیتے ہیں اس غار میں پانچ سو جوان عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ پینٹگز ہیں جن میں سے کسی ایک عورت کی شکل بھی دوسری سے نہیں ملتی اس کھلی غار کے سامنے کئی سو میٹر لمبی شیشے کی دیوار بنوائی ۔ جو کسی نادر روزگار عجوبے سے کم نہیں ۔
ان فصیلوں کے باہر اس نے ایک نیا شہر بسایا ۔ اور اپنی راجدھانی انورادھا پورہ سے یہاں منتقل کر دی ۔
یہ نیا شہر پرانی راجدھانی سے ستر کلو میٹر دور واقع تھا ۔
اس جنت کو بنانے میں اسے اٹھارہ سال لگ گئے۔ اور جب اس کی جنت مکمل ہو گئی تو ایک دن اس کا سوتیلا بھائی اپنا حق وصول کرنے واپس لوٹ آیا ۔
موگالانا نے اپنے ننھیال کی مدد سے ایک بڑی فوج بنائی اور سریگئی پر حملہ آور ہوا ۔
کیساپا نے قلعہ بند ہو کر لڑنے کی بجائے کھلے میدان میں بھائی سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔
495 ء کو دمبولا کے نواح میں سریگئی گاؤں کے باہر دونوں کی فوجیں آمنے سامنے آئیں ۔ کیساپا بہترین جرنیل بھی تھا ۔ جنگ کے دوران اس کا پلہ شروع سے ہی بھاری تھا ۔ دوپہر کے قریب موگالانا کی شکست صاف نظر آنے لگی اور اس کی فوج میدان جنگ سے بھاگنا شروع ہو گئی ۔ عین اسوقت جب کیساپا جنگ جیت چکا تھا اپنے مقدر کی جنگ ہار گیا ۔ کہیں سے ایک نامعلوم اڑتا ہوا تیر اس کے ہاتھی کی دائیں آنکھ میں آ کر لگا ۔
ہاتھی زخمی ہو کر بری طرح بِدکا اور رخ موڑ کر اپنی ہی فوج کو کچلتا ہوا میدان جنگ سے فرار ہو گیا ۔ کیساپا ہودے سمیت نیچے آن گرا۔ اس کی فوج میں اس کے مرنے کی خبر پھیل گئی ۔ جس پر اس کے سپاہی بد دل ہو کر ہتھیار ڈالنے لگے ۔ موگالانا جو تھوڑی دیر پہلے تک شکست کھا چکا تھا ۔ اس غیبی امداد کے آنے کی وجہ سے فاتح ٹھہرا ۔ جب اس کے سپاہیوں نے زخمی کیساپا کو زندہ گرفتار کرنے کی کو شش کی تو اس نے موت کو گرفتاری پر ترجیح دی اور اپنے خنجر سے اپنا گلا کاٹ دیا ۔
اٹھارہ سال تک بھائی کی آمد کے انتظار میں فوجی تیاریاں کرنے والا کیساپا میدان جنگ میں دو پہر بھی نہ ٹھہر پایا اور اپنے اقتدار اور زندگی کی جنگ ہار کر ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں عبرت کی ایک زندہ مثال بن گیا ۔
موگالانا نیا راجہ بن گیا اس نے اپنی راجدھانی دوبارہ انورادھاپورہ منتقل کردی ۔
سریگئی کی جنت ایک بار پھر بُدھ بھَکشوؤں کے قبضے میں آگئی ۔
بھکشو محلات کی بجائے غاروں میں رہتے تھے ۔ کیسا پا کی جنت مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اجڑ کر کھنڈرات میں بدلنے لگی ۔ باغات اجڑنے لگے ۔ محلات ویران ہو گئے ۔ فوارے اور تالاب خشک پڑ گئے ۔
بُدھ بھکشوؤں کی عبادت گاہ چودھویں صدی تک آباد رہی اور پھر بھکشو بھی کسی نامعلوم وجہ سے اس علاقے کو چھوڑ گئے۔
اور یہ علاقہ بالکل ویران ہو گیا ۔ صدیوں تک اس پر وقت کی دھول جمتی رہی اور ایک وقت ایسا آیا کہ راہ گزینوں نے بھی یہاں سے گزرنا چھوڑ دیا اور یہ گردش دوراں کی جھاڑ جھنکاڑ میں ایسا چھپا کہ اہل علاقہ کی نظروں سے بھی اوجھل ہوگیا ۔
رفتہ رفتہ یہ جگہ تاریخ کے دھندلکوں میں کہیں کھو گئی ۔
اور یوں ہی کئی صدیاں گذر گئیں ۔
1017 ء میں انورادھا پورہ کی ریاست بھی اپنے انجام کو پہنچی اور پولنوارہ انورادھاپورہ کی جگہ سری لنکا کا دارلحکومت بن گیا ۔ 1595ء میں طاقت کے سارے سر چشمے پولنوارہ سے کینڈی منتقل ہوگئے ۔
