ہوم << بدلتی دُنیا میں ایک تزویراتی خواب - کامران رفیع

بدلتی دُنیا میں ایک تزویراتی خواب - کامران رفیع

ٹرمپ کی واپسی اور چین کو تنہا کرنے کی ان کی پالیسی سے شروع ہونے والے منظرناموں میں ہم بدلتی ہوئی اتحادی صف بندیوں، تنازعات، اور اقتصادی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہیںتو اس تازہ ترین منظرنامے میں، ہم ایک ایسا انقلابی اتحاد دیکھتے ہیں جس میں پاکستان اور افغانستان تاریخی اختلافات کو ختم کرکے ایک کنفیڈریشن بناتے ہیں، جو وقت کے ساتھ فیڈریشن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ اتحاد استحکام اور تعاون کو فروغ دیتا ہے اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو اس فریم ورک میں شامل کرکے خطے کے اقتصادی امکانات کو کھولتا ہے، ایک محفوظ طرز حکمرانی کا نظام قائم کرتا ہے، اور اسے عالمی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم مقام پر لے جاتا ہے۔ یہ وژن نہ صرف چیلنجز اور مواقع کو نمایاں کرتا ہے بلکہ بدلتے ہوئے عالمی نظام میں راستہ تلاش کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک روڈ میپ بھی فراہم کرتا ہے۔

منظرنامے کا پس منظر
اس منظرنامے میں، پاکستان اور افغانستان دہائیوں پرانے عدم اعتماد، تنازعات، اور عدم استحکام پر قابو پاتے ہوئے ایک کنفیڈریشن بناتے ہیں جو سیاسی، اقتصادی، اور عسکری تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ ابتدا میں یہ کنفیڈریشن خودمختاری کو محفوظ رکھتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ایک مربوط فیڈریشن کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس میں مشترکہ طرز حکمرانی اور سلامتی کے طریقہ کار شامل ہوتے ہیں۔ یہ ڈھانچہ وسطی ایشیائی ریاستوں (قازقستان، کرغیزستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان) کو شامل کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے، اور اس اتحاد کو عالمی جغرافیائی سیاست میں ایک نمایاں مقام فراہم کرتا ہے۔

مسلم شناخت کے تحفظ کی اہمیت
یہ اتحاد صرف ایک اسٹریٹجک اور اقتصادی اقدام نہیں بلکہ مسلم شناخت اور ورثے کے تحفظ کے لیے ایک تاریخی ضرورت ہے۔ جنوبی اور وسطی ایشیا اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ہے، جہاں البیرونی اور ابن سینا جیسے اسکالرز اور مغلوں کی عظیم تعمیرات نے تاریخ کو تشکیل دیا۔ لیکن یہ مشترکہ ورثہ ہندوتوا جیسے نظریات سے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہا ہے، جو مسلمانوں کے تاریخی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک متحد پاکستان-افغانستان-وسطی ایشیا اتحاد نہ صرف اقتصادی اور اسٹریٹجک طاقت فراہم کرے گا بلکہ اسلامی اقدار، ثقافت، اور تعلیم کا قلعہ بھی ثابت ہوگا۔ تاریخی تحقیق، تعلیمی اصلاحات، اور ثقافتی تبادلے کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے، یہ اتحاد اسلامی شناخت کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرے گا اور خطے کے مسلمانوں کو اپنی تاریخ اور کردار کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔

چیلنجز اور مواقع
1. تاریخی اور ثقافتی اختلافات
• پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ عدم اعتماد، جیسے ڈیورنڈ لائن کا تنازع، حل کرنا ہوگا۔
• افغانستان کی قبائلی ساخت اور مرکزی حکومت کے خلاف تاریخی مزاحمت اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
• متنوع قومی شناختوں کو متحد کرنے کے لیے سفارتی حکمت عملی اور شمولیت پر مبنی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔
2. سلامتی کے خدشات
• دہشت گردی اور شدت پسندی جیسے خطرات استحکام کی کوششوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
• افغانستان کے مختلف نسلی گروہوں—پشتون، تاجک، ازبک، اور ہزارہ—کی منصفانہ نمائندگی یقینی بنانا ضروری ہے۔
3. علاقائی اور عالمی مزاحمت
• بھارت اس اتحاد کی مخالفت کر سکتا ہے، کیونکہ یہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو خطرہ سمجھتا ہے۔
• امریکہ، اگرچہ استحکام کا حامی ہے، لیکن پاکستان-افغانستان اتحاد کو چین کے قریب دیکھ کر محتاط ہو سکتا ہے۔
• روس اور ایران اس اتحاد کو وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنی برتری کے لیے خطرہ سمجھ سکتے ہیں۔
______________
روڈ میپ
پہلا مرحلہ: کنفیڈریشن کا قیام (1-3 سال)
• اعتماد سازی: ڈیورنڈ لائن جیسے تنازعات حل کرنے کے لیے اقدامات۔
• اقتصادی تعاون: تجارت، انفراسٹرکچر، اور توانائی کے منصوبوں پر مشترکہ کمیشنز کا قیام۔
• سلامتی کی ہم آہنگی: سرحدی انتظام اور انسداد دہشت گردی کے لیے مشترکہ کونسل کا قیام۔
دوسرا مرحلہ: فیڈریشن کی طرف منتقلی (4-7 سال)
• متحد طرز حکمرانی: اہم پالیسیوں میں مشترکہ فیصلہ سازی کے لیے کنفیڈریشن کو فیڈریشن میں تبدیل کرنا۔
• اقتصادی انضمام: گوادر پورٹ اور وسطی ایشیا کو جوڑنے کے لیے راہداریوں کی تعمیر۔
• ادارہ سازی: افغان حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستانی مہارت کا استعمال۔
تیسرا مرحلہ: وسطی ایشیا تک توسیع (8+ سال)
• توانائی اور تجارت: خطے کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے تجارتی راستے اور توانائی کے منصوبے۔
• عالمی روابط: اتحاد کو چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور مشرق وسطیٰ کے بازاروں سے جوڑنا۔
• علاقائی سفارت کاری: روس اور ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات مضبوط کرنا۔
یہ ایک خواب ہے کہ جس مٰیں پاکستان-افغانستان کنفیڈریشن، جو وقت کے ساتھ وسطی ایشیائی فیڈریشن میں تبدیل ہوتی ہے۔ یہ خطے میں استحکام اور خوشحالی کے لیے ایک جراتمند لیکن قابل حصول وژن ہے۔ یہ اتحاد نہ صرف اقتصادی مواقع کو کھولے گا بلکہ اسلامی تہذیب کے ورثے کو محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ نظریہ پاکستان کے لیے، یہ اتحاد علاقائی قیادت کے حصول اور ایک نئے، مضبوط، اور خودمختار مستقبل کی ضمانت ہے۔

Comments

Click here to post a comment