دعا کے دروازے جس خوش نصیب کے لیے کھل گئے،اس کے لیے رحمتوں کے دروازے کھل گئے ۔دعا جو عبادت کا مغز ہے،اللہ رب العزت کے نزدیک اس سے زیادہ عزت والی کوئی شے نہیں ۔بندہ جب اپنے رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو رب مالک الملک اِس بات سے شرماتا ہےکہ اپنے بندے کو خالی ہاتھ لوٹائے ۔جو اپنے رب سے نہیں مانگتا ،اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔دعا اسباب میں سے قوی ترین سبب ہے۔اور تقدیر کوبھی دعا کے علاوہ کوئی شے بدل نہیں سکتی۔
اللّٰہ القریب السمیع المجیب کا احسان ِعظیم ہےکہ اس نے یہ حکم دیا ہے﴿اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾”مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا“(سورہ غافر: 60 )۔ اور اپنے غیر سے مانگنے کو قطعی حرام قرار دیا ﴿لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ إِلَٰهًا آخَرَ ﴾”اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا“ (سورہ قصص: 28)۔
اللہ تعالیٰ سب بادشاہوں سے بڑا بادشاہ ہے۔ دنیا وآخرت، آسمان و زمین کا مالک ہے۔مگر اس نے اپنے کمال فضل و احسان سے اپنے دربار تک رسائی کس قدر آسان فرمادی کہ بندہ جہاں کہیں ہو، بروبحر میں، خلوت ہو یا جلوت میں ، بس اپنے ہاتھ اٹھائے دل کو خوف و امید سے مزین کرے، پھر عاجزی اور اخلاص و یقین کے ساتھ اسے پکارے تو اسی لمحے اس کی التجا و مناجات کو اپنے رب کے حضور رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔
بندہ بشر کمزور اور ضعیف ہے۔﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا﴾”انسان کمزور پیدا کیا گیاہے“(سورہ نساء: 28)۔ اسے اپنے ہر ہرمعاملے میں رہنمائی کے لیے رب کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کی اشد ضرورت ہے۔ بندے نے اپنے رب سے مانگنا ہے۔ مگر وہ مانگےکیا؟ قربان جایئے رب رحمٰن کی عنایتوں پر کہ اس نے قرآنی اور مسنون دعاؤں کی صورت میں اپنے مومن بندوں کو اپنے عظیم فضل سے نوازا ہے۔ دنیا و آخرت کی کوئی خیر نہیں جس کو طلب کرنے کی تعلیم ان مسنون دعاؤں میں نہ دی گئی ہو اور اسی طرح کوئی شر نہیں جس سے ان دعاؤں میں پناہ نہ طلب کی گئی ہو۔ یہ مسنون دعائیں بذات ِ خود نبی آخر الزمان ﷺ کی نبوت کی صداقت کی بیّن دلیل ہیں۔ جب بندہ ان دعاؤں کو پڑھتا ہے تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ دعائیں نبی اکرم ﷺ کو بذریعہ وحی سکھائی گئی ہیں کیونکہ دنیا و آخرت کی لطیف سے لطیف اور دقیق سے دقیق کوئی حاجت نہیں جو ان دعاؤں میں مذکور ہونے سے رہ گئی ہو۔ اسی طرح ان مبارک دعاؤں سے بندۂ مومن کو اپنے رب تعالیٰ کے محبوب اعمال اور مرضیّات کا علم ہوتا ہے اور ان اعمال و صفات کا بھی جو رب تعالیٰ کی ناراضی و غضب کا موجب ہوں۔ الغرض یہ قرآنی و مسنون دعائیں بندۂ مومن کے لیے دنیا وآخرت کی تمام خیر طلب کرنے اور تمام شر سے پناہ مانگنے کے لیے کافی ہیں۔
