ہوم << مولانا محمد علی جوہر اور مسجدِ اقصیٰ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

مولانا محمد علی جوہر اور مسجدِ اقصیٰ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

میں جیسے ہی پولیس چیک پوسٹ عبور کر کے باب الحطہ کے راستے مسجد اقصٰی کے احاطے میں داخل ہوا پاکستان سے ڈاکڑ مبشر جلیس صاحب کا پیغام آ گیا کہ مولانا محمد علی جوہر بھی مسجد اقصٰی کے احاطے میں کہیں دفن ہیں ان کی قبر پر ضرور حاضری دینا اور ہمارا بھی سلام کہنا
ان کا یہ پیغام بڑا بروقت تھا کیونکہ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ وہ یہیں کہیں دفن ہیں لیکن کہاں یہ میں نہیں جانتا تھا
اور سچی بات ہے کہ ان کا نام بلکل ذہن سے نکل گیا تھا
آج ہمارا یروشلم میں پہلا دن تھا
میں اور بلال رات ساڑھے گیارہ بجے ہوٹل پہنچے تھے جبکہ حمزہ گروپ کے باقی لوگوں کے ساتھ کل دوپہر ہی آگیا تھا
دبئی سے امارات کی پرواز کے ذریعے ہم چھ بجے تل ابیب ائیرپورٹ پر پہنچے
مجھے تو الیکڑونک مشین نے ویزا دے کر دو منٹ میں ہی فارغ کر دیا تھا لیکن امیگریشن والوں نے بلال کو روک لیا تھا اور تقریباً پانچ گھنٹے کی تفشیش اور تحقیق کے بعد اسے ویزا دیا
ہم نے فجر کی نماز مسجد اقصٰی میں پڑھی اور اشراق کی نماز پڑھ کر واپس ہوٹل آ گئے تھے
ناشتہ کرنے کے بعد تقریباً نو بجے سارا گروپ ایک بار پھر مسجد اقصٰی پہنچ گیا
آج کا سارا دن مسجد اقصٰی اور اس کے گرد ونواح کی زیارتوں کے لئے مختص تھا
پہلے قبة الصخرا پھر مسجد اقصٰی اور اس کے زیر زمین تہہ خانوں لائبریری اور پرانی مسجد اقصٰی کی زیارت میں ہی سورج ڈھل گیا
سارا دن میں اِدھر اࣿدھر دیکھتا رہا
میری نظریں کسی قبرستان کی تلاش میں تھیں جہاں مولانا محمد علی جوہر دفن تھے
لیکن کہیں کوئی قبر نظر نہیں آئی
کئی لوگوں سے پوچھا بھی لیکن ہر کوئی ان کے نام سے ناواقف نکلا
حمزہ نے گوگل پر تلاش کرنے کی بھی کوشش کی لیکن بےسود
تھے تو وہ یہیں کہیں لیکن ہمیں نظر نہیں آرہے تھے
مولانا سے ملاقات اتنی دشوار ہو جائے گی اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا
ظہر کی نماز ہم لوگوں نے قبةالصخر ہ کے چبوترے پر پڑھی اور اب مسجد براق جانے کا پروگرام تھا
مسجد براق اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں حضور اکرم صلعم نے معراج کی رات اپنا براق باندھا تھا
مسجد براق مسجد اقصٰی کے احاطے میں مغرب کی طرف یہودیوں کی دیوار گریہ کے اندر واقع ہے اس لئے مسلمان دیوار گریہ کو دیوار براق کہتے ہیں
اس مسجد کو تیس سال تک بند رکھا گیا تھا اور ابھی چند سال پہلے ہی اسے مسلمان زائیرین کے لئے دوبارہ کھولا گیا ہے
سب لوگ بڑے ذوق وشوق سے احاطے کے مغربی حصے کی جانب جا رہے تھے
کہ اچانک خبر آئی کہ مسلمان زائرین کے لئے اسے بند کر دیا گیا ہے کیونکہ یہودیوں کا ایک گروہ اس کی زیارت کے لئے آیا ہوا ہے ہم رک گئے
اتنے میں سامنے سے آٹھ دس یہودی نوجوان
کوئی تئیس پنتیس یہودی فوجیوں کے کڑے پہرے میں سامنے سے گذر کر اسلامک میوزیم کی طرف جاتے نظر آئے
جس طرف دیوار گریہ اور مسجد براق واقع ہے
ہم لوگ قبہ الصخرا کے چبوترے کے نیچے زیتون کے گھنے درختوں کی چھاؤں میں آکر بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب یہودی واپس جائیں گے اور کب ہماری باری آئے گی
دیر ہوگئی ہم انتظار کرتے رہے
ہمارا گائیڈ گروپ کے چند لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کی سالی کے باغات جیسا زیتون پورے القدس میں کہیں اور پیدا نہیں ہوتا اور لوگ اس کی چرب زبانی سے متاثر ہو کر اس سے فرمائش کرنے لگے تھے کہ کسی طرح وہ اپنی سالی کے باغات سے زیتون کا تیل ان کے لئے لے آئے تو وہ اسے منہ مانگی قیمت دیں گے
اور ہم اس کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے
وہیں امریکہ سے آئی ڈاکٹر نورین سے ملاقات ہوئی جو ڈاکٹر امنیہ خان کے قریب بیٹھی تھیں
ڈاکٹر نورین کنگ ایڈورڈ کی گریجویٹ ہیں اور پہلے بھی ایک بار یروشلم آ چکی تھیں
ڈاکٹر امنیہ پرتھ Perth آسڑیلیا میں رہتی ہیں اور سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں ان کا تعلق لاہور کے ایک بڑے عالم فاضل گھرانے سے ہے وہ خود بھی بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں
اقبالیت اور غالب کی ماہر
وہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی بہو ہیں
ان کی گفتگو بہت فکر انگیز ہوتی ہے اور ان سے بات کر کے ہمیشہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے
تاریخ مسلم پر ان کا مطالعہ خاصا گہرا ہے
باتوں ہی باتوں میں مولانا محمد علی جوہر کا تزکرہ چھڑا تو ڈاکٹر امنیہ نے تحریک خلافت میں اماں بی کے کردار کاذکر چھیڑ دیا
اسی دوران ڈاکٹر نورین نے انکشاف کیا کہ یہاں مولانا کو کوئی بھی جوہر کے نام سے نہیں جانتا بلکہ انہیں مولانا محمد علی ہندی کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑا انکشاف یہ تھا کہ وہ کسی قبرستان میں نہیں بلکہ باب القطانين
Cotton Merchants' Gate
سے ملحقہ ایک کمرے میں دفن ہیں
اگر وہ یہ بات نہ بتاتیں تو شائد قیامت تک ہم انہیں نہ ڈھونڈ پاتے
دیر ہو گئی تھی یہودیوں کا ایک گروپ جاتا تو دوسرا آ جاتا ہر طرف یہودی سپاہی موجود تھے
ہم لوگ بے بسی سے زیتون کے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے انہیں آتے جاتے دیکھتے رہے بے بسی کیا ہوتی ہے اور غلامی کیا ہے اس دن ہمیں بھی اس کا تھوڑ سا احساس ہوا تھا
آخر خدا خدا کر کے سارے یہودی جتھے واپس چلے گئے اور ہماری باری آئی
مسجد براق کی زیارت کے بعد گروپ کے باقی افراد تو مسجد اقصٰی کی طرف چلے گئے
لیکن ہم تینوں مولانا محمد علی
جو ہر کوڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر کا ر ان تک پہنچ ہی گئے
ایک بڑے کمرے میں میرے بچپن کا ہیرو اماں بی کا دلارا ہمیشہ کی نیند سو رہا تھا ان کے اردگرد چند اور بھی قبریں تھیں
پتہ چلا کہ یہ کمرہ دراصل
خواتین کے ایک مدرسے کا حصہ ہے جو عرصے سے بند پڑا ہے اس مدرسے کا نام المدرسة الخاتونيـة تھا
Al-Khatuniyya
Madrasa
یہ مدرسہ ۱۳۴۹ ء میں بغداد کی ایک دولتمند عورت اغل خاتون نے قائم کیا تھا
اغل خاتون خود بھی اسی کمرے میں دفن ہیں
ان کے ساتھ والے کمرے میں شریف مکہ حسین بن علی اردن کے حکمرانوں کے جد امجد مدفون ہیں