1815 ء میں انگریزوں نے کینڈی کی آخری سلطنت کو فتح کرکے دو ہزار تین سو سالہ پرانا سنہالی اقتدار ختم کر دیا ۔ اور لنکا سیلون بنا ۔ اور سیلون کا دارالحکومت کولمبو بن گیا ۔
سریگئی پر وقت کی دھول گہری ہوتی چلی گئی ۔ اور یہ تاریخ کے اوراق میں دفن ہوگیا ۔
صرف ایک کہانی باقی رہ گئی ۔
پِتھرو گاتھاکا کیساپا کی کہانی ۔ باپ کو قتل کرنے والے کیساپا کی کہانی اور اس کی بنائی جنت کی کہانی جو سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہی ۔
1831 ء میں برٹش آرمی کا میجر جوناتھن فوربزMajor Jonathan Forbes پولنوارہ سے واپس کینڈی جاتے ہوئے اس چٹان کے قریب سے گزرا تو اس نے یہاں جنگل اور جھاڑ جھنکاڑ میں گھرے ہوئے یہ کھنڈرات دیکھے ۔ جہاں سانپوں اور دوسرے حشرات العرض کی اتنی کثرت تھی کہ گھوڑے کی پیٹھ سے اتر کر پیدل اس علاقے کی سیر موت کو دعوت دینے کے مترادف تھی ۔ جب وہ ریٹائیرڈ ہو کر واپس لندن پہنچا تو اس نے ایک کتاب لکھی جسکا نام
“Elven years in Ceylon “
تھا ۔ اس نے اپنی اس کتاب میں ان کھنڈرات اور اس کے بارے میں مقامی لوگوں کی سینہ بہ سینہ محفوظ کہانی کا ذکر کیا ۔ جب اس کی کتاب شائع ہوئی تو اس نے تہلکہ مچا دیا ۔ لندن کے ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی ۔
1890 ء میں سری لنکا کے گورنر سر آرتھر گارڈن نے ماہر آثار قدیمہ ایچ سی پی بِل H C P Bell کو خاص طور پر سریگئی کے پراجیکٹ پر مامور کیا ۔ ایچ سی پی بل نے 1892ء میں اس گمشدہ جنت کو دوبارہ دریافت کر لیا ۔
رابن ونکس Robin Winks نے اپنی کتاب “ آکسفورڈ ہسٹری آف دی برٹش ایمپائر “ میں لکھا ہے کہ
“ 1890 ء اور 1912ء کے درمیان ایچ سی پی بِل نے سریگئی میں مدفون کئی خزانے دریافت کئے اور انہیں لندن منتقل کر دیا ۔ “
1948 ء میں سری لنکا نے آزادی حاصل کی ۔
بِل کے ریسرچ ورک کو بنیاد بناتے ہوئے 1980ء میں سری لنکا گورنمنٹ نے ورلڈ بینک کی مدد سے اس جگہ کی تزئین و آرائش اور مرمت کروائی ۔ چٹان پر اوپر جانے کے لئے زینہ تعمیر کروایا ۔ اور دوسرے حفاظتی بندوبست کئے ۔ اس پراجیکٹ پر چالیس ملین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ۔اور پھر اس جگہ کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ۔
سن ڈے آبزرور
Sunday Observer نے اسے
Sigiriya - fortress in the sky
اور
Sigiriya - The most Spectacular site in the South Asia
قرار دیا ہے ۔
1911 ء میں اس جگہ کو یونیسکو کی ورلڈ ہیرڑیج لسٹ World Heritage list میں شامل کر لیا گیا ۔
آج کوئی نہیں جانتا کہ کیساپا خود کہاں دفن ہے لیکن اس کی بنائی جنت دیدہ عبرت نگاہ بن گئی ہے ۔ ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں کروڑوں سیاح یہاں آتے ہیں ۔
صرف پچاس ڈالر دے کر اسے عبرت ، حیرت واستعجاب اور ستائش کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ دیکھتے ہیں - اس کی کہانی سنتے ہیں اور دنیا کی بے ثباتی اور سنگدلی کا سبق دل میں لئے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ آپ کا کبھی سری لنکا جانا ہو تو سریگئی کی اس عجوبہ روزگار دنیا کو دیکھنے ضرور جائیے گا کہ اس کے بغیر سری لنکا کی یاترا ادھوری
ہے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
تبصرہ لکھیے