اسلام ایک حرکی (dynamic) دین ہے۔اس میں جمود کا کوئی تصور نہیں ہے ۔لہٰذا اسلام کے تمام اعمال ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔اور بندۂ مومن کواپنے رب کی رضا کے راستوں پر آگے چلاتے جاتے ہیں۔جیسا کہ تلاوتِ قرآن کریم ہے۔مومن کی تلاوت اسے عمل پر ابھارتی ہے۔اور عمل اس کی تلاوت کو پختہ کرتا ہے،اور اس کے فہم اور علم ِقرآن کو جلا بخشتا ہے۔صحابہ کرام رات کوتہجد میں قرآن کی تلاوت کرتے تھے تو صبح اس تلاوت کو عمل میں لاتے تھے۔صحابہ کرام کا بیان ہے کہ جب ہم دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک کہ ان آیات کا علم اور عمل جمع نہ کر لیتے(بحوالہ مسند احمد 23482)۔ آج ہماری تلاوت کا حا ل ہم خوب جانتے ہیں ۔اول تو ترجمہ اور تفسیر سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔مگر ترجمہ پڑھ بھی لیا ،قران کلاسز میں شرکت کر بھی لی تو بھی اس تلاوت کو عمل میں ڈھالنے کی کوشش و مشق سے کوسوں دور رہتے ہیں۔یہی حال ہماری دعاؤں کا بھی ہے اور ان مبارک مسنون دعاؤں سے ہمارا تعامل ایساہی ہےجیسا کہ تلاوتِ قرآن سے ہمارا تعامل ہے۔یہی وجہ ہےکہ نہ تلاوت کرنے سے ہمارے اندر کوئی انقلاب برپا ہوتا ہےاور نہ ہی مسنون دعاؤں کی مجرد تلاوت کرنے سے ہمارے اندر کوئی تبدیلی ہی واقع ہوتی ہے ۔جبکہ دعا ا ور عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔دعا عمل کو مضبوط کرتی ہے، عمل کا تازہ جہاں بساتی ہے تو عمل دعا میں رقت وخشیت اور حضو رئ قلب کا باعث بنتا ہے۔
یہ مسنون دعائیں بندۂ مومن کے لیے ایک صاف شفاف آئینے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ایسا چمکدار آئینہ جس کے سامنے کھڑے ہو کرمومن اپنا بنظرِ غائر جائزہ لیتا ہے۔وہ یہ غور کرتا ہے کہ جو خیر کی صفت میں اپنے اللّٰہ تعالیٰ سے طلب کر رہا ہوں کیا اپنی پوری شعوری قوت کو بروئے کار لا کر،استطاعت کی آخری حد تک کوشش کر کے اس خیر کو حاصل کرنے کی عملاً کوشش بھی کر رہا ہوں یا نہیں ؟ کیا میں جس برائی یا بری صفت سے پناہ مانگ رہا ہوں،کیا اپنی پوری کوشش سے اسے دور کرنے کی سعی بھی کر رہا ہوں یا نہیں ؟
دعاؤں کا یہ آئینہ آپ کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو آپ کے سامنے رکھ کر آپ کے لئے خود احتسابی کے عمل کو آسان بنائے گا۔یہ آپ کے لیے زندگی گزارنے کالائحہ عمل متعین کرے گا۔آپ کی تر جیحات اورپسند ناپسند کےسقم آپ پر عیاں کرے گا،جس کے نتیجے میں آپ کےلئے تزکیہ نفس اور اصلاح کا دروازہ کھلے گا۔اور آپ ان دعاؤں کی چھاؤں میں عملی دنیا میں آگے بڑھتے جائیں گے۔
ذرا اس مثال پر غور کیجئے ۔ایک طالب علم ہے جس کے امتحانات سر پر کھڑے ہیں ۔وہ حضرت پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز پڑھتے ہیں اور نماز کے بعد بہت دیر تک امتحانات میں کامیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔مگر مسجد سے نکل کر،گھر جا کر امتحانات کی تیاری کے لئے پڑھائی کرنے کے بجائے یہ سیدھا کھیل کے میدان کا رخ کرتے ہیں اور سارا وقت کھیلتے رہتے ہیں۔گھر لوٹ کر بھی قصے کہانیوں کی کتابوں میں مگن رہتے ہیں ۔اور بھولے سے بھی اپنی نصابی کتابوں کو نکال کر دیکھتے تک نہیں۔خود انصاف سے بتائیے کہ ایسا طالب علم اپنی دعاؤں میں آپ کے نزدیک سچا ہے؟یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا ۔بلکہ آپ یہ کہیں گےکہ یہ طالب علم دعاؤں کے ساتھ کھیل کر رہاہے۔مانا کہ عین ممکن ہےکہ خدانخواستہ کوئی کرونا کی وبا پھیلے،تعلیمی ادارے بند ہو جائیں اور بلا امتحان ہی یہ طالب علم پاس ہو جائے ۔مگر کتاب وسنت سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہےکہ دعا کے ساتھ عمل کو اپنی استطاعت کے مطابق جمع کرو گے تو پھر تمہارے لیے قبولیت اور خیر کے دروازے کھل جائیں گے۔