مولانا کی قبر تک تو رسائی ممکن نہ تھی لیکن کھڑکی کھلی تھی میرے سامنے ہی سنگ مرمر کے بستر کے نیچے وہ سو رہے تھے
میں دونوں ہاتھوں سے کھڑکی کی سلاخیں پکڑ کر انہیں دیکھتا رہا
میں نے فاتحہ کے بعد ڈاکٹر مبشر جلیس اور دیگر دوستوں کے سلام انہیں پہنچائے
ان سے معافی بھی مانگی کہ مولانا ہم بحیثیت قوم آپ سے شرمندہ ہیں کہ
آپ کے ضمیر نے تو غلام ملک میں دفن ہونا گوارا نہیں کیا تھا
لیکن ہم آپ کے اس مان کا پاس نہ رکھ سکے ہماری کمزوریوں اور ہماری کوتاہئوں نے آپ کو اک بار پھر غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے
آپ نے اپنی ابدی نیند کا آغاز تو ایک آزاد ملک سے ہی کیا تھا لیکن ہم نے آپ کی آزادی کو غلامی میں بدل دیا ہے اور ہم اتنے نااہل ہیں کہ آپ کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ غلامی کے یہ اندھیرے اور کتنے دن چھائے رہیں گے
حمزہ بلال کو ان کے حالات زندگی سنا رہا تھا اور میری چشم تصور میں ان کا چہرہ گھوم رہا تھا
مجھے پچپن میں پڑھی تحریک خلافت کی وہ کہانی یاد آرہی تھی جو اماں بی اور اس کے دو مجاہد بیٹوں کے گرد گھومتی تھی
میں ہر ماہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی اس قسط وار کہانی کا شدت سے انتظار کیا کرتا تھا جس نے مجھے ترکوں اور خلافت سے روشناس کروایا تھا
ماؤں نے کیسے اپنے زیور اپنے بیٹے خلافت کی بحالی کی نذر کر دئیے تھے
یہ اماں بی نے بتایا تھا
اماں بی اور اس کے دونوں مجاہد بیٹے ہمیشہ سے میرے دل کے نہاں خانوں میں آزادی کی علامت بن کر زندہ تھے اور آج میں اماں بی کے ایک بیٹے کے حضور کھڑا اسے خراج عقیدت پیش کر رہا تھا
مولانا محمد علی جوہر ۱۸۷۸ء کو ریاست رام پور کے شہر نجیب آباد میں ایک بہت ہی آسودہ حال یوسف زئی خاندان میں پیدا ہوئے جب وہ پانچ سال کے تھے تو ان کے والد عبدل علی خان کا انتقال ہوگیا
ان کی والدہ عبادی بیگم ایک مجاہد خاتون تھیں انہیں انگریز کی غلامی سے شدید نفرت تھی اور آزادی کی یہی امنگ انہوں نے نے اپنے بیٹوں کی رگوں میں بھی بھر دی تھی وہ خود تو مدرسے سے تعلیم یافتہ تھیں لیکن انہوں نے اپنے بیٹوں کو بہترین انگریزی تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائی اور انہیں انگلینڈ تک میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا
اور وہ برصغیر کی ان چند پہلی خواتین میں سے ہیں جو انگریز راج سے آزادی کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں
تاریخ میں انہیں
“اماں بی “ کے نام سے یاد کیا جاتاہے
مولانا شوکت علی ان کے بڑے بھائی تھے
مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی ، الہ آباد یونیورسٹی اور لنکن کالج آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی
انڈیا واپس آنے کے بعد انہوں نے کچھ عرصے کے لئے انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی
آزادی طبعیت میں تھی لہذاٰ جلد ہی یہ زنجیر توڑ دی اور آزادی کی عملی جدوجہد میں شمولیت اختیار کرلی اور دامے ، درمے ، سخنے انگریز راج سے نجات کے لئے جدوجہد کرنے لگے
۱۹۰۲ ء میں ان کی شادی یوسف زئی قبیلے کی ہی ایک خاتون امجدی بیگم سے ہوئی جو بہت پڑھی لکھی خاتون تھیں
