ہوم << قصہ حسین علیہ السلام کے سر کا- ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قصہ حسین علیہ السلام کے سر کا- ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قسط نمبر 2
“ یہ مضمون میری آنے والی کتاب “اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے ۔ جو فلسطین اور اسرائیل کے سفر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے ۔”

حضرت حسین علیہ السلام کے ساتھ اور کربلا اور دمشق میں پیش آنے والے واقعات کی حد تو تمام شیع اور سنی علماء مورخین اور محدثین میں واقعات کی تھوڑی بہت تفصیل کے اختلاف کے باوجود اتفاق ہے ۔
لیکن اس کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر کے ساتھ کیا بیتی اس بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔
حضرت حسین علیہ السلام کے سر کے حوالے سے آٹھ روایات ہیں ۔
۱- اس روائیت کی بنیاد یہ ہے کہ سر مبارک بدن کے ساتھ دفن ہے
کچھ علماء کا خیال ہے حضرت زین العابدین پہلے یہ سر اپنے ساتھ مدینہ لے گئے اور پھر کربلا لا کر اسے بدن مبارک کے ساتھ دفنایا اور چند تاریخ دان اور محدثین اس بات پر یقین رکھتے ہیں حضرت زین العابدین پہلے کربلا آئے اور سر کو دفنانے کے بعد مدینہ گئے۔
اکثر محدثین نے مقتل الحسین کے حوالے سے نقل کیاہے کہ
‎جب یزید نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک پر چھڑی مارنا شروع کر دی،تو وہاں موجود حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ جو صحابی رسول ؐ تھے
‎وہاں موجود تھے وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے، ان کا بدن کانپ رہا تھا، کہنے لگے ظالم !یہاں اپنی چھڑی ہٹا لے، میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ حضوراکرمﷺ نے ان ہونٹوں کو خود چوما ہے، یہ کہہ کر آپؓ دربار سے نکل گئے، آپؓ روتے تھے اور آپؓ کے بدن پر کپکپی طاری تھی۔ بعد میں یزید حضرت امام زین العابدین ؓ سے مخاطب ہوا اور کہا کہ حضرت! غلطی ہو گئی ، میں
‎ایسا نہیں چاہتا تھا، بتائیں اگر آپ ؓ کی کوئی شرط ہو؟جس کے جواب میں حضرت امام زین العابدینؓ نے یزید کے سامنے چار شرائط رکھیں،پہلی شرط یہ تھی کہ سر حسینؓ سمیت تمام کربلا کے شہیدوں کے سر مبارک ہمارے حوالے کردئیے جائیں تاکہ ہم کربلا جا کر ان کی تدفین کر سکیں، دوسری شرط یہ تھی کہ ہمیں مدینہ حفاظت سے پہنچا دیا جائے، تیسرے شرط یہ تھی کہ مجھے آج
‎جمعہ کے روز دمشق کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت دی جائے، چوتھی شرط یہ تھی کہ قاتلان حسین ؓ کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ جس پر یزید نےدربار میں مخاطب ہو کر پوچھا کہ کون ہے حسین ؓ کا قاتل، لوگوں نے کہا کہ خولی ہے، وہاں موجود خولی نے کہا کہ میں نے قتل نہیں کیا، یہ سنان بن انث نخی نے کیا ہے، جب سنان بن انث نخی سے دریافت کیا گیا
‎تو اس نے جواب دیا کہ میں حسینؓ کو قتل کیوں کرتا؟یہ تو شمر بن ذوالجوشن نے کیا ہے، شمر بن ذوالجوشن سے جب پوچھا گیا کہ تم بتائو تو اس نے کہا کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا ، میرا امام حسینؓ نے کیا کچھ بگاڑا تھا؟قتل اس نے کیا ہے جس کی حکومت کو خطرہ تھا، وہ ہے قاتل حسینؓ کا، جس پر یزید نے امام زین العابدینؓ کو کہا کہ یہ شرط آپ ؓ کی میں پوری نہیں کر سکتا،
جس پر امام زین العابدین ؓ نے کہا ٹھیک ہے تم میری پہلی تین شرطیں پوری کر دو ۔ چوتھی شرط میں اپنے اللّہ پر چھوڑتا ہوں جس پر یزید نے ان کی پہلی تینوں شرطیں مان لیں ۔ اور امام زین العابدین ؓ نے دمشق کی جامع مسجد میں اس دن جمعہ کا خطبہ دیا اور حضرت حسین علیہ السلام اور دیگر شہداء کے سروں کے ساتھ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ دمشق سے روانہ ہوئے اور کربلا پہنچ کر اپنے بابا کا سر ان کے جسم کے ساتھ دفن کر دیا
زیادہ تر شیع اور سنی محدثین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چالیس دن کے بعد امام سجاد علیہ السلام جب شام سے واپس تشریف لائے تو وہ سر امام کو اپنے ساتھ لائے اور کربلا میں اپنے بابا کے بدن کے ساتھ دفن کیا ۔