اب ہم اللّٰہ رب العزت کے آخری پیغام ،قرآن کریم کو بصد احترام کھولتے ہیں اور ساتھ ہی دعابھی کرتے ہیں کہ"اے اللّٰہ! ہمارے دل کے کان اپنے ذکر کے لئے کھول دے،اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت نصیب فرما اور اپنی کتاب پر عمل نصیب فرما۔ آمین ۔“
اللّٰہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کے ذریعے صراط مستقیم مانگنے کی تعلیم دی اور جب بندے نے یہ دعائے ہدایت مانگی تو معا ً بعد سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ ان بنیادی صفات کے حامل بنو گے تو ہدایت یافتہ اور فلاح والے بنو گے۔اگر ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کیا تو پھرہر گز ہدایت نہ پا سکو گے۔بندہ جب ہدایت کو قبول کرتا ہے ،تمردواستکبار نہیں کرتا اور نہ ہی ادنیٰ مفادات کی خاطر آیات الٰہی کوبیچتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ ناصرف یہ کہ اسے ہدایت نصیب کرتا ہے بلکہ اس کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے۔اور تقوی بھی نصیب کرتا ہے۔﴿وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَاٰتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ﴾”رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے“(سورہ محمد:17)۔ سو یہاں ہدایت کی دعا کے ساتھ ایک پورا عمل کا نصاب آپ کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ۔
آگے چلئے اورسورہ آل عمران کی ان آیات کا ملاحظہ کیجئے:
﴿هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ اٰيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِ لَّا اللّٰهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ اٰمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﰆ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﰇ﴾
” وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حاﻻنکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان ﻻچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے واﻻ ہے۔ “(سورہ ال عمران: 7-8)
ان آیات میں اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو لائحہ عمل دیا کہ میری کتاب میں بیان کردہ ہر بات پر اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہو ، دلوں میں زیغ یعنی ٹیڑھ پن پیدا کرنے والے عمل یعنی متشابہات کےدر پے ہونے سے بچو،اور ہر آیت کے منجانب اللّٰہ ہونے کا یقین رکھو۔اور اس 'عمل' کے ساتھ ساتھ یہ دعا کرو کہ” اے ہمارے رب !ہمیں ہدایت دینے کے بعد، ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے۔۔۔“سو یہاں بھی آپ نے نوٹ کیا کہ دعا کے ساتھ ہی دلوں کو ٹیڑھ پن سے بچانے کے لیے ایک واضح لائحہ عمل دیا گیا ہے ۔بلکہ دعا کا ذکر بعد میں اور اس لائحہ عمل کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔
اب سورۂ ممتحنہ ملاحظہ فرمائیے ۔اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھی اہلِ ایمان کے بارے میں بتلایا ہے کہ کیسے انھوں نے اپنی مشرک قوم سے براءت کا اظہار فرمایا :
﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؗ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ ؕ رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَیْكَ اَنَبْنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ٤ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ٥﴾
”تمہارے لیے بہت اچھا نمونہ ہے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں (کے طرزِعمل) میں جب انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم بالکل بری ہیں تم سے اور ان سے جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا۔ ہم تم سے منکر ہوئے اور اب ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ہمیشہ کے لیے، یہاں تک کہ تم بھی ایمان لے آؤ اللہ پر توحید کے ساتھ، سوائے ابراہیم علیہ السلام کے اپنے باپ سے یہ کہنے کے کہ میں آپ کے لیے ضرور استغفار کروں گا اور میں آپ کے بارے میں اللہ کے ہاں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔ پروردگار ! ہم نے تجھ پر ہی تو کل کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ پروردگار ! تو ہمیں کافروں کے لیے تختہ امتحان نہ بنا دینا اور تو ہمیں بخش دے اے ہمارے پروردگار ! یقینا تو ہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ “(سورۂ ممتحنہ: 4۔5)
جب سید نا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہلِ ایمان ساتھیوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلانِ حق کیا،شرک اور اہل شرک سےبراءت اورعداوت وبغض کا اعلان کیا تو مشرک قوم ان کے در پے ہوگئی اور طرح طرح سے ایذا رسانی شروع کر دی ،یہاں تک کہ آخر میں نمرودنے سید نا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا ۔مگر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے یہ آگ ٹھنڈک اور سلامتی والی بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔
جب اہل ِشرک سے براءت کرنے کے نتیجے میں ان کی طرف سے آزمائش آئی تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی: رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَیْكَ اَنَبْنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ٤ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۔اب اگر کوئی شخص حق کے بجائے باطل کے کیمپ میں براجمان ہو ،اہلِ شرک کے بجائے اہلِ توحید اور اہلِ حق سے براءت کا اظہار کر رہا ہو،ایسے میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مذکورہ دعا اس کے منہ پر جچتی ہے؟ایسا شخص جو خود اہل ِحق کے لیے ایذارسانی کا باعث ہو،صبح وشام انہیں برا بھلا کہتا ہو،طرح طرح کے برے القابات سے نوازتا ہو،وہ کس منہ سے یہ دعا کرتاہے؟ یہ دعا تو اہلِ حق کو ایسے شخص سے پناہ مانگنے کے لیے کرنی چاہیے ۔
قرآن پاک میں جہاں کہیں آپ کسی دعاکی تعلیم پائیں گےوہیں اس کے پاس ہی اس دعا سے متعلق عمل کی ہدایت بھی پائیں گے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں جہاں مہربان رب نے یہ حکم دیا کہ خاص میری ہی عبادت کرو۔وہیں اس سے متصل والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم فرمایا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَقَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا ﰖوَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ﰗ﴾