اماں بی نے بہو بھی اپنے جیسے ڈھونڈی تھی جو ساری عمر اپنے خاوند کے ساتھ آزادی کے سفر میں اس کے شانہ بشانہ چلتی رہی
ان کا نام محمد علی تھا اور تخلص جوہر
مصنف ، شاعر، لیڈر ، دانشور اور مقرر کیا کچھ نہیں تھے وہ
لیکن ان کی ساری توانائیاں ساری صلاحیتں ، ساری کوششیں اب انگریز سامراج کے خلاف خرچ ہو رہی تھیں
زمانہ طالب علمی سے ہی وہ دنیا کے معروف اخبارات میں لکھتے چلے آئے تھے
آبزرور The Observer ، دی ٹائمز The Times ، مانچسٹر گارڈ ئین Manchester Guardian میں ان کے مضامین چھپا کرتے تھے
اب انہوں نے ۱۹۱۱ ء میں کلکتہ سے اپنا انگریزی ہفت روزہ کامریڈ Comrade کے نام سے نکالا جو بہت جلد مقبول ترین پرچہ بن گیا
۱۹۱۲ ء میں دیلی آ گئے اور یہاں سے ایک اردو روزنامہ “ ہمدرد” کے نام سے نکالا
انہوں نے محمڈن مسلم کالج کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا
۱۹۲۰ ء کو دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی قائم کی
۱۹۰۶ ء میں ڈھاکہ میں جب مسلم لیگ بنی تو وہ آل انڈین مسلم لیگ کے بانی ارکان میں سے تھے
اور ۱۹۱۸ ء میں اس کے صدر بھی رہے
پہلی جنگ عظیم میں ترکی ہار گیا
اتحادیوں نے ترکی پر قبضہ کر لیا
ترکی کی سیاست پر کمال پاشا اور اسکی نیشنلسٹ پارٹی کا غلبہ ہوگیا
سارے مل کر مسلمانوں کی مرکزیت کو ختم کرنے کے درپے تھے
خلافت خطرے میں پڑ گئی
برطانوی حکومت کمال پاشا کے ساتھ مل کر خلافت کو ختم اور خلیفہ سلطان وحیدالدین کو جلا وطن کرنا چاہتی تھی
پوری دنیا کے مسلمانوں میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی
دنیا بھر کے مسلمان خلافت کو بچانے کے لئے سڑکوں پر آگئے
۱۹۱۹ء میں انڈیا سے ایک وفد لندن گیا تاکہ برٹش گورنمنٹ کو خلافت عثمانیہ کو قائم رکھنے پر آمادہ کیا جا سکے
لیکن برٹش گورنمنٹ نے وفد کا کوئی بھی مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا
مولانا محمد علی جوہر انڈیا واپس آئے اور انہوں نے تحریک خلافت قائم کی
جس میں اسوقت کے تمام ہی سرکردہ مسلم راہنما شامل تھے
عطااللّہ شاہ بخاری ، حکیم اجمل خان ،مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی ، اور ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی اس تحریک میں ان کے دست و بازو بنے
اماں بی ، امجدی بیگم اور مولانا حسرت موہانی کی بیگم نے خواتین میں تحریک برپا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین اپنے گھروں سے نکلیں انہوں نے اپنے زیور اتار کر تحریک کی نذر کر دئیے
اماں بی نے اپنی نو سالہ پوتی گلنار کے گلے میں تھیلی ڈالی اور اپنی بہو امجدی بیکم کے ساتھ ہندوستان کی ہر گلی اور ہر محلے میں گئیں انہوں نے تحریک خلافت کے لئے چالیس لاکھ روپے اکٹھے کئے اس پر یو پی کے گورنر میلکم ہیلی نے غصے میں آکر مولانا محمد علی جوہر کے خاندان کے بارے میں کہا تھا
Malcolm Healey, Governor of UP, in his speech in the Constituent Assembly while accusing Maulana Muhammad Ali Jauhar of inciting rebellion, said “Even the women of his household collect donations and go on the rampage of inciting unrest.