شیع علما میں سے شيخ صدوق (متوفي 381 ق)، سيد مرتضی (متوفي 436 ق)، فتّال نيشاپوری (متوفي 508 ق)، ابن نما حلی، سيد ابن طاووس (متوفي 664 ق) شيخ بہائی اور علامہ مجلسی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سر مبارک کو چالیس دن کے بعد کربلا لا کر بدن کے ساتھ دفن کیا گیا ۔
‎ابن جوزی (متوفی 654ق) نے کتاب تذکرة الخواص میں ذکر کیا ہے کہ:
‎اشهرہا انہ ردہ الى المدینة مع السبایا ثم رد الى الجسد بکربلا فدفن معہ،
‎مشہور ترین یہ قول ہے کہ حسین ابن علی (ع) کے سر کو مدینہ سے کربلا لایا گیا تھا اور بدن کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔
شيخ صدوق اور ان کے بعد فتّال نیشاپوری نے اس بارے میں لکھا ہے کہ: علی ابن حسین (امام سجاد) اہل بیت (ع) کی خواتین کے ساتھ شام سے واپس آئے اور امام حسین (ع) کے سر کو بھی اپنے ساتھ کربلا واپس لے کر آئے۔
قرطبی (متوفي 671 ق) نے بھی لکھا ہے کہ: شیعہ کہتے ہیں کہ امام حسین کا سر 40 دنوں کے بعد کربلا واپس لایا گیا اور بدن کے ساتھ ملحق کیا گیا تھا اور یہ دن ان (شیعہ) کے نزدیک بہت مشہور ہے اور اس دن جو زیارت پڑھی جاتی ہے، وہ اس کو زیارت اربعین کہتے ہیں۔
‎زکریا قزوينی نے بھی لکھا ہے کہ
‎یکم صفر کو، بنی امیہ کی عید کا دن ہے، کیونکہ اس دن امام حسین کے سر کو شہر دمشق میں لایا گیا اور 20 صفر کو انکا سر واپس بدن کے ساتھ ملحق کیا گیا تھا۔
‎ابن شہر آشوب نے سید مرتضی کے اسی کلام کو نقل کرنے کے بعد، شیخ طوسی کے قول کو بھی نقل کیا ہے کہ:
‎قال الطوسي رحمة اللہ: و منہ زيارة الاربعين،
‎اسی وجہ ( امام کے سر کا بدن کے ساتھ ملحق ہونے) سے دوسرے ائمہ نے امام حسین کی زیارت اربعین پڑھنے کی بہت تاکید کی ہے۔
شمس الدین المقدسی دسویں صدی عیسوی کے بہت مشہور اور مستند تاریخ نویس اور جغرافیہ دان ہیں وہ 940ء کو یروشلم میں پیدا ہوئے ۔ وہ یروشلم میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے ۔ انہوں نے 985ء میں دمشق کی سیر بھی کی ۔ اور انکا انتقال 991ء کو قاہرہ میں ہوا
ان کی کتاب “أحـسـن الـتـقـاسـيـم في مـعـرفـة الأقـالـيـم” جس کا انگریزی میں ترجمہ The Best Divisions in the Knowledge of the Regions کے نام سے ہوا ہے ۔ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر فلسطین کے حوالے سے ایک انتہائی شاندار اور مستند کتاب ہے جس میں انہوں نے فلسطین کے سارے مقدس مقامات کے حوالے سے بڑی تفصیل لکھی ہے ان کی اس کتاب کو آج بھی اہل مغرب بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فلسطین کےحوالے سے ایک ریفرنس بک مانا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انکی ایک اور کتاب Description of Syria (Including Palestine) آج بھی اہل علم کے لئے مشعل راہ ہے ۔ انہوں نے اپنی کسی بھی کتاب میں نہ تو حضرت حسین علیہ السلام کے سر کا ذکر کیاہے اور نہ ہی فلسطین میں کسی ایسی زیارت گاہ کے بارے میں لکھا ہے جہاں یہ سر دفن ہو ۔
اس سے ایک بات تو اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے کہ دسویں صدی کے اختتام تک ایسی کوئی روائیت موجود نہیں تھی ۔
2 - دوسری روائیت یہ ہے کہ
“نجف میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی قبر کے پاس دفن کیا گیا:
عمر ابن طلحہ نے حضرت امام صادق کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سر مبار نجف میں دفن ہے ۔
ابان ابن تغلب بھی اسی خیال کے حامی ہیں ۔
3 - نہر فرات کے کنارے واقع مسجد رقہ میں دفن ہے ۔
4 - کچھ علماء کے نزدیک آپ کا سر مدینہ میں دفن ہے ۔
‎ ابن نماحلی کہتے ہیں کہ عمرو ابن سعید نے سر مطہر امام حسین (ع) کو مدینہ میں ۔
‎قبرستان جنت البقیع میں امام حسین کی والدہ گرامی حضرت
‎فاطمہ رضی تعالیٰ عنھا کی قبر کے پاس دفن کیا ۔
‎بعض دوسرے اہل سنت علما جیسے خوارزمی نے کتاب مقتل الحسین میں اور ابن عماد جنبلی نے شذرات الذھب میں بھی یہی نظریہ قبول کیا ہے
