کل کام تپا ہوا تھا تو میں نے خاموشی اختیار کئے رکھی کیونکہ لبرلز کو تو سمجھانا فضول ہے کیون وہ ہوتے ہی بند دماغ ہیں، انہوں نے قسم کھا کر طے کر چکے ہیں کہ کچھ بھی ہو جاۓ معقولیت اختیار نہیں کرنی۔ البتہ جو لوگ کھلے دل و دماغ سے سوچنے کے قائل ہیں تو یہ تحریر انکے لئے ہے
————
لکی مروت ہو یا ملک کا کوئی دوسرا علاقہ، ہر جگہ پلوشہ کی بیان کردہ بیماریاں کم و بیش موجود ہیں، وہ علاقے جو مذہبی لحاظ بہت اعلی درجے میں سمجھے جاتے ہیں، تو یہ بیماریاں وہاں بھی موجود ہیں۔
لہذا پلوشہ کا سوال سو فیصد درست تھا
جہاں تک ڈاکٹر زاکر نائیک کے جواب کا تعلق ہے تو اسے دو سطحوں میں تحلیل کرکے دیکھنا پڑے گا:
۱۔ ایک سطح پر ڈاکٹر صاحب کا اسلوب (approach)
۲۔ دوسری سطح پر انکے جواب کا مغز(essence)
ڈاکٹر صاحب کا اسلوب مکمل جارحانہ اور غیر واضح رہا اور ہم اس اسلوب کا دفاع نہیں کرتے۔
ڈاکٹر صاحب کے جواب کا مغزبہرحال قابل غور ہے۔ وہ کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ “اگر معاشرہ —— واقعی——اسلامی ہو تو اس میں یہ بیماریاں نہیں ہو سکتیں کیونکہ اگر ایسی بیماریاں موجود ہوں تو اسکا مطلب ہے معاشرہ اسلامی ہے ہی نہیں۔ اور اگر کوئی زبردستی ایسے معاشرے کو اسلامی کہے، پھر ایسی بیماریوں کو اسلام سے نتھی کرے تو وہ غلط ہو گا اور اسے معافی مانگنی چاہئے”
یہاں ڈاکٹر صاحب کا اسلوب انکے درست جواب کو منفی طور پر متاثر کرگیا اور وہ جو کہہ رہے تھے وہ دیکھنے سننے والے بلکل مختلف معانی میں لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب کو زرا زیادہ وقت لیکر اپنی بات کی وضاحت کرسکتے تھے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔ ایسی غلطیاں ہم سب سے ہوتی رہتی ہیں اور انکو پکڑ کر کسی کے بڑے وسیع سطح کے کام کو زیرو سے ضرب دینا مناسب نہیں۔
نوٹ: واضح رہے کہ معاشرہ کتنا بھی اسلامی ہو جاۓ تب بھی گناہ اور جرائم کا وجود ممکن ہے۔ سو فیصد ایک ناممکن الحصول ہدف ہے البتہ معاشرہ اسلامی ہو تو ایک تو ایسی بیماریاں یا جرائم ہوتے ہی نہ نہایت کم ہیں، دوسرا معاشرہ اور قانون انکو دبا کر رکھتا ہے۔
———————-
اب یہاں اپنی ایک پرانی تحریر شئیر کر رہا ہوں۔ آپ لڑکی کے سوال کو زہن میں حاضر رکھیں اور اس تحریر کو پڑھیں تو معاملہ سمجھ آ جاۓ گا:
“اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر”
ذندگی کے کئی سال اس چیز پر غور و فکر میں گزر گئے کہ اسلام کی رسمی عبادات کا ایک شاندار مجموعہ ہے جو بغیر کسی کمی بیشی کے، چودہ سو سال کا تسلسل رکھتا ہے۔ نسل در نسل ان عبادات کی ادائیگی جاری ہے اور ان میں سے ہر عبادات کو انجام دیتے ہوۓ مسلمان اللہ تعالی کیساتھ کچھ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں
لیکن
لیکن اس سب کے باوجود مسلمانوں کے معاملات اتنے خراب ہیں کہ بسا اوقات انکے مقابل کافر معاملات میں بہتر نظر آنے لگتے ہیں
ساری سوچ و بچار کا جو فائنل نتیجہ میں نکال سکا ہوں وہ یہی ہیکہ
مسلمانوں نے اپنی رسمی عبادات اور معاملات کو آپس میں connect ہی نہیں کیا۔
وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ انکی رسمی عبادات انکے معاملات کے لئے اساس ہوتی ہیں، اور انکے معاملات انکی عبادات کی روح کا عملی اظہار ہوتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی خوبی یا کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر عبادات میں کمزوری ہے تو وہ معاملات میں ظاہر ہو کر رہتی ہے، اگر معاملات میں کمزوری ہے تو اسکا مطلب ہے عبادات میں مسئلہ ہے۔
یہ مکمل طور پر دوطرفہ تعامل ہے۔(two-way interaction & transaction) ہے
تبصرہ لکھیے