بعد میں گاندھی کی نیشنل گانگریس نے بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اور انگریزوں پر ہندوؤں کا دباؤ بڑھانے کے لئے تحریک خلافت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا
پورے ہندوستان کے طول و عرض میں انگریزوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلی انگریز کو اپنا راج سنگھاسن ڈولتا محسوس ہونے لگا
مولانا محمد علی جوہر ان کے بھائی مولانا شوکت علی اور دیگر راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا
مقدمے چلا کر سزائیں سنائی گئیں
مولانا محمد علی جوہر کو اڑھائی سال کی جیل ہوئی
اماں بی ایک بار پھر میدان میں آگئیں انہوں نے ستر سال کی عمر میں پورے ہندوستان کے طوفانی دورے کئے وہ گلی گلی گئیں گھر گھر پہنچیں ان کی تقریروں نے ہندوستان کے طول و عرض میں آگ لگا دی
ان دنوں شفیق رامپوری کی نظم
“ صدائے خاتون “ برصغیر کی مقبول ترین نظم بن گئی
جس کا پہلا مصرع “ بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو” ہندوستان کے ہر بچے کی زبان پر تھا
یہ نظم آج بھی خون گرما دیتی ہے
“بولی اماں محمد علیؔ کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہیں شوکتؔ علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
گر ذرا سست دیکھوں گی تم کو
دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو
میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
غیب سے میری امداد ہوگی
اب حکومت یہ برباد ہوگی
حشر تک اب نہ آباد ہوگی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
کھانسی آئے اگر تم کو جانی
مانگنا مت حکومت سے پانی
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا
کلمہ پڑھ پڑھ خلافت پہ مرنا
پورے اس امتحاں میں اترنا
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہوتے میرے اگر سات بیٹے
کرتی سب کو خلافت پہ صدقے
ہیں یہی دین احمد کے رستے
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
حشر میں حشر برپا کروں گی
پیش حق تم کو لے کے چلوں گی
اس حکومت پہ دعویٰ کروں گی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
چین ہم نے شفیقؔ اب نہ پایا
جان بیٹا خلافت پہ دے دو “
لیکن ۱۹۲۳ء کو ترکی میں کمال پاشا کی نیشنلسٹ پارٹی نے ملک کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور ۱۹۲۴ء میں خلیفہ کو معزول کرنے کے بعد خلافت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا خلیفہ کو جلاوطن کر دیا گیا
اور یوں اپنوں کے ہاتھوں ہی قبائے خلافت تار تار ہوئی
اس موقعہ پر اقبال نے کہا تھا
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
خلافت ختم ہونے کے بعد بظاہر تحریک خلافت کا جواز ختم ہوگیا تھا اتحاد ٹوٹ گیا
عطااللّہ شاہ بخاری نے تحریک احرار بنا لی
گاندھی نے بھی چوری چورا کے واقعہ کو بنیاد بناکر تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی
جس میں مظاہرین کے ساتھ ٹکراؤ میں پولیس والے مارے گئے تھے
ابوالکلام آزاد ، حکیم اجمل ڈاکڑ انصاری نے گاندھی کا ساتھ دیا
اماں بی کا ۱۹۲۴ ء میں انتقال ہو گیا
علی برادران مسلم لیگ کی طرف واپس لوٹ آئے
بظاہر تو تحریک خلافت ناکام ہو گئی تھی لیکن اس تحریک کے اثرات بہت دور رس اور گہرے تھے