5 - پانچویں روائیت یہ ہے کہ
آپ کا سر مبارک دمشق میں دفن ہے ۔
بلازری ، جرجانی ، یحییٰ بن حسین محمد باقر اور کئی اور مورخین کے نزدیک آپ کا سر دمشق میں دفن ہے ۔
محمد باقر نے بلازری کو نقل کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھا ہے کہ
“جب منصور ابن جمہور نے شام کو فتح کیا تو شہر میں داخل ہونے کے بعد، وہ یزید کے خزانے والے کمرے میں گیا، وہاں پر اسے سرخ رنگ کی ایک ٹوکری ملی! منصور نے اپنے غلام سے کہا کہ اس ٹوکری کو حفاظت سے رکھو کہ یہ بنی امیہ کے قیمتی خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، لیکن جب اس کو تھوڑے عرصے کے بعد کھولا تو دیکھا کہ اس میں امام حسین کا نورانی سر ہے، جس سے عطر کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ ایک کپڑا لائے، اس نے سر کو اس کپڑے سے ڈھانپ دیا اور پھر کفن کرنے کے بعد اس سر کو دمشق میں باب فرادیس کے پاس دفن کر دیا۔”
بعض علماء قائل ہیں کہ سر مبارک کو تین دن دروازہ دمشق پر آویزاں رکھنے کے بعد اتار کر حکومتی خزانے میں رکھ دیا گیا اور سلیمان عبد الملک کے دور تک یہ سر وہیں تھا۔ اس نے سر مبارک کو وہاں سے نکالا اور کفن دے کر دمشق میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا ۔
6 - چھٹی روائیت کے مطابق نہر فرات کے کنارے ایک شہر ہے، جس کا نام رِقّہ ہے، اس دور میں آل عثمان میں سے آل ابی محیط کے نام سے مشہور ایک قبیلہ وہاں آباد تھا، یزید نے سر مقدس ان کے پاس بھیجا اور انھوں نے اسے اپنے گھر کے اندر دفن کر دیا، بعد میں وہ گھر مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔
طبقات ابن سعد ، تاریخ طبری اور شیخ مفید کی کتاب الارشاد میں بھی یہی لکھا ہے ۔
7 - بہت سے علماء محدثین اور تاریخ نویسوں کا نظریہ ہے کہ حضرت حسین کا سر کچھ عرصہ تک تو اموی مسجد میں رہا اور عباسیوں کے دور میں کہیں گم ہوگیا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کے ساتھ پھر کیا بیتی ۔
شمس الدین الذھبی نے تاریخ الاسلام و الطبقات المشاہیر و الاعلام اور سیر اعلام النبلاء
میں کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔
ابن کثیر (البدایہ والنہایہ) ،
ابن فضل‌الله عمری ( مسالک الابصار فی ممالک)
ابن تیمیہ اور
شهاب‌الدین نویری ( نہایۃ الارب فی فنون الادب)
یہ سب اسی نظریہ کے حامی ہیں
8- آٹھویں روائیت کے مطابق
فاطمید اور اسماعیلی فرقے کے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت حسین کا سر قاہرہ مصر میں دفن ہے ۔ اور اس سے پہلے یہ عسقلان میں دفن تھا ۔
عہد وسطیٰ کی تاریخ میں کسی بھی اور نظرئیے کو اتنی پزیرائی نہیں ملی جتنی اس نظرئیے کو ملی ۔ غالباً اس کے سب سے بڑی وجہ فاطمید خلافت کا پوری طاقت کے ساتھ اس نظرئیے کے پیچھے کھڑا ہونا ہے ۔
فاطمید خلافت 909 ء سے لے کر 1171 ء تک دو سو ساٹھ سال تک قائم رہی ۔ انہی اڑھائی سو سالوں میں یہ نظریہ پروان چڑھا کہ حضرت حسین علیہ السلام کا سر عسقلان میں دفن ہے ۔
حالانکہ تاریخی اعتبار سے یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی اور خود اسی نوے فی صد شیع بھی اس روائیت پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی بڑے اور غیر جانبدار محقق اور تاریخ دان نے اس کی تائید کی ہے اور اس سلسلے کی ساری کڑیاں فاطمید اور اسماعیلی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تاریخ دانوں تک ہی محدود ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ اڑھائی سو سال تک ایک ریاست کی پوری مشنری اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس نظرئیے کو فروغ دیتی رہی اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ یہ یہ بات زور پکڑتی رہی کہ حضرت حسین کا سر اڑھائی سو سال تک پہلے عسقلان میں اور اب بارہ سو سال سے قاہرہ کی مسجد الحسین میں دفن ہے
(جاری ہے )
حضرت حسین علیہ السلام کے سر کے ساتھ کیا بیتی اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیے
(جاری ہے )