” اور فیصلہ کردیا ہے آپ کے رب نے کہ مت عبادت کرو کسی کی سوائے اس کے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تو انہیں اف تک مت کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے بات کرو نرمی کے ساتھ، اور جھکائے رکھو ان کے سامنے اپنے بازو عاجزی اور نیاز مندی سے اور دعا کرتے رہو : اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔“ (سورۂ بنی اسرائیل: 23۔24)
یہاں بھی دیکھئے کہ بندۂ مومن کو کس تاکید کے ساتھ والدین کےساتھ احسان کرنے کا حکم فرمایا اور دعا کی تعلیم دینے سے پہلے چار اعمال بتا دئیے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے ہوئے ان کو ضرور ملحوظِ خاطر رکھو:
1. فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ ۔انہیں اف تک مت کہو
2. وَّلَا تَنْهَرْهُمَا ۔انہیں جھڑکو نہیں
3. وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا ۔ان سے نرمی سے بات کرو
4. وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ۔اپنے بازو ان کے سامنے عاجزی اور نیازمندی سے جھکائے رکھو۔
اب اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہو گی جو اپنے والدین کے لیے سراسر دردِ سر بنا ہوا ہو۔ان کی ناک میں دم کر کے رکھا ہوا ہو۔ہر بات میں ان کی مخالفت کرتا ہو۔کسی بات میں ان کی اطاعت نہ کرے مگر ساتھ ہی عادتاً یہ دعا﴿ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا﴾ بھی پڑھ لیتا ہو، کیا ایسا شخص اپنی دعا میں سچا ہے؟
اس کے بعد ہم نبی کریم ﷺ کی مبارک سیرت وسنت کے مہکتے چمن کا رخ کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ کیسے نبی اکرم ﷺ نے ان مبارک مسنون دعاؤں کے ساتھ عمل کی تعلیم کو جوڑا ہے۔اور کیسے نبی کریم ﷺ کی مبارک دعائیں آئینہ بن کر اپنے مانگنے والے سے عمل میں کوشش وجدوجہد اور صدق و اخلاص کا تقاضہ کرتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ﴿مَنْ سَأَلَ اللّٰهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ بَلَّغَهُ اللّٰهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ ﴾”جو شخص سچے دل سے شہادت مانگے گا اللّٰہ اسے شہدا ء کے منازل تک پہنچا دے گا اگر چہ وہ اپنے بستر پر ہی مرے۔“(صحیح مسلم ،کتاب الامارہ:حدیث نمبر 1909)
یہاں ان الفاظ پر خصوصی غور فرمائیں: مَنْ سَأَلَ اللّٰهَ الشَّهَادَةَ 'بِصِدْقٍ'۔جس نے ”سچے“دل سے شہادت اللہ سے طلب کی۔۔۔کتنے ہی لوگ ہیں جو روز شہادت کی دعا مانگتے ہیں مگر وہ اپنی اس دعا میں سچے نہیں ہوتے۔کیسے؟ اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ﴿وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً ﴾یعنی اگر وہ اپنی نیت میں سچے ہوتے توتیاری تو کرتے۔
عبداللہ عزام ؒفرماتے ہیں :”شہادت کی سچی طلب اسی کو ہے جو اللہ کی راہ میں نکل آیا یا نکلنے کے لیے سچے دل سے تیاری کری۔“اب اگر ایک شخص روز یہ دعا مانگتا ہے مگر عمل اس کا یہ ہے کہ اپنے محبوب گھراور گوشۂ عافیت سے ایک قدم باہر نکالنے کو تیار نہیں۔جہاں کہیں مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس جگہ سے اتنا دور نکل جائے کہ آزمائش کا دھواں اور غبار تک اسے نہ پہنچے۔ اس کی قلبی کیفیت کی عکاس یہ آیت کریمہ بن رہی ہوتی ہے: ﴿لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَهُمْ یَجْمَحُوْنَ ﴾ ” اگر یہ پالیں کہیں کوئی پناہ گاہ یا کوئی غار یا کوئی سر چھپانے کی جگہ تو یہ اس کی طرف بھاگ جائیں اپنی رسیاں تڑاتے ہوئے۔“ (سورہ توبہ: 57) اللہ کی راہ میں نکلنا تو درکنار یہ اللہ کی راہ میں نکلنے والوں سے بھی فاصلہ رکھتا ہے کہ کہیں ان کے شبہ میں بھی نہ دھر لیا جائے۔خود انصاف سے بتایئے کہ کیا وہ شہادت کی دعا مانگنے میں سچا ہے؟
سومحترم قارئین!یہ دعائیں تو اپنے ساتھ مقدور بھرعملی کوشش مانگتی ہیں ۔صدق واخلاق مانگتی ہیں۔جب بندہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ،سچے دل سے یہ مسنون دعائیں مانگتا رہےاور ساتھ میں ان دعاؤں کے آئینے میں اپنا جائزہ لے کر،حتی المقدورعملی تقاضوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر ان دعاؤں کی برکت سے اس کا تزکیہ نفس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اعمالِ صالحہ میں موجود کمزوری رفع ہو نی شروع ہو جاتی ہے۔ بندہ دعاؤں میں اپنے الوَدود رب کی مرضیات،یعنی ان اعمالِ صالحہ اور صفات ِحسنہ کا سوال کرتا رہتا ہے جن سے اس کا رب راضی ہوتا ہے اور پھر دعا سے فراغت کے بعد پوری شعوری کوشش کے ساتھ ان اعمالِ صالحہ اور صفاتِ حسنہ کو اپنانے کی عملی کوشش کرتا ہے ۔
جیسا کہ ایک مسنون دعا کا ابتدائی حصہ ہے:﴿اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی شَکُوْرًاوَّاجْعَلْنِی صَبُوْرًا﴾”اے اللہ مجھے اپنا شکر کرنے والا اور صبر کرنے والا بنادے۔“(مسند البزار، مجمع الزوائد) فرض کریں ایک شخص یہ دعا مانگتا ہے اور پھرحدیث مبارکہ میں پڑھتا ہےکہ﴿ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللّٰهُ﴾”جو کوئی صبر کرنے کی کوشش کرے گا اللّٰہ اسے صبر دے دے گا“(متفق علیہ)۔ چنانچہ وہ( 1) معصیت پر صبر،یعنی گناہ سے بچنے پر صبر(2) اطاعت پر صبر اور (3) مصائب پر صبر ؛ان تینوں مواقع پر مقدور بھر صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے،اس ضمن میں اپنی کمی کوتاہی پر دائمی نظر رکھتا ہےاور بار بار اللّٰہ سے صبر کے متعلق مسنون دعائیں بھی ساتھ مانگتا رہتا ہے تو یہ وہ طریقہ ہےجس سے دعاوعمل،دونوں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں اور بندہ تزکیہ واحسان میں ترقی کرتا جاتا ہے اور اپنے محبوب رب کی قربتوں کی منازل طے کرتا جاتا ہے ۔
دیکھئے! کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کی کتنی تر غیب آئی ہے۔اور ایک حدیث کی رو سےجس میں نبی ﷺ نے قرآن کریم ختم کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر فرمائی ہے ۔اس بنا پر علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ چالیس دن میں کم از کم ایک ختم القرآن لازمی ہو جانا چاہیے ۔ بندے نے ایک مرتبہ قرآن پاک پڑھ لیا،ترجمہ پڑھ لیا،احکامات جان لیے،اب کیوں بار بار تلاوت کی تاکید کی جا رہی ہے؟تاکہ اس مسلسل تلاوت کے نتیجے میں بندے کو بار بار اپنا جائزہ لینے اوراپنے آپ کو سنوارنے کا موقع ملے ۔یہی دعا کا معاملہ بھی ہے۔بندہ مؤمن کو کثرت سے اور با بار دعاکرنے کا حکم ہے ۔یہ نہیں کہ کسی ایک مرتبہ بیٹھ کر دنیا و آخرت کے حوالے سے تمام دعائیں مانگ لیں اور ہاتھوں کو چہرے پر پھیر کر فارغ ہو گئے ۔نہیں! بلکہ مستقل اور کثرت سے دعا مانگنی ہے ۔تہجد کی نماز کے بعد، فرض نمازوں کےبعد،افطاری کے وقت ، عمرہ وحج میں مختلف مواقع پر،دشمنان ِدین سے مڈ بھیڑ کے موقع پر الغرض بندۂ مومن کی ساری زندگی دعاؤں کے سائے تلے ہی گزرتی ہے۔اس کثرتِ دعا کی وجہ سے بھی بندہ مومن کو اپنے نصابِ عمل کی دہرائی کا موقع ملتا رہتا ہے۔وہ ان مبارک دعاؤں کی روشنی میں اپنے آپ کو سنوارنے کی سعی وجدوجہدمیں ہر دم مشغول رہتا ہےاورہدایت وسلامتی کے راستوں پر دوڑتا ہوا اپنے رب کی رضا اور جنت الفردوس کی طرف ہر لحظہ گامزن رہتا ہے۔
آج کے اس پُر فتن دور میں کہ جب نت نئے فتنے ایمان کی شمع بجھانے کے لیے اہل ایمان کے سروں پرگہرے بادل بن کرامڈتے چلے آرہے ہیں اور ایمان کی حفاظت کا کام مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ بندۂ مومن اخلاص وصدق اورعاجزی وخشیت سے معمور دعاؤں کے ذریعے اپنے رب سے مضبوط تعلق قائم رکھے۔ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ﴿ لا یخلص من شرھا إلا من أخلص الدعاء کدعاء الغرق في البحر﴾”ان فتنوں کے شر سے وہی نجات پائے گا جو اس بندے کی طرح کمال الحاج وزاری سے دعا کرے جو سمند ر میں ڈوب رہا ہو۔“ (کتاب الفتن لنعیم بن حماد)
خود سوچئے کہ ڈوبتا ہوا شخص کس اضطرار اور کمال اخلاص کے ساتھ اپنے رب سے نجات کی دعا مانگتاہے۔بس آج ہمیں بھی ان مسنون دعاؤں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہے۔ان کی مبارک روشنی میں اپنی کردار سازی کی مستقل کوشش کرنی ہے۔اور جیسی بھی حالت ہو ایک لمحے کے لیے مایوس نہیں ہونا ۔کیونکہ ہمارا رب بڑا ہی مہر بان ہے۔الرحمٰن ہے الرحیم ہے،الودودہے۔ حدیثِ قدسی کے مطابق جو اس کی طرف ایک بالشت آگے بڑھتا ہے ،وہ ایک ذراع اس کی طرف بڑھتا ہے،جو اس کی طرف چل کر آتا ہے رب اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ہمارا کام ہے ان مسنون دعاؤں کو اللہ تعالیٰ سے مستقل مانگنا اور پھر جیسے تیسے ممکن ہو ،گرتے پڑتے ،رب کی طرف دوڑ نا ۔پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ہمارا رب آگے بڑھ کر ہمیں تھام نہ لے۔۔۔
محترم قارئین !اگلے صفحات میں اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم چند قرآنی اور مسنون دعاؤں کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں گے ۔ غور کریں گے کہ یہ دعائیں ہم سے کیا تقاضہ کرتی ہیں ، ہماری سوچ اورفکر کو کیسے بلندی عطا کرتی ہیں اور عمل کا کیا نصاب ہمارے ہاتھ میں تھما تی ہیں۔میں اس اگلی گفتگو میں واحد متکلم کاصیغہ یعنی” میں “ کا لفظ استعمال کروں گا اور آپ پڑھنے والوں نے اسی ”میں“ میں اپنے آپ کو فِٹ کر کے ہر دعا کے متعلق اپنا جائزہ لینا ہے ۔کہ میں اس دعا کے سوالات اور عملی تقاضوں کے حوالے سے کہاں کھڑا ہوں اور مجھےکن عملی نکات کو ذہن نشین کر کے عملی مشق کرنی ہے۔تاکہ میرا محبوب رب ،میری یہ سعی وجدوجہد دیکھ کر میری اس دعا کو قبولیت کے شرف سے نوازے ۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز!
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ان مسنون دعاؤں کو کثرت سے مانگنے اور ان کی روشنی میں اپنی کردار سازی کرنے کی توفیق دے۔ امین
تبصرہ لکھیے