اس نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں میں انگریز راج کے خلاف آزادی کا جو بیج بویا تھا
وہ علیحدہ ملک کے نعرے کی صورت میں تناور درخت بننے لگا
اس تحریک کے سب سے زیادہ دور رس نتائج ترکی کے طول و عرض پر مرتب ہوئے اور آج نوے سال گذرنے کے بعد بھی آپ کو اس کے اثرات محسوس ہوتے ہیں
میں ترکی میں جہاں بھی گیا پڑھے لکھے ترکوں نے مجھے عزت دی انہیں ہندوستان کے مسلمانوں کی تحریک خلافت بھی یاد تھی اور اماں بی اور اس کے بیٹوں اور اہل ہندوستان کی ترکی اور خلافت کے لئے دی جانے والی قربانیاں بھی
وہ آج بھی اپنے آپ کو ہندوستان کے مسلمانوں کے قرضدار سمجھتے ہیں
مولانا محمد علی جوہر نے اپنی باقی زندگی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد میں گزار دی ان کی ساری جائیداد برٹش گورنمنٹ نے بحق سرکار ضبط کرلی ان کے دونوں شماروں ہمدرد اور کامریڈ پر پابندی لگا دی گئی اور پرنٹنگ پریس پر بھی قبضہ کر لیا گیا
انکے رام پور داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی جہاں ان کے خاندان کے سارے افراد رہتے تھے انہیں باغی غدار اور دہشت گرد قرار دیا گیا
وہ کئی مرتبہ پابند سلاسل رہے لیکن کوئی بھی پابندی کوئی بھی سزا ، کوئی بھی الزام انہیں آزادی کا مطالبہ کرنے سے نہ روک سکی
ان کی جدوجہد جاری رہی
۱۹۳۱ء میں وہ پہلی گول میز کانفرنس کے سلسلے میں انگلینڈ گئے جہاں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے آخری بار انگریز کو للکارا ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کیا اور اعلان کیا کہ اب میں غلام ملک واپس نہیں جاؤں گا
کانفرنس ابھی جاری تھی کہ انہیں سٹروک ہوا اور باون سال کی عمر میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے لیکن انہیں غلام ہندوستان میں دفن ہونا بھی گوارا نہ تھا انہوں نے مسجد اقصٰی میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی
انہیں بحری جہاز کے ذریعے حیفہ کی بندرگاہ پر لایا گیا
جہاں ہزاروں مسلمان ان کے استقبال کے لئے موجود تھے
ان کا جنازہ آج نوے سال گذرنے کے بعد بھی یروشلم کے چند بڑے جنازوں میں شمار کیا جاتا ہے
انہیں یروشلم میں مسجد اقصٰی کے احاطے میں دفن کر دیا گیا
فلسطینی انہیں مجاہد اعظم محمد علی ہندی کے نام سے یاد کرتے ہیں
اور یہی نام ان کی قبر کے کتبے پر درج ہے
اس موقعہ پر اقبال نے مولانا محمد علی جوہر کے متعلق کہا تھا
اے خوشا مشت غبارِ او کہ ازجذبِ حرم
از کنارِ اندلس و از ساحلِ بربر گزشت
خاکِ قدس او را بہ آغوشِ تمنا در گرفت
سوئے گردوں رفت زاں راہے کہ پیغمبر گزشت
(ترجمہ: مبارک ہے وہ مشت غبارجو حرم کی کشش سے اندلس کے کنارے اور بربر کے ساحل سے گزرگئی ۔ بیت المقدس کی سرزمین نے اسے اپنی آغوش تمنا میں لے لیا اور وہ اس راستے سے آسمانوں کی طرف چلاگیا جس راستے سے پیغمبر گزرے تھے)
چند دن بعد جب ہم القدس
( یروشلم) میں قائم زاویہ ہندی کی زیارت کے لئے گئے جہاں حضرت بابا فرید گنج شکر نے چلہ کاٹا تھا تو وہاں ہماری ملاقات زاویہ ہندی کے موجودہ مہتمم کے بوڑھے والد سے ہوئی جو سو سال کے پیٹے میں ہوں گے
انہیں وہ جنازہ آج بھی یاد تھا کہنے لگے کہ میں اس وقت سکول میں پڑھتا تھا میں اپنے والد کے ساتھ انہیں یروشلم لانے کے لئے حیفہ گیا تھا میں نے اپنی زندگی میں لوگوں کا اتنا بڑا اجتماع پھر کبھی نہیں دیکھا
زاویہ ہندی کی لائبریری میں دیوار پر لٹکی اکثر تصاویر انہی کے متعلق تھیں
جس میں ان کے یروشلم کے دورے کی تصاویر اورمفتی اعظم فلسطین اور شاہ اردن کے ساتھ ان کی تصاویر ہیں
جن میں سے اایک بڑی تصویر ان کے جنازے کی بھی تھی
مولانا کی کہانی ان کے فوت ہونے پراس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک ہم ان کی بیگم امجدی بیگم کا تذکرہ نہ کرلیں
جب لندن میں پہلی گول میز کانفرنس ہوئی تو وہ اپنے خاوند کے ساتھ اس کانفرنس میں بھی موجود تھیں مولانا نے ان کے ہاتھوں میں دم توڑا وہ بہادر خاتون خود مولانا کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ان کو پہلے بحری جہاز میں حیفہ اور پھر وہاں سے ٹرین میں یروشلم لے کر گئیں انہیں اپنے سامنے دفنایا
واپس ہندوستان آئیں اور اپنی باقی زندگی اپنے خاوند کا عہد پورا کرنے میں اور پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں گذار دی
قائد اعظم کی خواہش پر وہ آل انڈیامسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی پہلی خاتون رکن بنیں
پچیس رکنی کمیٹی میں وہ واحد خاتون تھیں
ان کا پردہ بھی ان کی راہ کی رکاوٹ نہ بن سکا
خاوند کی وفات کے بعد آمدنی کے سارے ذرائع بند ہونے اور ساری جائیداد ضبط ہونے کے بعد بھی وہ نہ صرف پاکستان بنانے کی تحریک میں قائداعظم اور فاطمہ جناح کے شانہ بشانہ چلتی رہیں بلکہ انہوں نے اپنی دونوں بٹیوں کی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی
۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو لاہور میں قرار داد پاکستان پیش ہوئی اس اجلاس میں ان کی تقریر اتنی یادگار تھی کہ مدتوں لوگوں کو یاد رہی
جس پاکستان کو بنانے کے لئے ان کے خاوند اور انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں
وہ اس پاکستان کو بنتا نہ دیکھ سکیں
اور پاکستان بننے سے چند مہینے پہلے ۲۸ مارچ ۱۹۴۷ ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں
قائد اعظم نے ان کی وفات کو قوم کے لئے بہت بڑا نقصان قرار دیا تھا
مولانا محمد علی جوہر بھی زندگی بھر آزادی کے لئے جدوجہد کرتے رہے
اور مرتے وقت بھی انہوں نے اپنی قبر کے لئے ایک آزاد ملک کو منتخب کیا
لیکن آج ان کی قبر پر غلامی کے اندھیرے چھائے ہیں
غلامی کے یہ اندھیرے کب چھٹیں گے
فلسطین کی آزادی کا سورج کب طلوع ہوگا
اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا اورمیں شرمندہ سا
سر جھکائے ان کے سامنے کھڑا رہا
جانے کتنی دیر گذر گئی
پھر فضا میں عصر کی اذان کی آواز گونجی تو میں اپنے خیالات کی دنیا سے واپس لوٹ آیا
حمزہ اور بلال باہر سیڑھیوں پر میرا انتظار کر رہے تھے
اور ہم سر جھکائے چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتے مسجد اقصٰی پہنچ گئے جہاں لوگ نماز با جماعت کے لئے تیار تھے
از تحریر
ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ
مولانا محمد علی کے چند اشعار
۱- قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
۲- توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
۳ - شکوہ صیاد کا بے جا ہے قفس میں بلبل
یاں تجھے آپ ترا طرز فغاں لایا ہے
۴- نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے
سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تو آتا ہے
۵- وقار خون شہیدان کربلا کی قسم
یزید مورچہ جیتا ہے جنگ ہارا ہے