ڈاکٹر ذاکر نائیک، احمد دیدات کے شاگرد ہیں۔ جو لوگ احمد دیدات کے کام سے واقف نہیں وہ یوٹیوب پر ان کی ویڈیوز سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ احمد دیدات اس زمانے میں تقابل ادیان کے موضوع پر کام کر رہے تھے جب سوشل میڈیا اور میڈیا کا کیبل اور ڈش کے ذریعے دوسرے ممالک تک رسائی کا انتظام نہیں ہوا تھا۔ وی سی آر کی کیسٹس کے ذریعے ان کے مکالمے دوسرے ممالک پہنچتے اور وہاں سے وہ پھر معاشرے کے دین پسند حلقوں میں پھیل جاتے۔ مگر احمد دیدات نے صرف دین پسند نہیں بلکہ بہت سے جدید نظریات کے حامل لوگوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ احمد دیدات بہت سے دوسروں اشخاص کی طرح مختلف موضوعات، دنیا کے اتار چڑھاؤ اور معاملات سے بھی متاثر ہوتے تھے۔
مثلا وہ ایرانی انقلاب سے کافی حد تک متاثر رہنے کے بعد اس تحریک کے داعی نہ بننے کو ترجیح دیتے اور پھر اپنا فوکس انہوں نے صرف تقابل ادیان کے موضوعات کو ہی رکھا۔
جن لوگوں نے احمد دیدات کو دیکھا اور سنا ہے، وہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک میں کس شخص کی جھلک ہے۔ فرق یہ ہے کا ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے تقابل ادیان کے موضوع کی بنیاد پر ایک ادارے کی بنیاد رکھی اور وہ موضوعات جو علماء کا خاصہ ہیں۔ اس پر صرف علماء سے بات کروائی اور Peace TV جیسا چینل ہندوستان کے ہند کدے میں رکھا بھی اور چلایا بھی۔
ایک مزے کا معاملہ یہ ہے کہ مشہور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب، الرحیق المتوم کے مصنف، صفی الرحمان مبارک پوری رحمہ اللہ کی دیگر تصانیف میں سے ایک تصنیف "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہندو کتابوں" میں ہے۔ جسے انھوں نے اپنی قلمی نام ابن اکبر العظمی سے پبلش کیا تھا۔ اس کتاب میں کالکی اوتار کا سارا معاملہ پہلی دفع صفی الرحمان مبارک پوری رحمہ اللہ دنیا کے سامنے لائے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس سے خوب استفادہ حاصل کیا۔ صفی الرحمان مبارک پوری بھی ہندستانی مسلمان تھے مگر ان کا پاکستان سے لگاؤ ایک الگ کہانی ہے جس پر پھر کبھی لکھنے کا ارادہ ہے انشاءاللہ۔
دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کی طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاکستان کے متعلق بھی خیالات نپے تلے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی وہ ہندوستانی ریاست اور وہاں کے معاملات کے مطابق ہی بیان دیتے ہیں۔ ان سے اس معاملات پر اختلاف ہم پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں کا رہے گا اور دعا بھی ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کی سختیوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے چکے ہوں گے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان کے برہمن کے متعلق جو خوش فہمیاں ہیں ان سے کیسے نکلنا چاہئیے۔
سنہ 2016/17 کی بات ہے کہ ایک اور عالم دین ڈاکٹر بلال فلپس اور ان کی یونیورسٹی کو بھی ہندوستانی عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی ورچوئیل یونیورسٹی جس میں دنیا بھر سے لوگ پڑھتے تھے اس کا بنیادی اسٹاف اور بہت سا پبلشنگ کا کام ہندوستان سے ہوتا تھا۔ ہندوستانی حکومت اور ریاست نے ان کے کام پر بھی پابندی لگا کر ان کو دہشت گردی سے نتھی کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر بلال فلپس سے کسی زمانے میں میری بہت گہری ملاقات رہی ہے۔ جتنا کام انھوں نے دین اسلام کے لئیے خاموشی سے کیا ہے، شاید ہی کم علماء کے کھاتے اس طرح بھرتے ہوں۔ مگر اختلافات بہرحال ہر عالم سے ہوسکتا ہیں اور وہ علمی نوعیت کا اختلاف رکھتے ہوئے بھی آپ ان کی عزت اور ان کی دین اسلام کے لئیے کاوشوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
سوشل میڈیا پر جاری طوفان بدتمیزی اور بعض مخصوص حلقوں کی طرف سے جس طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک کو لے کر بات چیت ہورہی ہے وہ انتہائی بیہودہ اور نا مناسب ہے۔ اگر آپ کو علمی اختلاف ہے تو سو دفع رکھیں۔ اس پر ان کو مناظرے کی دعوت دینا، ان کو انگریز کا ایجنٹ کہنا، ان کے کردار پر صرف اس لئیے کیچڑ اچھالنا کہ اللہ نے ان کو آپ سے زیادہ عزت سے نواز دیا ہے، یہ آپ کے چھوٹے کردار کا عکس ہے جو کھل کر سامنے آتا ہے۔ اس سے گریز ہی مناسب ہے۔ دین کے ٹھیکیداروں کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی۔
اگر انگریزوں کا ایجنٹ ہونے پر تحقیق شروع ہوگئی تو ہندوستان و پاکستان کے اکثر گدی نشین اور مخدومین کے اکابرین اور آباو اجداد کی تاریخ کافی رنگین ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جو کچھ ہوا اور جس جس مخدوم نے جس جس طرح غداری کے عوض خلعتیں، گدیاں اور مربے اپنے نام کروائے، وہ اس داستان چونچکاں کا ایک تاریک باب ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک مہمان کے طور پر آرہے ہیں۔ وہ ایک بین الاقوامی شخصیت ہیں۔ آپ کو ان کا لیکچر سننا ہے سنئیے۔ نہیں سننا، مت سنئیے۔ مگر انتشار کی کیفیت پیدا کرنے سے گریز فرمائیں۔ لبرلز اور سیکولرز کا تو سمجھ میں آتا ہے مگر آپ حضرات نے اندر اتنا غصہ کیوں ہے وہ بعض دفع سمجھ سے باہر ہوجاتا ہے۔
اللہ ہم سب کے اندر برداشت کا مادہ پیدا فرمائیں۔ جو لوگ مسلمانوں کے عمومی مسائل کو لے کر کھڑے ہیں ان کو تقویت پہنچانے کا سبب بنائیں اور اپنے اندرونی اختلافات کو علمی سطح کے اوپر حل کرنے کے ہمت، طاقت اور توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے